میں نے ایک ہفتے میں کورونا وائرس کی اپیڈیمولوجی/آبادی میں وبائی امراض کا علم بارے جو مضامین پڑھے ہیں، اُن سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جنگلی وائرسوں کو ایکٹو کرنے اور ان کے مشرقی علاقوں سے گلوبل ساؤتھ کی طرف پھیلنے کی سب سے بڑی زمہ دار ملٹی نیشنل ایگری بزنس ہے جس نے باران خیز استوائی جنگلات /ٹراپیکل فاریسٹ کو شدید نقصان پہنچایا اور اس نقصان نے وبائی امراض پھیلانے والے جرثومے ان ٹراپیکل جنگلات سے پیدا ماحول کے سبب جو جزوی طور پر مرجاتے تھے یہ عمل بہت کم ہوگیا ہے- انجانے وبائی جرثوموں کو جانوروں سے انسانوں میں منتقلی کا عمل روایتی فوڈ پروڈکشن کے شدید ترین صعنتی فوڈ پروڈکشن میں بدلنے سے ہوا ہے اور یہ فوڈ پروڈکشن پیری اربن ڈویلپمنٹ دو بڑے اربن سنٹرز کے درمیان مضافاتی علاقوں کا سٹی ویلجز میں بدلنے کا سببب بنی اور وہیں پر کرونا وائرس کی اجنبی اشکال جیسے سارس، میرس اور اب کویڈ-19 گلوبل ساؤتھ کی طرف پھیلی ہے-
قصہ مختصر یہ ہے کہ سرمایہ داری کے میکنزم کے تحت انڈسٹریل فوڈ پروڈکشن کورونا وائرس کا سبب ہے….. اور اس وائرس سے پھیلنے والی وبا کو تیسری دنیا کے نام نہاد گندے ثقافتی شعائر / so called dirty cultural practices
کے سر تھونپے جانے اور اسے کسی خاص نسلی یا مذھبی یا علاقائی گروہ کا کارنامہ بتلانے کا پروپیگنڈا یا اسے تیسری دنیا کی اقوام کی مذھبی یا مقامی ثقافتی عقائد کا شاخسانہ قرار دینا سرمایہ داری کے ‘تقسیم کرو، حکمرانی کرو’ پروپیگنڈے اور حکمت عملی کو آگے بڑھانا ہے-
ایکوہیلتھ کی تباہی سب سے زیادہ ایگری بزنس ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کی ہے بلکہ راب ویلاس جیسا سائنسدان تو یہ کہتا ہے کہ
ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پوری دنیا Commodity countries پر مشتمل ایک نیا جغرافیہ تشکیل دیا جو ممالک کی قومی سرحدوں کو سختی اور مضبوطی سے برقرار رکھتے ہوئے اپنا ہی ایک کاموڈیٹی ری پبلک بناڈالتے ہیں….. جیسے سویابین ری پبلک ہے جو لاطینی امریکہ کے کئی ممالک کی قومی سرحدوں کے ہوتے ہوئے ان ممالک پر ملٹی نیشنل سویا بین ری پبلک بناتے ہیں اور یہ جنگلات کی اسقدر بے رحمی سے کٹائی کرتے ہیں کہ ان کا ہدف ان ملکوں کے آخری جنگل تک ہے…..
اپیڈیمولوجی کا یہ مطالعہ ہمیں یہ باور بھی کراتا ہے کہ پینڈیمک سے نمٹنے کے جو ماڈل سرمایہ داری تیار کرتی ہے اُس میں سب کی صحت کا تحفظ / Securing health for all including millions of vulnerable people دوسرے نمبر پر ہوتا ہے اور سرمایہ دارانہ مفادات پر مبنی معشیت پہلے نمبر پر آجاتی ہے اور اس طرح سے ایمرجنسی کے دوران جو پالیسی سامنے آتی ہے اُس میں کمزور لاکھوں لوگوں کے مرنے کو ‘قسمت کا لکھا’ یا کمزور لوگوں کے نام نہاد گندے ثقافتی شعائر کو وجہ بناکر اسے ‘ناگزیر’ قرار دے دیا جاتا ہے-
سرمایہ داری کے حامی ہمیں یہ بات سمجھنے سے روکنے کے لیے ہر جتن آزماتے ہیں:
"پینڈیمک سرمایہ دارانہ منافعوں سے وابستہ ہے” اور یہ ایکولوجی کے اندر جو فطری فوڈ پروڈکشن کا طریقہ کار ہے اُسے غیر فطری
انڈسٹریل فوڈ پروڈکشن سے بدلنے کا نتیجہ ہے اور اس سے نمٹنے کے نام پر سرمایہ داری کے ایمرجنسی ماڈل سب کی صحت کے تحفظ پر سرمایہ داری منافعوں کو بچانے کے اصول پر استوار ہوتے ہیں تبھی اس ماڈل کے تحت ورکنگ کلاس سمیت کمزور ترین سیکشن کی جو تباہی ہوتی ہے اُس کا الزام تباہ ہونے والوں کے سر تھونپ دیا جاتا ہے – ”
#CoronaPandemic
#Capitalism
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ