مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چینی بحران پر تحقیقاتی رپورٹ۔۔۔رؤف لُنڈ

یاد رھے چینی کی قیمت میں یہ اضافہ دسمبر 2018ء سے جون 2019ء تک کا ھے۔ چینی کے نرخوں میں اضافوں کی اب تک کی پرواز اس کے علاوہ ھے

چینی بحران پر تحقیقاتی رپورٹ ۔۔۔۔۔ بات چل نکلی ھے تو بہت دور تک جائیگی ۔۔۔۔۔۔ حکمران طبقے کے ہر زخم کو محنت کش طبقے کی نجات کی جدوجہد میں بدلنا ہوگا۔۔۔۔۔

پاکستان کی سیاست میں عمران خان کو یہ کریڈٹ تو بہر طور جاتا ھے کہ اس نے اپنے قول و فعل سے ماضی کے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کر دکھایا ھے۔۔۔
جیسے ماضی میں اپنے اس سچ کو سچ ثابت کر دکھایا کہ "جب حکومت عوام پر ٹیکس عائد کرتی ھے، مہنگائی کرتی ھے تو سمجھ لیں کہ وہ چوروں کی حکومت ھے”۔ اسی طرح چینی بحران پر واجد ضیاء کی رپورٹ کہ اس بحران سے سب زیادہ فائدہ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار وغیرہ نے اٹھایا ھے۔ عمران خان کے اس جھوٹ کو جھوٹا ثابت کردکھایا ھے کہ ” اگر کپتان نیک ہو تو نیچے ٹیم حرامزدگی نہیں کرسکتی”۔ ۔۔۔۔۔۔۔
اب ذرا چینی کے بحران میں گُل کھلانے والوں کا حال سنیں۔ ایف آئی اے کے واجد ضیاء کی سربراھی میں تحقیقاتی کمیٹی کی رو سے اس بحران سے جہانگیر ترین ، خسرو بختیار کے بھائی وغیرہ نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ھے۔ ایک تو پہلے تین ارب روپے کی سبسڈی حاصل کر کے۔ دوسرا چینی کی قیمت 55 روپے فی کلو سے 71.44 روپے فی کلو قیمت کر کے۔۔۔۔
یاد رھے چینی کی قیمت میں یہ اضافہ دسمبر 2018ء سے جون 2019ء تک کا ھے۔ چینی کے نرخوں میں اضافوں کی اب تک کی پرواز اس کے علاوہ ھے۔ تیسرا فائدہ گنے کی قیمت بڑہانے سے اٹھایا گیا۔ گنے کی قیمت کا فائدہ اگرچہ ہر ریاستی اقدام کیطرح کسانوں کے فائدے کیلئے کیا گیا۔ مگر چونکہ شوگر ملز کو فراہم ہونے والی سب سے زیادہ مقدار اس گنے کی ہوتی ھے جو خود شوگر ملز مالکان کی وسیع و عریض جاگیر پر کاشت ہوتا ھے ۔ یہاں یہ امر بھی لائقِ ذکر ھے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے وطنِ عزیر پر حکمرانی کرنے والی سبھی بڑی پارٹیوں کے شریف اور زردار مالکان بھی شامل ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوچنا اور دیکھنا یہ ھے کہ کس نئی بات کا اظہار یا کیا بڑا انکشاف کیا گیا ھے اس رپورٹ میں ؟ جب ترین کے جہاز پر ممبرانِ پارلیمنٹ کو (گَدھوں کیطرح) لاد لاد کر تحریکِ انصاف کی صفوں میں شامل کرا کر حکومت سازی کے جشن کی تالیوں کی گونج میں چینی کے پہلے غریب گاہک نے مہنگی چینی کا پہلا کلو خرید کیا تھا تو چینی کی مہنگی قیمت کی ادائیگی سے بھی پہلے اس غریب کے منہ سے یہ پہلا تکلیف دہ جملہ نکلا تھا کہ ” یہ سب جہانگیر ترین کا کمال ھے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی عام غریب کی زندگی کی تلخیوں سے کشید کردہ ایک جملہ کسی بھی پاکباز حکومتی رپورٹ سے زیادہ معتبر ہوتا ھے۔ تبھی تو عظیم انقلابی دانشور اور صحافی منو بھائی نے کہا تھا کہ ” حکمران اپنی سچائی اور عوام کے خوشحالی کے جو دعوے کریں، باورچی خانے کی اطلاع زیادہ سچی ہوتی ھے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوچ اور دیکھ لیا تو سمجھنا یہ ھے کہ ھم غریب عوام اس رپورٹ کے حق میں تعریف کے ڈونگروں، قانون کی بالادستی کی پکار اور انصاف ہونے کے بھاشنوں سے کوئی غرض نہیں کیونکہ محنت کش طبقے کے ایک ایک بچے کو اس بات سے با خبر ھے کہ جب یہاں اس طبقاتی نظام میں سرمائے کیلئے سیاست اور سیاست کیلئے سرمایہ ضروری ھے۔ تو اس طرح کی کمائیاں ، قانون و انصاف کی چھلنی سے صاف چھننے کی ایسی خباثتیں بالادست طبقے کے سب خبیثوں کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ھے ۔۔۔۔۔

اب سوچنے، دیکھنے اور سمجھنے کے بعد ضرورت یہ ھے کہ محنت کش طبقہ حکمران طبقے کے سانپ گزر جانے اور لکیر پیٹنے جیسے نان ایشوز پر توجہ دینے کی بجائے خود کو حکمران طبقے کو سنپولوں کے ڈنگ اور زہر سے بچانے کیلئے ہتھیار اٹھانا ہوگا۔ مگر کونسا ہتھیار؟ سچے نظریات کا ہتھیار۔ جنگ کرنا ہوگی۔ مگر کون سی جنگ؟ طبقاتی سماج کے خاتمے کی جنگ؟ کیسے لڑی جائے یہ جنگ۔۔ ؟ حکمران طبقے کی رنگ نسل، مسلک و مذہب، قوم اور وطن کی تقسیم کو مسترد کر کے۔ ایک کے زخم کو سب کا زخم سمجھ کر۔ ایک کے دکھ سب کا دکھ بنا کر۔جذبوں کی سچائی اور جیت کے عزم کو بنیاد بناتے ہوئے ، عظیم فلاسفر اور انقلابی کارل مارکس کے اس نعرے کے یقین کیساتھ کہ ” دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ۔ تمہارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں اور پانے کو سارا جہان پڑا ھے ۔۔۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: