مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میرال طحاوی کے ناول”خیمہ“پر چند باتیں ۔۔۔محمد الیاس کبیر

میرال عبرانی، فارسی اور انگریزی زبان پر عبور رکھتی ہیں۔اُن کے تخلیقی سفر کا آغاز افسانے سے ہوا۔ ۱۹۹۵ء میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ شایع ہوا

عربی زبان کی قدر وقیمت سبعہ معلقات سے لے کر عہد ِ حاضر تک تسلسل کے ساتھ موجود ہے، کیوں کہ اس کے تخلیقی سرمائے نے اپنے اثرات عالمی ادب پر مرتسم کیے ہیں۔عربی ادب میں دیگر اصناف کی نسبت ناول قدرے ایک نئی صنف ہے۔ اردو کی طرح عربی میں بھی ناول کا آغاز تمثیلی قصوں سے ہوا۔ فرانسیسی اور انگریزی ادب کے زیر اثر نئے ادبی رجحانات نے عربی ادب میں تیزی سے جگہ بنائی۔ ۱۹۱۳ء میں محمد حسین ہیکل نے پہلا ناول ’زینب‘ لکھا جو آنے والوں کے لیے رہنما بنا۔ ماضی قریب کے عربی ناول نگاروں میں طہٰ حسین، عباس محمود العقاد، محمود طاہر لاشین اور نجیب محفوظ وغیرہ نے بیش بہافکشن تخلیق کیا۔ عصر حاضر میں عربی ناول کوثروت مند بنانے والوں میں میرال طحاوی کا نام لیا جارہا ہے۔

میرال طحاوی۱۹۶۸ء میں دریائے نیل کے کنارے میں واقع صوبے الشرقیہ میں پیدا ہوئیں۔ یہ علاقہ مصری بدوؤں کے ایک قبیلے الہنادی سے متعلق ہے جو انیسویں صدی کے اوائل میں جزیرہ نمائے عرب سے آکر مصر میں بس گیا تھا۔ ان کی ابتدائی زندگی عربی روایات کے مطابق گھریلو خواتین اور خادماؤں میں بسر ہوئی۔وہ شروع سے ہی روایت کے بجائے جدت کی قائل تھیں۔ اُس وقت اُن کی گفتگوئیں بعض اوقات کسی حد تک بغاوت پر منتج ہوتیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ میرال نے اپنے ترقی پسند خیالات کی بدولت تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں خاندانی جکڑ بندیوں کو توڑا۔ انھوں نے زجاج یونیورسٹی اور قاہرہ یونیورسٹی سے عربی ادب میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے قبیلے کی روایات سے ایک اور بغاوت کی اور اپنی شادی کسی دوسرے قبیلے میں کی۔بعد ازاں وہ ملازمت کے سلسلے میں امریکہ میں شفٹ ہوگئیں۔اپلاشین اسٹیٹ یونیورسٹی کیرولینا میں اسسٹنٹ پروفیسرر ہیں اور آج کل ایروزینا سٹیٹ یونیورسٹی امریکا میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ اپنی تخلیقی سرشاری کی وجہ سے مصرکا نجیب محفوظ ایوارڈ بھی حاصل کرچکی ہیں۔

میرال عبرانی، فارسی اور انگریزی زبان پر عبور رکھتی ہیں۔اُن کے تخلیقی سفر کا آغاز افسانے سے ہوا۔ ۱۹۹۵ء میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ شایع ہوا۔ یہاں سے اُن کے لیے کہانی کی دنیا وسیع ہوتی گئی اور انھوں نے ۱۹۹۶ء میں اپنے پڑھنے والوں کو ایک شاہکار ناول ”الخباء“ کے نام سے دیا جس کاکم و بیش چھ زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ انگریزی میں یہ ترجمہ انتھونی کالڈربینک (Anthony Calderbank)نے The Tentکے نام سے ترجمہ کیا۔اسی انگریزی ترجمے کو اجمل کمال نے ”خیمہ“ کے عنوان سے اردو کے روپ میں ڈھالا جسے انھوں نے اپنے ادارے ”آج“ کے اہتمام سے شایع کیا۔

میرال طحاوی کا یہ ناول زیادہ ضخامت کا حامل تو نہیں لیکن اس کے موضوع اور ماحول نے اسے ایک بڑا ناول بنادیا ہے۔ جہاں تک مصنفہ کی ناول نگاری کی بات ہے تو اس کی پڑھت کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے عربی ناول کو ایک نئی جہت دی۔یہاں پر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ کیا کسی بھی تخلیق کی نئی جہت اُسے ایک بڑا شہ پارہ بنا سکتی ہے؟ جہاں تک نئے پن کی بات ہے تو اس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر بڑے تخلیق کار کی کوشش ہوتی ہے کہ اُس کا تخلیق کردہ شہ پارہ سب سے نمایاں اور منفرد ہو اور اس کے لیے وہ اپنی تمام تر تخلیقی توانائیاں صرف بھی کرتا ہے۔اس ضمن میں میرا ل طحاوی کے مذکورہ ناول کی بات کی جائے تو اس میں نیا پن کچھ اس طرح دکھائی دیتا ہے کہ انھوں نے عرب بدوؤں کے حوالے سے گھسٹے پٹے موضوعات سے انحراف کرتے ہوئے اسے غیر روایتی بنا دیا ہے۔

اس سلسلے میں انھوں نے عربی ناول کو ’مقامی‘ سطح سے اٹھا کراسے ’آفاقی‘ بنادیا۔یہ اس ناول کی ایک بڑی کامیابی ہے کہ بہ ظاہر مصری صحراکے بدوؤں کی معاشرت کو موضوع بنایا گیا ہے لیکن بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ میرال نے اس ناول کے ذریعے بدوؤں کی معاشرت اور روایات کو روایتی نہیں رہنے دیا بلکہ اس میں اپنی انفرادیت کو قائم و دائم رکھا ہے۔ یہ انفرادیت غیر روایتی موضوع اور خوش کن اسلوب کی بدولت بھی ہے۔ قریب قریب یہی انداز نجیب محفوظ کے ہاں (بالخصوص اُن کے ناول ”عام سے لوگ“) بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ نجیب کے مذکورہ ناول میں شہری زندگی کو موضوعِ بحث بنایا گیاہے جب کہ میرال کے ہاں بدوؤں کی زندگی اور اُن کی معاشرت پر بات کی گئی ہے۔

اُداسی، تاریکی اور گھٹن اس ناول کا موضوع ہے جو کہیں کہیں پر بیگانگی کو بھی جنم دیتی ہے۔ ناول کے ابتدائیہ میں یہی صورتِ حال دکھائی دیتی ہے:
لے ننھے پتھر، میں نے تجھے ان کے دروازے کی
حفاظت پر مامور کیا تھا
وہ سب اب کہاں ہیں؟ وہ پیارے لوگ
جو کبھی یہاں رہتے تھے؟ (ص۹)

یہی کیفیت پورے ناول اور اس کے ہر کردار پر طاری رہتی ہے۔ (کم یا زیادہ کسی نہ کسی صورت میں)۔یہ کیفیت فاطمہ کی ہو یا اُس کے والد، والدہ اور بہنوں کی۔ اُس کی دادی حاکمہ (جو اسم بامسمیٰ ہے۔ اور وہ اس پربے جا مفتخر بھی رہتی ہے اور اکثر اوقات اس کا جا و بے جا اظہار بھی کرنے بھی نہیں نہیں چوکتی)۔
اس ناول کا مرکزی کردار ’فاطمہ‘ ہے۔جس کے گرد اُداسی اور گھٹن کا ایک ایسا جالا بُنا گیا ہے جسے وہ نکلنا بھی چاہے تو نہیں نکل سکتی۔ فطرت سے محبت کرنے والا یہ کردار اپنی مثال آپ ہے۔ ہرنی،بکری اور گھوڑی (خیرہ) سے اُس کی بے انت محبت اور درختوں سے بے پایاں اُنسیت اُس کے مزاج میں شامل ہے۔ درختوں کی شاخوں پر خوشی سے بیٹھنا اس کے پتوں سے کھیلنا اُس کا محبوب مشغلہ ہے۔ (جس کی ایک جھلک اس ناول کے سرورق پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے)۔ انہی درختوں سے کھیلتے کھیلتے اُس کی ایک ٹانگ کا ٹوٹ جانا بھی اُس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جو چیز اُس کے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے وہ اُس کی دادی کا اُسے ’اپاہج‘ کہنا ہے جسے سن کروہ اُداسی اور ویرانی کی ایک گھمبیرتا بھی اُترتی چلی جاتی ہے۔ بروقت علاج نہ ہونے کی بنا پر جب اُس کی یہی ٹانگ کاٹنا پڑتی ہے تو وہ اس محرومی سے سمجھوتہ کرتے ہوئے سب گھر والوں سے بیگانہ ہوکر ایک دوسرے کمرے میں منتقل ہوجاتی ہے اور پوری زندگی وہیں بِتا دیتی ہے۔ جب حاکمہ اُسے منحوس کہتی ہے تو وہ ہنس پڑتی ہے اور کہتی ہے کہ ’میں فاطمہ ہوں، منحوس، بدبخت، اپاہج۔ مجھے خود سے کون بچائے گا، اس شر سے کون میری حفاظت کرے گا؟‘

فاطمہ اپنی والد کی کثیر اولاد کا ایک حصہ ہے۔سب کی سب بیٹیاں۔ اولادِ نرینہ نہ ہونے کی وجہ اس کی دادی حاکمہ ان بیٹیوں صافیہ، فو ز، سردوب، ریحانہ(بالخصوص فاطمہ) کو قرار دیتی ہے۔وہ انھیں منحوس، پاگل، لعین، شرم و حیا سے عاری، حتیٰ کہ رنڈیاں کہنے سے بھی نہیں چوکتی۔ یہاں پر وہ ایک روایتی جاہل اور غیر انسانی سوچ کی حامل عورت کے روپ میں نظر آتی ہے۔ غرض طعن و تشنیع کا کوئی ناوک ایسا نہیں جو روزانہ اُس کی طرف سے چھوڑا گیا ہو۔
”تمھارے ماں باپ کے چہروں پر اللہ کی لعنت ہو! نجس دہقان عورتو، کیا تمھیں بالکل شرم حیا نہیں؟“ (ص۲۸)

یہاں پر بیٹیوں کے معاملے میں حاکمہ اُس قدیم عرب کلچر کی نمائندہ بن کر سامنے آتی ہے جو کسی طور بھی بیٹیوں کو نہیں قبول نہیں کرتا۔ اُس کے خیال میں بیٹے پیدا نہ ہونے کا سبب خود بیٹیاں ہیں۔ اس سلسلے میں اُس عقیدہ ہے کہ جب تک یہ اس گھر میں موجود ہیں خدا اس گھر کو بیٹوں نہیں دے سکتا۔وہ ان بیٹیوں کو پابند سلاسل کرکے قید کرنے کی بھی متمنی ہے:

”انھیں آہنی زنجیروں میں جکڑ کر کسی رحم دل آدمی کے گھر میں ڈال دو۔ واللہ، جس گھر میں ایسی مصیبتیں ہوں وہ منحوس ہوتا ہے۔ خاک آلود پرندے کو اڑا دو، پھر اللہ تمھیں بیٹا عطا کرے گا میرے بیٹے!“(ص۳۳)

فاطمہ کی دوبہنوں صا فیہ اور فوز کی شادی ہونے کے بعد بھی حاکمہ کے لب ولہجے میں سرمو فرق نہیں پڑتا۔ وہ اسی طرح بے سروپا باتیں کرتی رہتی ہے،لیکن فاطمہ کے والد کی طرف سے اپنی بیٹیوں کے لیے پیار ہی پیار اور شفقت کی فراوانی ہے۔ بالخصوص فاطمہ کوباقی بہنوں میں سب سے زیادہ اُنس ملتا ہے۔وہ اسے کبھی فاطمہ،کبھی فاطم اور کبھی فاطوم کہہ کر مخاطب ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ وہ کہتا ہے:

”فاطمہ تو شہزادی ہے۔ تم ترکی شہزادیوں جیسی بننا چاہتی ہو نافاطم! تمھارے لباس کا لمبا دامن تمھارے پیچھے گھسٹتا ہوگا اور سب لوگ جھک کر پیاری فاطمہ شہزادی کو سلام کریں گے۔اور اگر مصرکا بادشاہ بھی تمھارے رشتے کی درخواست لے کر آیا تو میں اسے کتے کی طرح دھتکار کر بھگا دوں گی۔ فاطمہ بہت اعلیٰ نسبت کی ہے۔“(ص۳۱)

فاطمہ کی والدہ کے ساتھ اُس کے والد اور حاکمہ کا سلوک انتہائی غیر انسانی ہے۔ والد کی طرف سے اُس پر روزانہ تشدد ہوتا ہے۔ جسے کئی مرتبہ فاطمہ، صافیہ، سردوب، ریحانہ اور فوز اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہیں کہ اُس کی والدہ کا گلہ گھونٹا جارہا ہے اور وہ صبر و استقامت کا دامن تھامے چپ چاپ یہ سب کچھ سہہ رہی ہے۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو رواں ہوتے ہیں جسے دیکھ کر فاطمہ کاوالد اُسے چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل آتا ہے۔ اس جان لیوا تشدد کے علاوہ حاکمہ کی طرف سے گالیاں اور طعنے سننا بھی روز کا معمول ہے۔ وہی طعنے جو ہمارے سماج میں روزانہ ایک حرماں نصیب عورت کو سننے کوملتے ہیں: کم نصیب، بدنصیب، یہ تو صرف بیٹیاں پیدا کرسکتی ہے، بیٹا نہیں، وغیرہ وغیرہ۔

”اماں کی چیزیں اُس (دادی حاکمہ) نے ایک طرف ڈھیر کرلیں اور صافیہ کی طرف دیکھ کر بولی: ”یہ اس پاگل عورت کے لیے ہے۔ واللہ! ایسی نعمتیں اس پر ضائع کرنا حرام ہے۔ اس نے سوائے بدبختی کے اس گھر کو کچھ نہیں دیا۔“(ص۱۵)

اس صورت حال میں فاطمہ کی ماں اس غیر انسانی سلوک پر الگ ایک تاریک کمرے میں سسکیاں بھرتی رہتی ہے۔ اور انہی حالات میں وہ انتقال کر جاتی ہے (لیکن یہ طبعی موت نہیں ہوتی بلکہ فاطمہ کا والد اسے گلہ گھونٹ کر مار دیتا ہے)۔ اس موت کا بھی حاکمہ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کا تکبر، گالیاں اور دشنام طرازی اسی طرح برقرار ہے لیکن بدوؤں کے دکھاوے کے لیے وہ غم و اندوہ کی تصویر بنی دکھائی دیتی ہے۔اس موقع پر وہ بھی اپنے گالوں پر تھپڑ مارمار کر عورتوں کے ساتھ بین کرنے میں شامل ہوگئی۔ اس نے اپنے چہرے پر سیاہی پوت دی۔ وہ دل گیر آواز میں جب یہ کہتی ہے تو اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ وہی حاکمہ ہے جس نے فاطمہ کی والدہ کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔
تم شہزادی تھیں، شریفوں کی بیٹی تھیں
تم ایک پھول تھیں، کانٹوں کے درمیان ایک نازک گلاب
تم ہیرے کی طرح تھیں، تم جیسا او رکوئی نہ تھا
تم حسین تھیں، اس کی حمد ہو جس نے تمھیں بنایا تھا (ص۵۷)
مذکورہ بالا سطور میں ’کانٹے‘ سے مراد اُس کا شوہر اور حاکمہ ہی ہے جس کے درمیان اس نے اپنی پوری زندگی محرومیوں اور دکھوں سے گزار دی۔

فاطمہ کی والدہ کی وفات پر حاکمہ کے دل میں ایک بار پھر یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ اُسے اپنے ایک بار پھر بیاہنا چاہیے شاید اس بار اولادِ نرینہ نصیب ہوجائے۔وہ اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے:
”مرد کے بغیر گھر ایسا ہے جیسے کنویں کے بغیر نخلستان۔ یعنی ویرانہ۔ خیمے کو اس کی چوب ہی کھڑا رکھتی ہے۔ اور خیمے کی چوب کو گڑنے کے لیے زمین چاہیے ہوتی ہے۔ کوئی اچھی عورت تمھیں زرخیز زمین مہیاکرے گی،میرے بیٹے، جہاں تم ان پریشانیوں کے بعد سکون پا سکو گے جو تم نے اٹھائی ہیں۔“(ص۶۴)

چناں چہ وہ اُس کی شادی بدوؤں کے ایک دوسرے خاندان میں ”دوابہ“ نامی ایک خاتون سے کردیتی ہے مگر شومئی قسمت کہ اس کے بطن سے بھی بیٹی ”سمٰوات“ ہی پیدا ہوتی ہے۔ اسے طلاق دی گئی پھر ایک دبلی کالی عورت ”راحات“ سے اُس کی شادی کر دی گئی لیکن من کی مراد پھر بھی پوری نہ ہوسکی۔ فاطمہ کی گزشتہ سوتیلی ماں کی نسبت راحات کافی حد تک رحم دل، محبت کرنے والی، نہایت دھیمے مزاج کی حامل اور صلح جُو خاتون ثابت ہوتی ہے۔ فاطمہ کو ہمیشہ بوسہ دے کر بیٹی کہہ کر مخاطب ہوتی ہے۔

فاطمہ کی زندگی میں ایک یادگار لمحہ تب آتا جب اُس کی دادی حج کے لیے روانہ ہوتی ہے اور وہیں پراُس کا انتقال اور تدفین ہوجاتی ہے تواُس کی سوتیلی ماں راحات فاطمہ سے جب یہ کہتی ہے کہ تمھاری دادی نیک عورت تھی، پابندی سے نماز پڑھتی تھی اور بلادِ طاہرہ میں ان کا انتقال ہوا تو وہ بے ساختہ مسکرا کرکہتی ہے ’انھیں وہیں ارضِ طیب میں دفنایا گیا۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے۔‘ اس ایک طنز بھری مسکراہٹ میں جیون بھر کا کرب پنہاں ہے جو وہ جھیلتی رہی ہے۔

فاطمہ کے والد کو سمٰوات سے بھی اتنی ہی محبت اور شفقت ہوتی ہے جتنی کہ فاطمہ کے لیے۔ جب فاطمہ اپنے والد کے منہ سے یہ سنتی ہے:

”سمٰوات، ابا کی شہزادی۔‘‘ یہ سن کر میں بے اختیار رونے لگی او رآنسو میرے بدن کو گیلا کرنے لگے۔ کیا فاطم کا وجود مٹ گیا؟ اب آپ کی آنکھیں بھی مجھے نہیں دیکھتیں، ابا۔“(ص۹۶)

فاطمہ کے اندر ایک تاریک اور دم گھونٹ دینے والے ماحول میں آزادی کی فطری خواہش پیدا ہوتی ہے۔لیکن اس کے آس پاس کا ماحول اس کی یہ لطیف خواہش پورا نہیں ہونے دیتا۔ بالخصوص اُس کی دادی حاکمہ اُس کے لیے ایک سوہانِ روح ثابت ہوتی ہے؛ اپنے تمام تر جبر و اکراہ کے ساتھ! فاطمہ اس اندرونی گھٹن سے یک سر مایوس نہیں ہوتی وہ اسے اپنے تخلیقی تخیل کے ساتھ بدل دیتی ہے۔ وہ کہانی بُننے کا ہنر جانتی ہے۔مسلّم کا قصہ (جس نے ظاظا نامی ترک خاتون سے شا دی کی) جس خوبصورتی، وضاحت اور فنی چابک دستی سے سناتی ہے کہ اس کے مہمان ستائشی نظر وں سے اُسے دیکھتے ہیں اور اسے خاندان کے لیے کسی نعمت ِ غیر مترقبہ سے کم نہیں خیال کرتے۔ اس میں نظم کہنے کا سلیقہ بھی بدرجہ اُتم موجود ہے۔وہ گیت گانا بخوبی جانتی ہے۔ لیکن اس تخلیقی عمل میں بھی اُس کی اُداسی واضح انداز میں دکھائی دیتی ہے:
میں دور، ان سب لوگوں کے شوروغل سے بہت دور،
نظر جما کر گاؤں گی
اے ملک ِ یاس، اے ملکہ یاس،
تم نے ہمیں گھیر لیاہے
ملک ِ یاس، ملکہ یاس اور سات زخم
یہ سب مجھے ڈراتے ہیں
اور جب وہ دور ہوتا ہے
اُس کی محبت میرے دل میں بڑھتی رہتی ہے
لیکن خدا اسے کبھی واپس نہیں لاتا
اور اس نے میرے لیے ان زخموں کے سوا کچھ نہیں چھوڑا (ص۷۸)

میرال طحاوی نے اس ناول کی بنیاد اپنے ذاتی تجربے، مشاہدے پر رکھی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں کہ وہ خود بھی ایک بدوؤں کے ایک قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں اور وہاں پر رونما ہونے والے واقعات اور مشاہدات کو انھوں نے کھلی آنکھوں دیکھا اور اسے کہانی کے پیکر میں ملبوس کرکے بیان کردیا۔ اور شاید اسی لیے اس ناول کا انتساب معنی خیز بھی معلوم بھی ہوتا ہے:
”میرے جسم کے نام……
خیمے کی کیل جو صحرا میں مصلوب ہوگئی

ناول کے چند ختتامی جملے ملاحظہ کریں جب وہ خود موت کو مخاطب کرتی ہے جو اس کے گرد ایک نابینا سانپ بن کر آرہا ہے:
”سیاہ پھنکار ہر طرف سرسرارہی ہے، ریت کے رنگ کی، نابینا پھنکار۔ جب چرواہوں کویہ پھنکار سنائی دیتی ہے تو وہ خوف سے ایک ہوجاتے ہیں اور صحرا جب یہ پھنکار سنتا ہے تو خاموشی سے دعائیں مانگنے لگتا ہے۔ فاطم کو یہ سانپ زمین پر او رہوا میں اُڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ آجاؤ …… آجاؤ……
”تم خوف زدہ نہیں ہو، نہیں ہونا؟ فکر مت کرو، میں تمھیں ہلاک نہیں کروں گی۔ ہوا میں اڑتے ہوئے آؤ اور اپنا زہر یہاں انڈیل دو، میری آنکھوں کے درمیان“ (ص۹۹)

جہاں تک اس ناول کے ترجمے کی بات ہے تو اس میں کوئی کلام نہیں کہ اجمل کمال نے ترجمہ کرتے وقت عرب بدوؤں کے مزاج اور وہاں کی تہذیب و ثقافت کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے کوشش کی ہے کہ عربی لفظیات کو کہیں کہیں پر برقراربھی رکھا ہے۔ مثال کے طور پر: ’مزروعہ زمین‘کومزروعہ اور ’نور العین‘ کو نورالعین ہی رہنے دیا ہے۔ اس کی جگہ ’آنکھوں کی ٹھنڈک‘ نہیں کہا۔ اس کے علاوہ انھوں نے لفظ تراشی میں بھی اپنی ترجمہ کاری کی مہارت کو پیش نظر رکھا ہے۔ جیسے ’ہڈیالی انگلیاں‘ وغیرہ۔ بہرحال اجمل کمال نے اس ناول کے ترجمے میں جس فنکارانہ مہارت کا ثبوت ہے کہ اس پر تخلیق کا گمان ہوتا ہے اور یہ ایک کامیاب ترجمے کی علامت ہے۔

%d bloggers like this: