مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جب بھٹو کی قبر کی تصویر بنانے پر پابندی تھی ۔۔۔ زاہد حسین

محمد عرس کی تو تلاشی نہیں ہُوئی کیونکہ اُس کا بنگلے سے تعلق تھا اور وہ روزانہ آ جا رہا تھا مگر میرے پاس کیمرہ دیکھ کر مجھے روک لیا

4۔اپریل 1979 کو پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور پاکستانی عوام سے ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے چننے کا اختیار چھین لیا گیا۔

میں اُن دنوں روزنامہ مساوات میں چیف فوٹوگرافر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ملک میں سخت مارشل لاء نافذ تھا اخبارات پہ سخت سنسر شپ عائد تھا۔ سیاسی جماعتوں پہ پابندی تھی اور ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنان جیلوں میں بند تھے جن میں سے بیشتر کو کوڑے بھی لگ چکے تھے اور کئی پھانسی گھاٹوں میں اپنی موت کا انتظار کر رہے تھے۔4 اپریل کو بی بی سی سے بھٹو کو پھانسی کی خبر نشر ہونے کے بعد مارشل لاء کے چہیتے اخبارات نے اپنے ضمیمے شائع کئے جس کے بعد شہر میں سناٹا چھا گیا اور ہر طرف ہُو کا عالم طاری تھا۔

ایک عام آدمی بھی سکتے کی سی کیفیت میں تھا۔ اُس روز کئی گھروں میں لوگوں نے کھانا نہیں کھایا مگر کچھ بدبخت ایسے بھی تھے جنہوں نے مٹھائیاں بانٹیں اور بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر اور مشیر ہو گئے۔ بہر حال 6اپریل کو 70۔کلفٹن میں سوئم اور قرآن خوانی کی کوریج کے بعدمیں جب دفتر پہنچا تو ہمارے ایڈیٹر جناب خالد علیگ نے مجھے گڑھی خدا بخش جانے اور شہید بھٹو کی قبر کی تصاویر بنا کر بھیجنے کا کہا۔

اُن دنوں مساوات اخبار شدید مالی مشگلات کا شکار تھا ہمیں کئی ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی تھی مالکان (بھٹو فیملی) قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے پارٹی کے دیگر بڑوں نے مساوات کی مدر کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ مجھ سمیت مساوات کے دیگر کارکنان بھی اپنا اپنا گھر ادھار پر چلا رہے تھے ایسے میں لاڑکانہ پہنچنا ہی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔

اُس وقت ہم زیادہ تر بسوں اور ٹرین کے ذریعے ہی سفر کرتے تھے۔اور بعض دفعہ تو سیٹ نہ ملنے کے باعث ڈرائیور کے ساتھ انجن کے اوپر بنی اضافی سیٹ پر بیٹھ کرہی سفر کر لیتے تھے(اس اضافی سیٹ کی تپش آج بھی یاد آتی ہے) آجکل تو ماشاءاللہ چیئرمین بلاول بھٹو کی میڈیا ٹیم اسپیشل جہاز میں ٹریول کرتی ہے اور اٗنکی رہائش اور طعام کا بڑے ہوٹلوں میں انتظام ہوتا ہے مگر ہم پیسے نہ ہونے کے باعث کبھی کھا لیتے تھے کبھی چنے وغیرہ پھانک کر گزارہ کر لیتے تھے مگر کوریج جاری رہتی تھی۔

70۔کلفٹن یا پیپلز پارٹی کا کوئی میڈیا سیل نہیں تھا تصویریں اور خبروں کیلئے مساوات کو ہی کہا جاتا تھا اور اس کا پارٹی کوئی فنڈ وغیرہ نہیں دیتی تھی۔لاڑکانہ میں ہمارا ٹھکانہ زیادہ تر اسٹیشن کے پاس ہوٹل مہران ہی ہوتا تھا وہاں ہمارا مساوات کے نام پر ادھار وغیرہ چلتا رہتا تھا پھر اللہ بخشے بیگم اشرف عباسی ہوتی تھیں جو دیکھتے ہی پوچھتی تھیں کہاں ٹھہرے ہو میرے گھر چلو مگر ولید گاؤں تھوڑا دور پڑتا تھا اس لئے ہم معذرت کر لیتے تو وہ ہوٹل مہران کے مالک پیچوہو کو بلا کر ہماری طرف سے ادائیگی کر دیتی تھیں (اللہ مغفرت فرمائے۔آمین)۔بہر حال جب ہم رات دو بجے بولان میل سے لاڑکانہ پہنچے تو اسٹیشن ہمیں ایک فوجی چھاؤنی کی طرح لگا۔

پلیٹ فارم کے دونوں سروں پر مورچوں میں بڑی گنوں کے ساتھ فوجی الرٹ تھے ۔پلیٹ فارم پر بھی کچھ فوجی آنے جانے نظر رکھے ہوئے دکھائی دئے۔میرا حلیہ چونکہ مقامی لوگوں سے مختلف تھا لہٰذہ ایک لانس نائیک نے مجھے روک لیا اور سوال جواب شروع کر دئے میرے پاس اُس وقت ایک چھوٹا Minolta Hi-matic Point and Shoot کیمرہ تھا جو بہت خراب حالت میں تھا اور میں نے اپنے ایک دوست سے اودھار لیا ہوا تھا اور پچھلے دو سال سے میں اِسی خستہ حال کیمرے سے پاکستان کی تاریخ ، مارشل لاء کا دور، آزادیَ صحافت، پیپلز پارٹی اور دیگر پرہ گریسو گروپوں کی جدو جہد اور بینظیر بھٹو کے سندھ کے پہلے سیاسی دورے کی کوریج کرتا رہا تھا یہ ایک فکس لینز والا کیمرہ تھا جس میں زوم کی کوئی سہولت نہیں تھی اور اس کا رزلٹ بھی روز بروز خراب ہوتا جا رہا تھا مگر مساوات اخبار کی مالی حالت کے باعث نیا کیمرہ خریدنا ایک خواب ہی تھا-

فوجی کے سوالات کے جواب میں میں نے بتایا کہ میں اپنے ایک دوست کی بہن کی شادی میں شرکت کیلئے آیا ہوں اور دوست نے کہا تھا کہ کیمرہ لیتے آنا اس لئے یہ کیمرہ لایا ہوں ، اُس نے مجھے جانے دیا۔ اسٹیشن کے باہر بھی فوج کے مورچے نظر آئے۔ قصہ مختصر لاڑکانہ سے دن میں نوڈیرو بنگلے پہنچا اور شہید بھٹو کے ملازم محمد عرس سے ملا جس نے میرے ٹھہرنے کا انتظام کیا اُ س کی حالت شدتِ غم سے بُری تھی مگر وہ روزانہ پُھولوں کی ٹوکری بھر کرگڑھی خدا بخش جاتا تھا اورروتا جاتا تھا اور بھٹو کی قبر پر پُھول ڈالتا جاتا تھا ۔

پہلے دن میں اُس کے ساتھ گڑھی خدا بخش کیلئے نکلا ڈھائی تین کلو میٹر کے راستے میں تین جگہ Pickets تھیں۔ نوڈیرو سے نکلتے ہی، رائس کینال پُل پر اور گڑھی کے داخلے پر۔ نوڈیرو کے پکٹ سے تو نکل گئے مگر رائس کینال کے پُل پر ایک بڑا مورچہ بنا تھا اور فوج کی نفری بھی زیادہ تھی۔ نوڈیرو اور گڑھی کے درمیان تانگے چل رہے تھے اور تمام لوگوں کو اُتار کر تلاشی لی جا رہی تھی-

محمد عرس کی تو تلاشی نہیں ہُوئی کیونکہ اُس کا بنگلے سے تعلق تھا اور وہ روزانہ آ جا رہا تھا مگر میرے پاس کیمرہ دیکھ کر مجھے روک لیا اور واپس جانے کا کہا ۔

عرس نے اُنہیں بتایا کہ یہ صرف فاتحہ پڑھنے آئے ہیں کل واپس چلے جائیں گے تو فوجی افسر نے کہا کہ کیمرہ نہیں جائے گا ہمیں ہمارے بڑے افسران کا حکم ہے کہ کسی بھی قسم کا کیمرہ نہیں چھوڑنا لہٰذا کیمرہ یہیں چھوڑ دو واپس جاتے ہوئے لیتے جانا۔چنانچہ عرس کے کہنے پر میں نے کیمرہ وہیں چھوڑ دیا ۔

بھٹو کی قبر گڑھی خدا بخش پکٹ سے گذر کر جب شہید بھٹو کی قبر پر پہنچے تو محمد عرس نے رونا شروع کر دیا اور ٹوکری سے پھول نکال کر قبر پر ڈالنا شروع کر دئے۔میں نے وہاں کا جائزہ لینا شروع کیا کچھ لوگ سیپارے پڑھ رہے تھے اور لگ بھگ درجن بھر سادہ لباس میں موجود لوگ صرف سیپارے پکڑے آنے جانے والوں پر نظر رکھے ہُوئے تھے۔اُن میں سے ایک مسلسل مجھے دیکھ رہا تھا۔قبر تک آنے جانے کے دو راستے تھے ان میں سے ایک راستہ اُس گلی کے زیادہ قریب تھا جہاں گڑھی خدا بخش میں بھٹو خاندان کی زمینوں، قبرستان اور دیگر املاک کے نگران حاجی نذر محمد کا گھر ہے۔

قبر کے پاس موجود سرکاری اہلکاروں کی سست روی اور حاجی نذر محمد کا قریبی گھر، پلان میرے ذہن میں ترتیب پا چکا تھا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور بھٹو کیلئے فاتحہ پڑھنا شروع کر دی۔عرس نے اپنا کام مکمل کیا، فاتحہ پڑھی اور خالی ٹوکری اُٹھانے کے بعد مجھے چلنے کا اشارہ کیا۔ واپسی میں ہم نے رائس کینال پکٹ سے اپنا کیمرہ لیا اور نودیرو بنگلے آ گئے۔

رات کے کھانے کے بعد عرس، امداد اور مولا بخش ڈرائیور وغیرہ کے ساتھ تفصیلی گفتکو ہوئی وہ لوگ کافی غمزدہ تھے ۔اُن سے گفتگو کے بعد مزید پتہ چلا کہ گڑھی خدا بخش جانے والے تمام راستے بلاک ہیں ڈرائیور مولا بخش نے بتایا کہ رائس کینال کی پٹڑی پر بڑے بڑے درخت کاٹ کر راستے بند کر دئے گئے ہیں گڑھی جانے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس راستے کے جس سے ہم آج گئے اور آئے۔ اگلے دن میں اکیلا نکلا مگر بغیر کیمرے کے اور تانگہ میں بیٹھ کر تلاشیاں دیتا گڑھی پہنچا مگر قبر پر جانے کی بجائے حاجی نذر محمد کے گھر پہنچا۔

وہ اور اس کے تمام گھر والے بھی غم سے نڈھال تھے۔فاتحہ پڑھنے کے بعد چائے کے دوران میں نے اس کو بتایا کہ میں صاحب کی قبر کی تصویر بنانے آیا ہوں اور میں دو دن چھوڑ کر محمد عرس کے ہاتھ کیمرہ بھیجوں گا جو آپ لے کر رکھ لینا اور اس کے اگلے دن میں دو بجے کے قریب آپ کے گھر آؤں گا اور کیمرہ لے کر قبر تک جاؤں گا اور تصویر بنا کر جلدی سے آپ کے گھر واپس آؤں گا اور کچھ دیر سورج غروب ہونے تک آپ کے گھر ہی رہوں گا بعد ازاں میں چلا جاؤں گا مگر کیمرہ آپ کے پاس ہی رہے گا اور اگلے دن عرس آ کر کیمرہ لے جائے گا۔ اگر قبر کی تصویر بنا کر آتے ہوئے وہ مجھے پکڑ لیں تو آپ نے کچھ نہیں کرنا بس نوڈیرو بنگلے پر اطلاع دے دینا۔حاجی نذر کو ساری بات سمجھا کر میں واپس نوڈیرو کی ظرف چل پڑا۔قبر پر آج بھی جانا سرکاری اہلکاروں کو چوکنا کرنا ہوتا۔

رات کو بنگلے میں عرس کو تمام تفصیل بتائی۔ دو دن کے بعد عرس کی روانگی کے وقت میں نے اُسے اپنا کیمرہ پلاسٹک کی تھیلی میں لپیٹ کر دیا کہ پھولوں کی ٹوکری میں پھولوں کے بلکل نیچے رکھ کر لے جائے اور حاجی نذر کے حوالے کر دے۔اُس نے ایسا ہی کیا اور کیمرہ وہاں پہنچ گیا۔اس کے اگلے دن بھی میں نوڈیرو میں ہی رہا اور اس کے مزید ایک دن بعد 12 بجے دوپہر کے قریب میں اکیلا نکلا اور تلاشیاں دیتا لگ بھگ دو بجے کے قریب گڑھی میں حاجی نذر کے گھر پہنچا اس سے کیمرہ لیا اور اسے دروازہ کھلا رکھنے اور کنڈی نہ لگانے کی تاکید کرتے ہوئے قبر تک پہنچا وہاں پہلے دن کی طرح کا ماحول تھا ۔ میں کچھ دیر بیٹھا رہا اور فاتحہ خوانی کرتا رہا اور جب میں نے محسوس کیا کہ مجھ پر اب کسی کی زیادہ توجہ نہہں ہے تو میں نے شرٹ کے اندر سے کیمرہ نکالا اور آہستگی کے ساتھ اٹھ کر کچھ شاٹ لئے اور تیزی سے اس راستے سے نکل آیا جو حاجی نذر کی گلی میں جاتا تھا۔یہ سب کچھ اس تیزی سے ہوا کہ وہاں موجود اہلکاروں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہوا۔

مجھے صرف کچھ شور کی آوازیں آئیں مگر میں اتنی دیر میں حاجی نذر کے گھر کے اندر تھا۔گلی میں بھاگم دوڑ کی اور تیز بولنے کی آوازیں وقفے وقفے سے آتی رہیں مگر پندرہ بیس منٹ کے بعد سناٹا چھا گیا۔میں سورج ٖغروب ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ جب مغرب کی اذان ہوئی تو میں نے کیمرہ وہیں چھوڑا اور حاجی نذر کے گھر سے باہر نکل آیا۔لوگ نماز کیلئے مسجد کی طرف جا رہے تھے روشنی کافی کم ہو گئی تھی لہٰذہ مجھے واپسی میں کی جگہ کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔اگلے دن عرس پھول لے کر گیا اور خالی ٹوکری میں میرا کیمرہ بھی واپس لیتا آیا۔ایک دن اور رکنے کے بعد میں نے بڑی بیگم صاحبہ سے اجازت لی اور انہوں نے مولا بخش ڈرائیور کی ڈیوٹی لگائی کہ مجھے رات کو کار میں لاڑکانہ لے جائے اور بولان ایکسپریس میں سوار کرا دے۔

رات گئے جب میں بنگلے کی گاڑی سے اتر کر اسٹیشن میں داخل ہوا تو فوجی اہلکاروں میں سے کسی نے مجھ سے کوئی سوال نہیں پوچھا- میں نے کراچی کا ٹکٹ لیا اور ڈبے میں جا بیٹھا۔ ٹرین روانہ ہوئی تو میں نے اپنی شرٹ کے نیچے چھپائے کیمرے کو چُھواء اور دل ہی دل میں محمد عرس (اللہ صحت و تندرستی فرمائے) ، حاجی نذر محمد ( اللہ مغفرت فرمائے) اور بڑی بیگم صاحبہ کا شکریہ ادا کیا (اللہ انکی بھی مغفرت فرمائے حالانکہ وہ عدت میں تھیں مگر مہمانوں کا بہت خیال رکھتی تھیں)


زاہد حسین سینئر فوٹو جرنلسٹ ہیں

%d bloggers like this: