مئی 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کالاباغ کا ریلوے اسٹیشن

پنجاب میں دریائے سندھ اور جہلم کے بیچ کے دوآبے کو ''سندھ ساگر دوآب'' کہا جاتا ہے

کالاباغ و ماڑی انڈس
تحریر و تحقیق ، محمد عظیم شاہ بخاری

کالاباغ کا ریلوے اسٹیشن؛

اگرچہ یہ کوئی مشہور مقام نہیں ہے نہ ہی یہاں کوئی جاتا ہے لیکن عبرت پکڑنے کے لیئے یہ جگہ سب سے بہتر ہے۔ ایک زمانے میں چہل پہل اور ریلوے انجن کی سیٹیوں سے گونجتا یہ خوبصورت ریلوے اسٹیشن آج ویران اور اجاڑ جگہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔

کالاباغ ریلوے اسٹیشن کے نام پر آج یہاں ایک بند دروازے والا گودام ہے جس کے سامنے چھوٹے بچے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ اس کے ماتھے پر موہوم سے نشانات ہیں جنہیں غور سے پڑھیں تا کالاباغ کے الفاظ دکھائی دیں گے بس یہی اس کے ریلوے اسٹیشن ہونے کی نشانی ہے۔

اس کے سامنے آج بھی ریلوے کا تباہ حال ٹریک ہماری نا اہلی کا رونا رو رہا ہے جس پر ایک زمانے میں بنوں تک ریل جایا کرتی تھی جسے بھاپ سے چلنے والے انجن کھینچتے تھے۔

بنوں جانے والی ٹرین کا دُخانی انجن جب یہاں رکتا تھا تو اسکے عقب
میں سلاگر پہاڑ کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

جناح بیراج ؛

پنجاب میں دریائے سندھ اور جہلم کے بیچ کے دوآبے کو ”سندھ ساگر دوآب” کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ زیادہ تر بنجر، بے آب و گیاہ زمینوں اور صحرائے تھل پر مشتمل تھا۔

پھر ایک شاہکار منصوبے نے اس علاقے کی قسمت بالکل بدل دی اور یہ تھا 1946 میں دریائے سندھ پر بنایا جانے والا جناح بیراج جو کالاباغ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ بیراج تھل پراجیکٹ کا ایک حصہ ہے جس سے انیس لاکھ ایکڑ اراضی سیراب کی جاتی ہے۔

اس بیراج سے پانی گریٹر تھل کینال میں ڈالا جاتا ہے اور اس کے ذریعے میانوالی، بھکر، خوشاب، لیہ اور مظفرگڑھ تک کے اضلاع کی لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب کی جاتی ہے۔

تھل کینال نہ صرف صحرائے تھل کی سرسبز و شادابی کی امین ہے بلکہ اھل تھل کے باسیوں کی معشیت کی شہ رگ بھی ہے۔ اس بیراج پر رات کا شاندار نظارہ کرنے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔

اب چلتے ہیں ایک اور تاریخی شہر کی طرف جو کالاباغ برج کے دوسری جانب واقع ہے۔ یہ ہے ماڑی جسے ماڑٰی انڈس بھی کہا جاتا ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت قصبہ ہے لیکن اسکی ایک مستند تاریخی، ثقافتی، جغرافیائی اور معاشی حیثیت ہے۔ ماڑی انڈس مندرجہ ذیل کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

ماڑی کا ہندو مندر ؛

ماڑی انڈس سے 2 کلومیٹر کے فاصلے پر سندھ کنارے ماڑی واقع ہے جو ایک قدیم گاؤں ہے۔ یہ جگہ اپنے قدیم ہندو مندروں کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔

چھوٹی چھوٹی اور خوبصورت پہاڑیوں کے بیچ بسا ہوا یہ گاؤں زمانہ قدیم میں ہندومزہب میں بہت اہمیت کا حامل تھا۔ یہاں مغرب کی طرف موجود ایک پہاڑی پر دو قدیم تاریخی ھندو ” شِومنوتی مندر ” واقع ھیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سکندر اعظم نے اپنی فوجوں کے ھمراہ یہاں پڑاٶ ڈالا تھا

اور ماڑی کے مقام سے دریاۓ سندھ عبور کر کے دریاۓ جہلم کے کنارے پہنچا تھا جہاں راجہ پورس کے ساتھ اسکا گھمسان کا رن پڑا تھا۔

انھیں دنوں ماڑی اور آس پاس کے علاقوں میں نندا خاندان کی حکومت تھی۔ اس وقت کی حکومت نے سکندر سے تعاون کرتے ہوئے اسے خوش آمدید کہا

اور یہ علاقہ بغیر جنگ و جدل کے فتح ھو گیا تھا۔ سکندر کے جانے کے بعد یہاں کے حکمران کے اپنے بیٹے چندر گپت موریہ سے اختلافات شدید ھو گئے تھے

اور راجہ نے زبردستی اسے اپنی سلطنت سے نکال دیا تھا۔ کسی طرح اس نے چند باغی اور ھم خیال لوگوں کی فوج بناٸی اور ماڑی پر حملہ آور ھو گیا

اور اپنے باپ کو شکست فاش دینے کے بعد اپنی حکومت بنا لی۔
چندر گپت موریہ کی جائے پیدائش کے بارے میں تاریخ بتاتی ھے کہ وہ میانوالی کے قریبی گاٶں پپلاں میں پیدا ھوا تھا اور انتہاٸی سخت جان اور باغی طبیعیت کا مالک تھا۔

ان مندروں کا طرزِ تعمیر بھی کوھستان نمک کے دوسرے مندروں جیسا ھے جو کٹاس راج ، ملوٹ ، بلوٹ اور کافر کوٹ میں واقع ھیں۔

ماڑی کے ان مندروں تک جانے کے لئے دواطراف سے پیدل ٹریک جاتے ھیں۔ جبکہ تیسری طرف دریائےسندھ اور چوتھی طرف قدرے ناھموار پہاڑی سلسلہ ھے۔
جاری ہے۔

%d bloggers like this: