دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افسانہ: پلیگ اور کوارنٹین!

اس کے بعد بھاگو کچھ بول نہ سکا۔ درد کی ٹیسوں کے درمیان اس نے رُکتے رُکتے کہا، ’آپ جانتے ہیں۔۔۔ وہ کس بیماری سے مرا؟ پلیگ سے نہیں۔۔۔ کونٹین سے۔۔۔ کونٹین سے!‘

روزِ اوّل سے وبائی امراض انسان کے تعاقب میں ہیں۔ ان وباؤں کی ہلاکت انگیزیوں نے دنیا بھر کے ادب میں مخلتف اصناف کی صورت میں جگہ بنائی۔ اردو ادب میں بھی وبائی امراض کے پھوٹنے کے نتیجے میں بے پناہ انسانی جانوں کے ضیاع اور اس سے جنم لینے والے خوف کو احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔

مثال کے طور پر اردو زبان میں جاسوسی ادب کے بے بدل لکھاری ابن صفی نے وبائی امراض اور ان کے شکار انسانوں کو جاسوسی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ اردو ادب میں راجندر سنگھ بیدی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ہندوستان میں طاعون کی وبا پھوٹنے کی وجہ سے جب انسانی بستیوں میں خوف کے سائے بڑھے تو راجندر سنگھ بیدی نے ‘کوارنٹین‘ نامی افسانہ تحریر کیا جس میں طاعون کی بیماری سے زیادہ اکیلے پن کے خوف کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جب بیمار افراد کو انسانی بستیوں سے الگ رکھا جاتا تھا۔ اس افسانے میں راجندر سنگھ بیدی لکھتے ہیں


ہمالیہ کے پاؤں میں لیٹے ہوئے میدانوں پر پھیل کر ہر ایک چیز کو دھندلا بنا دینے والی کہرے کی مانند پلیگ کے خوف نے چاروں طرف اپنا تسلط جما لیا تھا۔ شہر کا بچہ بچہ اس کا نام سن کر کانپ جاتا تھا۔

پلیگ تو خوفناک تھی ہی، مگر کوارنٹین (قرنطینہ) اس سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ لوگ پلیگ سے اتنے ہراساں نہیں تھے جتنے کوارنٹین سے، اور یہی وجہ تھی کہ محکمۂ حفظانِ صحت نے شہریوں کو چوہوں سے بچنے کی تلقین کرنے کے لیے جو قد آدم اشتہار چھپوا کر دروازوں، گزر گاہوں اور شاہراہوں پر لگایا تھا، اس پر ’نہ چوہا نہ پلیگ‘ کے عنوان میں اضافہ کرتے ہوئے ’نہ چوہا نہ پلیگ، نہ کوارنٹین‘ لکھا تھا۔

کوارنٹین کے متعلق لوگوں کا خوف بجا تھا۔ بحیثیت ایک ڈاکٹر کے میری رائے نہایت مستند ہے اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جتنی اموات شہر میں کوارنٹین سے ہوئیں، اتنی پلیگ سے نہ ہوئیں، حالانکہ کوارنٹین کوئی بیماری نہیں، بلکہ وہ اس وسیع رقبہ کا نام ہے جس میں متعدی وبا کے ایّام میں بیمار لوگوں کو تندرست انسانوں سے ازروئے قانون الگ کرکے ڈالتے ہیں تاکہ بیماری بڑھنے نہ پائے۔

اگرچہ کوارنٹین میں ڈاکٹروں اور نرسوں کا کافی انتظام تھا، پھر بھی مریضوں کی کثرت سے وہاں آجانے پر ان کی طرف فرداً فرداً توجہ نہ دی جاسکتی تھی۔ خویش و اقارب کے قریب نہ ہونے سے میں نے بہت سے مریضوں کو بے حوصلہ ہوتے دیکھا۔ کئی تو اپنے نواح میں لوگوں کو پے در پے مرتے دیکھ کر مرنے سے پہلے ہی مرگئے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ کوئی معمولی طور پر بیمار آدمی وہاں کی وبائی فضا کے جراثیم سے ہی ہلاک ہوگیا اور کثرت اموات کی وجہ سے آخری رسوم بھی کوارنٹین کے مخصوص طریقہ پر ادا ہوتیں ، یعنی سیکڑوں لاشوں کو مردہ کتوں کی نعشوں کی طرح گھسیٹ کر ایک بڑے ڈھیر کی صورت میں جمع کیا جاتا اور بغیر کسی مذہبی رسوم کا احترام کیے، پٹرول ڈال کر سب کو نذرِ آتش کردیا جاتا اور شام کے وقت جب ڈوبتے ہوئے سورج کی آتشیں شفق کے ساتھ بڑے بڑے شعلے یک رنگ وہم آہنگ ہوتے تو دوسرے مریض یہی سمجھتے کہ تمام دنیا کو آگ لگ رہی ہے۔

کوارنٹین اس لیے بھی زیادہ اموات کا باعث ہوئی کہ بیماری کے آثار نمودار ہوتے تو بیمار کے متعلقین اسے چھپانے لگتے، تاکہ کہیں مریض کو جبراً کوارنٹین میں نہ لے جائیں۔ چونکہ ہر ایک ڈاکٹر کو تنبیہ کی گئی تھی کہ مریض کی خبر پاتے ہی فوراً مطلع کرے، اس لیے لوگ ڈاکٹروں سے علاج بھی نہ کراتے اور کسی گھر کے وبائی ہونے کا صرف اسی وقت پتہ چلتا، جب جگر دوز آہ و بکا کے درمیان ایک لاش اس گھر سے نکلتی۔

میں ان دنوں کوارنٹین میں بطور ایک ڈاکٹر کام کر رہا تھا۔ پلیگ کا خوف میرے دل و دماغ پر بھی مسلّط تھا۔ شام کو گھر آنے پر میں ایک عرصہ تک کار بالک صابن سے ہاتھ دھوتا رہتا اور جراثیم کش مرکب سے غرارے کرتا، یا پیٹ کو جلا دینے والی گرم کافی یا برانڈی پی لیتا۔ اگرچہ اس سے مجھے بے خوابی اور آنکھوں کے چندھے پن کی شکایت پیدا ہوگئی۔ کئی دفعہ بیماری کے خوف سے میں نے قے آور دوائیں کھاکر اپنی طبیعت کو صاف کیا۔ جب نہایت گرم کافی یا برانڈی پینے سے پیٹ میں تخمیر ہوتی اور بخارات اٹھ اٹھ کر دماغ کو جاتے، تو میں اکثر ایک حواس باختہ شخص کی مانند طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتا۔ گلے میں ذرا بھی خراش محسوس ہوتی تو میں سمجھتا کہ پلیگ کے نشانات نمودار ہونے والے ہیں۔۔۔ اُف! میں بھی اس موذی بیماری کا شکار ہوجاؤں گا۔۔۔ پلیگ! اور پھر۔۔۔ کوارنٹین!

ان دنوں نو عیسائی ولیم بھاگو خاکروب، جو میری گلی میں صفائی کیا کرتا تھا، میرے پاس آیا اور بولا، ’بابوجی۔۔۔ غضب ہوگیا۔ آج ایمبو اسی محلہ کے قریب سے بیس اور ایک بیمار لے گئی ہے۔‘

’اکیس؟ ایمبولینس میں۔۔۔؟‘ میں نے متعجب ہوتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔

’جی ہاں۔۔۔ پورے بیس اور ایک۔۔۔ انہیں بھی کونٹن (کوارنٹین) لے جائیں گے۔۔۔ آہ! وہ بے چارے کبھی واپس نہ آئیں گے؟‘

دریافت کرنے پر مجھے علم ہوا کہ بھاگو رات کے تین بجے اُٹھتا ہے۔ آدھ پاؤ شراب چڑھا لیتا ہے اور پھر حسب ہدایت کمیٹی کی گلیوں میں اور نالیوں میں چونا بکھیرنا شروع کردیتا ہے، تاکہ جراثیم پھیلنے نہ پائیں۔ بھاگو نے مجھے مطلع کیا کہ اس کے تین بجے اٹھنے کا یہ بھی مطلب ہے کہ بازار میں پڑی ہوئی لاشوں کو اکٹھا کرے اور اس محلہ میں جہاں وہ کام کرتا ہے، ان لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کاج کرے جو بیماری کے خوف سے باہر نہیں نکلتے۔ بھاگو تو بیماری سے ذرا بھی نہیں ڈرتا تھا۔ اس کا خیال تھا اگر موت آئی ہو تو خواہ وہ کہیں بھی چلا جائے، بچ نہیں سکتا۔

ان دنوں جب کوئی کسی کے پاس نہیں پھٹکتا تھا، بھاگو سر اور منہ پر منڈاسا باندھے نہایت انہماک سے بنی نوع انسان کی خدمت گزاری کر رہا تھا۔ اگرچہ اس کا علم نہایت محدود تھا، تاہم اپنے تجربوں کی بنا پر وہ ایک مقرر کی طرح لوگوں کو بیماری سے بچنے کی تراکیب بتاتا۔ عام صفائی، چونا بکھیرنے اور گھر سے باہر نہ نکلنے کی تلقین کرتا۔ ایک دن میں نے اسے لوگوں کو شراب کثرت سے پینے کی تلقین کرتے ہوئی بھی دیکھا۔ اس دن جب وہ میرے پاس آیا تو میں نے پوچھا، ’بھاگو تمہیں پلیگ سے ڈر بھی نہیں لگتا؟‘

’نہیں بابوجی۔۔۔ بن آئی بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔ آپ اِتے بڑے حکیم ٹھہرے، ہزاروں نے آپ کے ہاتھ سے شفا پائی۔ مگر جب میری آئی ہوگی تو آپ کا دارو درمن بھی کچھ اثر نہ کرے گا۔۔۔ ہاں بابوجی۔۔۔ آپ بُرا نہ مانیں۔ میں ٹھیک اور صاف صاف کہہ رہا ہوں۔‘ اور پھر گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے بولا، ’کچھ کونٹین کی کہیے بابوجی۔۔۔ کونٹین کی۔‘

’وہاں کوارنٹین میں ہزاروں مریض آگئے ہیں۔ ہم حتّی الوسع ان کا علاج کرتے ہیں۔ مگر کہاں تک، نیز میرے ساتھ کام کرنے والے خود بھی زیادہ دیر ان کے درمیان رہنے سے گھبراتے ہیں۔ خوف سے ان کے گلے اور لب سوکھے رہتے ہیں۔ پھر تمہاری طرح کوئی مریض کے منہ کے ساتھ منہ نہیں جا لگاتا۔ نہ کوئی تمہاری طرح اتنی جان مارتا ہے۔۔۔ بھاگو! خدا تمہارا بھلا کرے۔ جو تم بنی نوع انسان کی اس قدر خدمت کرتے ہو۔‘

بھاگو نے گردن جھکا دی اور منڈاسے کے ایک پلّو کو منہ پر سے ہٹا کر شراب کے اثر سے سرخ چہرے کو دکھاتے ہوئے بولا، ’بابوجی، میں کس لائق ہوں۔ مجھ سے کسی کا بھلا ہوجائے، میرا یہ نکمّا تن کسی کے کام آجائے، اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ بابوجی بڑے پادری لابے (ریورینڈ مونت ل، آبے) جو ہمارے محلوں میں اکثر پرچار کے لیے آیا کرتے ہیں، کہتے ہیں، خداوند یسوع مسیح یہی سکھاتا ہے کہ بیمار کی مدد میں اپنی جان تک لڑا دو۔۔۔ میں سمجھتا ہوں۔۔۔‘

میں نے بھاگو کی ہمّت کو سراہنا چاہا، مگر کثرتِ جذبات سے میں رُک گیا۔ اس کی خوش اعتقادی اور عملی زندگی کو دیکھ کر میرے دل میں ایک جذبۂ رشک پیدا ہوا۔ میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ آج کوارنٹین میں پوری تن دہی سے کام کرکے بہت سے مریضوں کو بقیدِ حیات رکھنے کی کوشش کروں گا۔ ان کو آرام پہنچانے میں اپنی جان تک لڑا دوں گا۔ مگر کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کوارنٹین میں پہنچ کر جب میں نے مریضوں کی خوفناک حالت دیکھی اور ان کے منہ سے پیدا شدہ تعفّن میرے نتھنوں میں پہنچا، تو میری روح لرز گئی اور بھاگو کی تقلید کرنے کی ہمت نہ پڑی۔

تاہم اس دن بھاگو کو ساتھ لے کر میں نے کوارنٹین میں بہت کام کیا۔ جو کام مریض کے زیادہ قریب رہ کر ہوسکتا تھا، وہ میں نے بھاگو سے کرایا اور اس نے بلا تامل کیا۔۔۔ خود میں مریضوں سے دُور دُور ہی رہتا، اس لیے کہ میں موت سے بہت خائف تھا اور اس سے بھی زیادہ کوارنٹین سے۔ مگر کیا بھاگو موت اور کوارنٹین، دونوں سے بالاتر تھا؟

اس دن کوارنٹین میں چار سو کے قریب مریض داخل ہوئے اور اڑھائی سو کے لگ بھگ لقمۂ اجل ہوگئے!

یہ بھاگو کی جانبازی کا صدقہ ہی تھا کہ میں نے بہت سے مریضوں کو شفایاب کیا۔ وہ نقشہ جو مریضوں کی رفتارِ صحت کے متعلق چیف میڈیکل آفیسر کے کمرے میں آویزاں تھا، اس میں میرے تحت میں رکھے ہوئے مریضوں کی اوسط صحت کی لکیر سب سے اونچی چڑھی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ میں ہر روز کسی نہ کسی بہانے سے اس کمرہ میں چلا جاتا اور اس لکیر کو سو فیصدی کی طرف اوپر ہی اوپر بڑھتے دیکھ کر دل میں بہت خوش ہوتا۔

ایک دن میں نے برانڈی ضرورت سے زیادہ پی لی۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ نبض گھوڑے کی طرح دوڑنے لگی اور میں ایک جنونی کی مانند اِدھر اُدھر بھاگنے لگا۔ مجھے خود شک ہونے لگا کہ پلیگ کے جراثیم نے مجھ پر آخرکار اپنا اثر کر ہی دیا ہے اور عنقریب ہی گلٹیاں میرے گلے یا رانوں میں نمودار ہوں گی۔ میں بہت سراسیمہ ہوگیا۔ اس دن میں نے کوارنٹین سے بھاگ جانا چاہا۔ جتنا عرصہ بھی میں وہاں ٹھہرا، خوف سے کانپتا رہا۔ اس دن مجھے بھاگو کو دیکھنے کا صرف دو دفعہ اتفاق ہوا۔

دوپہر کے قریب میں نے اسے ایک مریض سے لپٹے ہوئے دیکھا۔ وہ نہایت پیار سے اس کے ہاتھوں کو تھپک رہا تھا۔ مریض میں جتنی بھی سکت تھی اسے جمع کرتے ہوئے اس نے کہا، ’بھئی اللہ ہی مالک ہے۔ اس جگہ تو خدا دشمن کو بھی نہ لائے۔ میری دو لڑکیاں۔۔۔‘

بھاگو نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا، ’خداوند یسوع مسیح کا شکر کرو بھائی۔۔۔ تم تو اچھے دکھائی دیتے ہو۔‘

’ہاں بھائی شکر ہے خدا کا۔۔۔ پہلے سے کچھ اچھا ہی ہوں۔ اگر میں کوارنٹین۔۔۔‘

ابھی یہ الفاظ اس کے منہ میں ہی تھے کہ اس کی نسیں کھچ گئیں۔ اس کے منہ سے کف جاری ہوگیا۔ آنکھیں پتھرا گئیں۔ کئی جھٹکے آئے اور وہ مریض، جو ایک لمحہ پہلے سب کو اور خصوصاً اپنے آپ کو اچھا دکھائی دے رہا تھا، ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔ بھاگو اس کی موت پر دکھائی نہ دینے والے خون کے آنسو بہانے لگا اور کون اس کی موت پر آنسو بہاتا۔ کوئی اس کا وہاں ہوتا تو اپنے جگر دوز نالوں سے ارض و سما کو شق کر دیتا۔ ایک بھاگو ہی تھا جو سب کا رشتہ دار تھا۔ سب کے لیے اس کے دل میں درد تھا۔ وہ سب کی خاطر روتا اور کڑھتا تھا۔۔۔ ایک دن اس نے خداوند یسوع مسیح کے حضور میں نہایت عجز و انکسار سے اپنے آپ کو بنی نوع انسان کے گناہ کے کفارہ کے طور پر بھی پیش کیا۔

اسی دن شام کے قریب بھاگو میرے پاس دوڑا دوڑا آیا۔ سانس پھولی ہوئی تھی اور وہ ایک دردناک آواز سے کراہ رہا تھا۔ بولا، ’بابوجی۔۔۔ یہ کونٹین تو دوزخ ہے۔ دوزخ۔ پادری لابے اسی قسم کی دوزخ کا نقشہ کھینچا کرتا تھا۔۔۔‘

میں نے کہا، ’ہاں بھائی، یہ دوزخ سے بھی بڑھ کر ہے۔۔۔ میں تو یہاں سے بھاگ نکلنے کی ترکیب سوچ رہا ہوں۔۔۔ میری طبیعت آج بہت خراب ہے’۔

’بابوجی اس سے زیادہ اور کیا بات ہوسکتی ہے۔۔۔ آج ایک مریض جو بیماری کے خوف سے بے ہوش ہوگیا تھا، اسے مردہ سمجھ کر کسی نے لاشوں کے ڈھیروں میں جا ڈالا۔ جب پٹرول چھڑکا گیا اور آگ نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، تو میں نے اسے شعلوں میں ہاتھ پاؤں مارتے دیکھا۔ میں نے کود کر اسے اٹھا لیا۔ بابوجی! وہ بہت بُری طرح جھلسا گیا تھا۔۔۔ اسے بچاتے ہوئے میرا دایاں بازو بالکل جل گیا ہے۔‘

میں نے بھاگو کا بازو دیکھا۔ اس پر زرد زرد چربی نظر آ رہی تھی۔ میں اسے دیکھتے ہوئے لرز اٹھا۔ میں نے پوچھا، ’کیا وہ آدمی بچ گیا ہے۔ پھر۔۔۔؟‘

’بابوجی۔۔۔ وہ کوئی بہت شریف آدمی تھا۔ جس کی نیکی اور شریفی (شرافت) سے دنیا کوئی فائدہ نہ اٹھا سکی، اتنے درد و کرب کی حالت میں اس نے اپنا جھلسا ہوا چہرہ اوپر اٹھایا اور اپنی مریل سی نگاہ میری نگاہ میں ڈالتے ہوئے میرا شکریہ ادا کیا۔‘

’۔۔۔اور بابوجی‘ بھاگو نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا، ’اس کے کچھ عرصہ بعد وہ اتنا تڑپا، اتنا تڑپا کہ آج تک میں نے کسی مریض کو اس طرح جان توڑتے نہیں دیکھا ہو گا۔۔۔ اس کے بعد وہ مر گیا۔ کتنا اچھا ہوتا جو میں اسے اسی وقت جل جانے دیتا۔ اسے بچا کر میں نے اسے مزید دکھ سہنے کے لیے زندہ رکھا اور پھر وہ بچا بھی نہیں۔ اب انہی جلے ہوئے بازوؤں سے میں پھر اسے اسی ڈھیر میں پھینک آیا ہوں۔۔۔‘

اس کے بعد بھاگو کچھ بول نہ سکا۔ درد کی ٹیسوں کے درمیان اس نے رُکتے رُکتے کہا، ’آپ جانتے ہیں۔۔۔ وہ کس بیماری سے مرا؟ پلیگ سے نہیں۔۔۔ کونٹین سے۔۔۔ کونٹین سے!‘

اگرچہ ہمہ یاراں دوزخ کا خیال اس لامتناہی سلسلۂ قہر و غضب میں لوگوں کو کسی حد تک تسلی کا سامان بہم پہنچاتا تھا، تاہم مقہور بنی آدم کی فلک شگاف صدائیں تمام شب کانوں میں آتی رہتیں۔ ماؤں کی آہ و بکا، بہنوں کے نالے، بیویوں کے نوحے، بچوں کی چیخ و پکار شہر کی اس فضا میں، جس میں کہ نصف شب کے قریب اُلّو بھی بولنے سے ہچکچاتے تھے، ایک نہایت المناک منظر پیدا کرتی تھی۔ جب صحیح و سلامت لوگوں کے سینوں پر منوں بوجھ رہتا تھا، تو ان لوگوں کی حالت کیا ہوگی جو گھروں میں بیمار پڑے تھے اور جنہیں کسی یرقان زدہ کے مانند در و دیوار سے مایوسی کی زردی ٹپکتی دکھائی دیتی تھی اور پھر کوارنٹین کے مریض، جنہیں مایوسی کی حد سے گزر کر ملک الموت مجسم دکھائی دے رہا تھا، وہ زندگی سے یوں چمٹے ہوئے تھے، جیسے کسی طوفان میں کوئی کسی درخت کی چوٹی سے چمٹا ہوا ہو، اور پانی کی تیزو تند لہریں ہر لحظہ بڑھ کر اس چوٹی کو بھی ڈبو دینے کی آرزو مند ہوں۔

میں اس روز توہم کی وجہ سے کوارنٹین بھی نہ گیا۔ کسی ضروری کام کا بہانہ کردیا۔ اگرچہ مجھے سخت ذہنی کوفت ہوتی رہی۔۔۔ کیونکہ یہ بہت ممکن تھا کہ میری مدد سے کسی مریض کو فائدہ پہنچ جاتا۔ مگر اس خوف نے جو میرے دل و دماغ پر مسلّط تھا، مجھے پا بہ زنجیر رکھا۔ شام کو سوتے وقت مجھے اطلاع ملی کہ آج شام کوارنٹین میں پانچ سو کے قریب مزید مریض پہنچے ہیں۔

میں ابھی ابھی معدے کو جلا دینے والی گرم کافی پی کر سونے ہی والا تھا کہ دروازے پر بھاگو کی آواز آئی۔ نوکر نے دروازہ کھولا تو بھاگو ہانپتا ہوا اندر آیا۔ بولا، ’بابو جی۔۔۔ میری بیوی بیمار ہوگئی۔۔۔ اس کے گلے میں گلٹیاں نکل آئی ہیں۔۔۔ خدا کے واسطے اسے بچاؤ۔۔۔ اس کی چھاتی پر ڈیڑھ سالہ بچہ دودھ پیتا ہے، وہ بھی ہلاک ہوجائے گا۔

بجائے گہری ہمدردی کا اظہار کرنے کے، میں نے خشمگیں لہجہ میں کہا، ’اس سے پہلے کیوں نہ آسکے۔۔۔ کیا بیماری ابھی ابھی شروع ہوئی ہے؟‘

’صبح معمولی بخار تھا۔۔۔ جب میں کونٹین گیا۔۔۔‘

’اچھا۔۔۔ وہ گھر میں بیمار تھی۔ اور پھر بھی تم کوارنٹین گئے؟‘

’جی بابوجی۔۔۔’ بھاگو نے کانپتے ہوئے کہا۔ ’وہ بالکل معمولی طور پر بیمار تھی۔ میں نے سمجھا کہ شاید دودھ چڑھ گیا ہے۔۔۔ اس کے سوا اور کوئی تکلیف نہیں۔۔۔ اور پھر میرے دونوں بھائی گھر پر ہی تھے۔۔۔ اور سیکڑوں مریض کونٹین میں بے بس۔۔۔‘

’تو تم اپنی حد سے زیادہ مہربانی اور قربانی سے جراثیم کو گھر لے ہی آئے نا۔ میں نہ تم سے کہتا تھا کہ مریضوں کے اتنا قریب مت رہا کرو۔۔۔ دیکھو میں آج اسی وجہ سے وہاں نہیں گیا۔ اس میں سب تمہارا قصور ہے۔ اب میں کیا کرسکتا ہوں۔ تم سے جانباز کو اپنی جانبازی کا مزہ بھگتنا ہی چاہیے۔ جہاں شہر میں سیکڑوں مریض پڑے ہیں۔۔۔‘

بھاگو نے ملتجیانہ انداز سے کہا، ’مگر خداوند یسوع مسیح۔۔۔‘

’چلو ہٹو۔۔۔ بڑے آئے کہیں کے۔۔۔ تم نے جان بوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالا۔ اب اس کی سزا میں بھگتوں؟ قربانی ایسے تھوڑے ہی ہوتی ہے۔ میں اتنی رات گئے تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتا۔۔۔‘

’مگر پادری لابے۔۔۔‘

’چلو۔۔۔ جاؤ۔۔۔ پادری ل، آبے کے کچھ ہوتے۔۔۔‘

بھاگو سر جھکائے وہاں سے چلا گیا۔ اس کے آدھے گھنٹہ بعد جب میرا غصہ رفو ہوا تو میں اپنی حرکت پر نادم ہونے لگا۔ میں عاقل کہاں کا تھا جو بعد میں پشیمان ہو رہا تھا۔ میرے لیے یہی یقیناً سب سے بڑی سزا تھی کہ اپنی تمام خودداری کو پامال کرتے ہوئے بھاگو کے سامنے گزشتہ رویہ پر اظہارِ معذرت کرتے ہوئے اس کی بیوی کا پوری جانفشانی سے علاج کروں۔ میں نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور دوڑا دوڑا بھاگو کے گھر پہنچا۔۔۔ وہاں پہنچنے پر میں نے دیکھا کہ بھاگو کے دونوں چھوٹے بھائی اپنی بھاوج کو چارپائی پر لٹائے ہوئے باہر نکال رہے تھے۔۔۔

میں نے بھاگو کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا، ’اسے کہاں لے جا رہے ہو؟‘

بھاگو نے آہستہ سے جواب دیا، ’کونٹین میں۔۔۔‘

’تو کیا اب تمہاری دانست میں کوارنٹین دوزخ نہیں۔۔۔ بھاگو۔۔۔؟‘

’آپ نے جو آنے سے انکار کردیا، بابو جی۔۔۔ اور چارا ہی کیا تھا۔ میرا خیال تھا، وہاں حکیم کی مدد مل جائے گی اور دوسرے مریضوں کے ساتھ اس کا بھی خیال رکھوں گا۔‘

’یہاں رکھ دو چارپائی۔۔۔ ابھی تک تمہارے دماغ سے دوسرے مریضوں کا خیال نہیں گیا۔۔۔؟ احمق۔۔۔‘

چارپائی اندر رکھ دی گئی اور میرے پاس جو تیر بہ ہدف دوا تھی، میں نے بھاگو کی بیوی کو پلائی اور پھر اپنے غیر مرئی حریف کا مقابلہ کرنے لگا۔ بھاگو کی بیوی نے آنکھیں کھول دیں۔

بھاگو نے ایک لرزتی ہوئی آواز میں کہا، ’آپ کا احسان ساری عمر نہ بھولوں گا، بابوجی۔‘

میں نے کہا، ’مجھے اپنے گزشتہ رویہ پر سخت افسوس ہے بھاگو۔۔۔ ایشور تمہیں تمہاری خدمات کا صلہ تمہاری بیوی کی شفا کی صورت میں دے۔‘

اسی وقت میں نے اپنے غیر مرئی حریف کو اپنا آخری حربہ استعمال کرتے دیکھا۔ بھاگو کی بیوی کے لب پھڑکنے لگے۔ نبض جو کہ میرے ہاتھ میں تھی، مدھم ہوکر شانہ کی طرف سرکنے لگی۔ میرے غیر مرئی حریف نے جس کی عموماً فتح ہوتی تھی، حسبِ معمول پھر مجھے چاروں شانے چت گرایا۔ میں نے ندامت سے سر جھکاتے ہوئے کہا، ’بھاگو! بدنصیب بھاگو! تمہیں اپنی قربانی کا یہ عجیب صلہ ملا ہے۔۔۔ آہ!‘

بھاگو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

وہ نظارہ کتنا دل دوز تھا، جب کہ بھاگو نے اپنے بلبلاتے ہوئے بچے کو اس کی ماں سے ہمیشہ کے لیے الگ کردیا اور مجھے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ لوٹا دیا۔

میرا خیال تھا کہ اب بھاگو اپنی دنیا کو تاریک پاکر کسی کا خیال نہ کرے گا۔۔۔ مگر اس سے اگلے روز میں نے اسے بیش از پیش مریضوں کی امداد کرتے دیکھا۔ اس نے سیکڑوں گھروں کو بے چراغ ہونے سے بچا لیا۔۔۔ اور اپنی زندگی کو ہیچ سمجھا۔ میں نے بھی بھاگو کی تقلید میں نہایت مستعدی سے کام کیا۔ کوارنٹین اور ہسپتالوں سے فارغ ہوکر اپنا فالتو وقت میں نے شہر کے غریب طبقہ کے لوگوں کے گھر، جو کہ بدروؤں کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے، یا غلاظت کے سبب بیماری کے مسکن تھے، رجوع کیا۔

اب فضا بیماری کے جراثیم سے بالکل پاک ہوچکی تھی۔ شہر کو بالکل دھو ڈالا گیا تھا۔ چوہوں کا کہیں نام و نشان دکھائی نہ دیتا تھا۔ سارے شہر میں صرف ایک آدھ کیس ہوتا جس کی طرف فوری توجہ دیے جانے پر بیماری کے بڑھنے کا احتمال باقی نہ رہا۔

شہر میں کاروبار نے اپنی طبعی حالت اختیار کرلی، اسکول، کالج اور دفاتر کھلنے لگے۔

ایک بات جو میں نے شدت سے محسوس کی، وہ یہ تھی کہ بازار میں گزرتے وقت چاروں طرف سے انگلیاں مجھی پر اٹھتیں۔ لوگ احسان مندانہ نگاہوں سے میری طرف دیکھتے۔ اخباروں میں تعریفی کلمات کے ساتھ میری تصاویر چھپیں۔ اس چاروں طرف سے تحسین و آفرین کی بوچھار نے میرے دل میں کچھ غرور سا پیدا کردیا۔

آخر ایک بڑا عظیم الشان جلسہ ہوا جس میں شہر کے بڑے بڑے رئیس اور ڈاکٹر مدعو کیے گئے۔ وزیرِ بلدیات نے اس جلسہ کی صدارت کی۔ مجھے صاحبِ صدر کے پہلو میں بٹھایا گیا، کیونکہ وہ دعوت دراصل میرے ہی اعزاز میں دی گئی تھی۔ ہاروں کے بوجھ سے میری گردن جھکی جاتی تھی اور میری شخصیت بہت نمایاں معلوم ہوتی تھی۔ پُر غرور نگاہ سے میں کبھی اِدھر دیکھتا کبھی اُدھر۔۔۔ ’بنی آدم کی انتہائی خدمت گزاری کے صلہ میں کمیٹی، شکر گزاری کے جذبہ سے معمور ایک ہزار ایک روپے کی تھیلی بطور ایک حقیر رقم میری نذر کر رہی تھی۔‘

جتنے بھی لوگ موجود تھے، سب نے میرے رفقائے کار کی عموماً اور میری خصوصاً تعریف کی اور کہا کہ گزشتہ آفت میں جتنی جانیں میری جانفشانی اور تن دہی سے بچی ہیں، ان کا شمار نہیں۔ میں نے نہ دن کو دن دیکھا، نہ رات کو رات، اپنی حیات کو حیاتِ قوم اور اپنے سرمایہ کو سرمایۂ ملت سمجھا اور بیماری کے مسکنوں میں پہنچ کر مرتے ہوئے مریضوں کو جامِ شفا پلایا!

وزیرِ بلدیات نے میز کے بائیں پہلو میں کھڑے ہوکر ایک پتلی سی چھڑی ہاتھ میں لی اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے ان کی توجہ اس سیاہ لکیر کی طرف دلائی جو دیوار پر آویزاں نقشے میں بیماری کے دنوں میں صحت کے درجہ کی طرف ہر لحظہ افتاں و خیزاں بڑھی جا رہی تھی۔ آخر میں انہوں نے نقشہ میں وہ دن بھی دکھایا جب میرے زیرِ نگرانی چوّن (54) مریض رکھے گئے اور وہ تمام صحتیاب ہوگئے۔ یعنی نتیجہ سو فیصدی کامیابی رہا اور وہ سیاہ لکیر اپنی معراج کو پہنچ گئی۔

اس کے بعد وزیرِ بلدیات نے اپنی تقریر میں میری ہمت کو بہت کچھ سراہا اور کہا کہ لوگ یہ جان کر بہت خوش ہوں گے کہ بخشی جی اپنی خدمات کے صلہ میں لفٹیننٹ کرنل بنائے جا رہے ہیں۔

ہال تحسین و آفرین کی آوازوں اور پُر شور تالیوں سے گونج اُٹھا۔

انہی تالیوں کے شور کے درمیان میں نے اپنی پُر غرور گردن اٹھائی۔ صاحبِ صدر اور معزز حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک لمبی چوڑی تقریر کی، جس میں علاوہ اور باتوں کے میں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی توجہ کے قابل ہسپتال اور کوارنٹین ہی نہیں تھے، بلکہ ان کی توجہ کے قابل غریب طبقہ کے لوگوں کے گھر تھے۔ وہ لوگ اپنی مدد کے بالکل ناقابل تھے اور وہی زیادہ تر اس موذی بیماری کا شکار ہوئے۔ میں اور میرے رفقا نے بیماری کے صحیح مقام کو تلاش کیا اور اپنی توجہ بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں صرف کردی۔ کوارنٹین اور ہسپتال سے فارغ ہوکر ہم نے راتیں انہی خوفناک مسکنوں میں گزاریں۔

اسی دن جلسہ کے بعد جب میں بطور ایک لفٹیننٹ کرنل کے اپنی پُرغرور گردن کو اُٹھائے ہوئے، ہاروں سے لدا پھندا، لوگوں کا ناچیز ہدیہ، ایک ہزار ایک روپے کی صورت میں جیب میں ڈالے ہوئے گھر پہنچا، تو مجھے ایک طرف سے آہستہ سی آواز سنائی دی۔

’بابو جی۔۔۔ بہت بہت مبارک ہو۔‘

اور بھاگو نے مبارک باد دیتے وقت وہی پُرانا جھاڑو قریب ہی کے گندے حوض کے ایک ڈھکنے پر رکھ دیا اور دونوں ہاتھوں سے منڈاسا کھول دیا۔ میں بھونچکا سا کھڑا رہ گیا۔

’تم ہو۔۔۔؟ بھاگو بھائی!‘ میں نے بہ مشکل تمام کہا۔۔۔ ’دنیا تمہیں نہیں جانتی بھاگو، تو نہ جانے۔۔۔ میں تو جانتا ہوں۔ تمہارا یسوع تو جانتا ہے۔۔۔ پادری ل، آبے کے بے مثال چیلے۔۔۔ تجھ پر خدا کی رحمت ہو۔۔۔!‘

اس وقت میرا گلا سوکھ گیا۔ بھاگو کی مرتی ہوئی بیوی اور بچے کی تصویر میری آنکھوں میں کھچ گئی۔ ہاروں کے بارِ گراں سے مجھے اپنی گردن ٹوٹتی ہوئی معلوم ہوئی اور بٹوے کے بوجھ سے میری جیب پھٹنے لگی۔ اور۔۔۔ اتنے اعزاز حاصل کرنے کے باوجود میں بے توقیر ہوکر اس قدرشناس دنیا کا ماتم کرنے لگا!


مرتب کردہ: اختر بلوچ

About The Author