اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کورونا وائرس عالمی سطح پر کیا تبدیلیاں‌لائے گا؟

ابھی تک یہ بات سامنے آئی ہے کہ تائیوان اور جنوبی کوریا کی جمہوریتیوں نے اس وبا کا بہتر انداز میں مقابلہ کیا ہے جبکہ آمرانہ اور پاپولسٹ قیادتیں اس حوالے سے نمایاں کام نہیں کر سکیں۔

تحریر: مجاہد حسین خٹک ، بشکریہ نقارخانہ ڈاٹ کام

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو خوف و دہشت میں مبتلا کر دیا ہے، ایک ارب سے زائد لوگ گھروں میں قید ہو چکے ہیں جبکہ اموات ہیں کہ بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔

اس وقت ہر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ جب یہ وبا ختم ہو گی تواس کرہ ارض کے باسیوں کی کیا شکل ہو گی؟ عالمی سطح پر کیا معاشی اور سیاسی انقلاب آ چکے ہوں گے؟

فارن پالیسی نے دنیا کے 12 بہترین مفکروں سے یہ سوال پوچھا ہے اور ان کی پیش گوئیوں کو اپنے اخبار میں شائع کیا ہے۔

دنیا کی خوشحالی، کھلے پن اور آزادی میں کمی آئے گی

سٹیفن ایم والٹ

اس وبا سے ریاست اور قوم پرستی کو تقویت ملے گی، اس بحران کے دوران ایمرجنسی میں ملنے والے اختیار وبا کے ختم ہونے پر بھی ریاستیں ترک کرنے پر تیار نہیں ہوں گی۔

کورونا وائرس طاقت کے مراکز کو مغرب سے مشرق کی جانب شفٹ کر دے گا کیونکہ اب تک جنوبی کوریا اور سنگاپور نے اس کا بہترین انداز میں مقابلہ کیا ہے جبکہ چین کا ردعمل بھی بہتر رہا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ اور یورپ کا ردعمل سست اور افراتفری پر مبنی نظر آیا ہے جس سے مغرب کا قاتم کردہ تاثر دنیا میں متاثر ہو گا۔

جس طرح ماضی میں وباؤں کے باوجود عالمی طاقتوں کے درمیان مخاصمت قائم رہی تھی، کورونا وائرس بھی اسے ختم نہیں کر پائے گا اور نہ ہی دنیا عالمگیریت کی جانب سفر کر سکے گی، یہ صرف ریاستوں کو مضبوط کرے گی اور عالمگیریت کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

عالمگیریت کی موجودہ شکل کا خاتمہ

رابن نبلیٹ

اکیسویں صدی کا آغاز معاشی سطح پر عالمگیریت کے شور و غوغا میں ہوا تھا لیکن اسے کورونا وائرس بری طرح متاثر کرے گا، چین کی بڑھتی ہوئی فوجی اور تکنیکی ترقی نے امریکہ کو اس کے خلاف متحرک کر دیا ہے، وہ اپنے اتحادیوں کو بھی چین کی ترقی روکنے کے لیے ساتھ ملا لے گا۔

سیاسی قیادت کورونا وائرس اپنے شہریوں کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گی کہ اس نے وبا کا بہتر انداز میں مقابلہ کیا ہے، جو رہنما ناکام رہیں گے وہ اس کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

چین عالمگیریت کا مرکز

کشور محبوبانی

کورونا وائرس دنیا کی معاشی سمت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائے گا۔ عالمی معیشت کا رخ پہلے ہی امریکہ کی جگہ چین کی جانب ہو چکا ہے، موجودہ وبا اسے مزید تقویت دے گی۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکی عوام کا عالمگیریت اور بین الاقوامی تجارت پر ایمان اٹھ گیا ہے، جبکہ چین کا یہ معاملہ نہیں ہے۔ چینی قیادت سمجھ چکی ہے کہ 1842 سے 1949 کے دوران انہیں جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کی وجہ خود کو دنیا سے الگ تھلگ رکھنے کی سوچ تھی۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے چینی معیشت کو عالمگیریت کی وجہ سے ترقی ملی ہے جس کے باعث ان کا اعتماد بڑھا ہے۔

اب امریکہ کے پاس دو راستے ہیں، اگر اس اپنی عالمی برتری برقرار رکھنی ہے تو اسے سیاسی اور معاشی سطح پر کھل کر چین کے مقابلے پر آنا پڑے گا۔ دوسری جانب اگر وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے تو اسے چین کے ساتھ تعاون کی راہ اپنانی پڑے گی۔

اگرچہ عقل و دانش یہی کہتی ہے کہ چین کے ساتھ تعاون ایک بہتر انتخاب ہے لیکن غالب امکان یہی ہے کہ امریکہ کی چین کی جانب موجودہ زہرآلود سیاسی فضا اس کے برعکس جانے کا فیصلہ کرے گی۔

جمہوریت پسند اپنے خول سے باہر نکل آئیں گے

جی جان آئیکن بیری

مختصر مدت کے لیے مغرب میں موجود مختلف نظریات رکھنے والے تمام گروہ کورونا کی وبا کے اثرات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کریں گے تاہم جس قسم کے نقصانات سامنے آ رہے ہیں اس کے پیش نظر یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ امریکہ قوم پرستی اور سپر پاورز کی مخاصمت کی طرف جائے گا۔

تاہم 1930 اور 1940 کی دہائیوں کی طرح ایک سست رفتار مخالف نظریہ بھی جنم لے گا جیسا کہ فرینکلن روزویلٹ اور دیگر سیاستدانوں نے دوسری جنگ عظیم کے قریب پیش کیا تھا۔ 1930 کی دہائی میں بین الاقوامی معیشت کی تباہی نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ جدید معاشرے کس طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ جنگ کے بعد امریکی قیادت نے ایک نیا کھلا نظام ترتیب دیا تھا جس میں کے ذریعے بچاؤ کی نئی صورتیں اور باہمی انحصار کو ایک نظام کے تحت لانا مقصود تھا۔

کورونا وائرس کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی جمہوریتیں شروع میں تو قوم پرستی کی طرف جائیں گی لیکن طویل المدت منظر نامے میں یہ اپنے خول سے باہر نکلیں گی اور عملیت پرستی اور خود حفاظتی بین الاقوامیت کی جانب ان کا سفر شروع ہو گا۔

کم نفع مگر زیادہ استحکام

شانن کے او نیل

کورونا وائرس اب عالمی مینوفیکچرنگ کے بنیادی اصولوں کو کھا رہا ہے اس لیے کمپنیاں اب اپنی سپلائی چین کو محدود کریں گی جو اس وقت مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی ہے۔

عالمی سپلائی چین پہلے ہی تنقید کی زد میں تھیں اس اس کی بنیادی وجوہات میں اقتصادی سطح پر چین کی سستی لیبر، ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتصادی جنگ، روبوٹ ٹیکنالوجی میں نئی اختراعات، خودکار نظام اور تھری ڈی پرنٹنگ اور سیاسی سطح پر حقیقی اور فرضی بیروزگاری شامل ہیں۔ کورونا وائرس نے اب اس زنجیر کی کئی کڑیاں توڑ دی ہیں کیونکہ متاثرہ علاقوں میں کارخانے بند ہونے سے دوسرے مینوفیکچرر اور ساتھ ساتھ اسپتال، فارمیسیز، سپرمارکیٹس اور دکانوں کو مصنوعات کی کمی کا سامنا ہے۔

دوسری جانب کمپنیاں بھی یہ جاننے کا مطالبہ کریں گی کہ ان کی اشیا کہاں سے آ رہی ہیں۔ اسی طرح حکومتیں بھی مداخلت شروع کر دیں گی تاکہ تزویراتی اہمیت کی صنعتیوں کے لیے داخلی بیک اپ پلانز اور ذخائر موجود ہوں۔

اس سے نفع کم ہو جائے گا لیکن سپلائی کا استحکام بڑھ جائے گا۔

اس وبا سے آخرکار بہتری آ سکتی ہے

شیوشنکر مینن

پہلی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس ہماری سیاست کو اندرونی اور بیرونی سطح پر تبدیل کر دے گا۔ اس وقت معاشرے ریاستی طاقت کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

ابھی تک یہ بات سامنے آئی ہے کہ تائیوان اور جنوبی کوریا کی جمہوریتیوں نے اس وبا کا بہتر انداز میں مقابلہ کیا ہے جبکہ آمرانہ اور پاپولسٹ قیادتیں اس حوالے سے نمایاں کام نہیں کر سکیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ کورونا وائرس نے ثابت کر دیا ہے کہ دنیا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے تاہم اس وقت تمام ممالک اپنی بقا اور خودانحصاری کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہم ایک غربت زدہ، خودغرضانہ اور چھوٹی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ امید اور اچھائی کی علامات بھی سامنے آ رہی ہیں۔ بھارت نے سارک ممالک کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کا آغاز کیا ہے جس میں جنوبی ایشیاء کے ساتھ مل کر اس خطرے کا مقابلہ کرنے کی خواہش ابھری ہے۔

امریکہ کو نئی حکمت عملی کی ضرورت پڑے گی

جوزف ایس نائے

2017 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نئی نیشنل سیکیورٹی سٹریٹجی کا اعلان کیا جس کا فوکس بڑی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ کرنا تھا، کورونا وائرس نے دکھا دیا کہ یہ حکمت عملی کسقدر غیرمناسب تھی۔

امریکہ اگر سپر پاور کے طور پر غالب بھی رہے تب بھی وہ اپنی حفاظت اکیلے نہیں کر سکتا۔ رچرڈ ڈینزگ نے 2018 میں کہا تھا کہ اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی نہ صرف اپنی تقسیم میں عالمی نوعیت کی ہے بلکہ اپنے نتائج کے اعتبار سے بھی عالمگیریت کی حامل ہیں۔ جرثومے، مصنوعی ذہانت، کمپیوٹر وائرس اور تابکاری ایسے معاملات ہیں جو حادثاتی طور پر پھیل سکتی ہیں اور وہ سب کا مسئلہ بن سکتی ہیں۔

کورونا وائرس اور ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے خطرات کے معاملے میں امریکہ کی دوسروں پر برتری کے انداز میں نہیں سوچا جا سکتا۔ کامیابی کی کلید اس بات میں پنہاں ہے کہ دوسروں کے ساتھ طاقت کے اشتراک کا سبق سیکھا جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ملک اپنے مفادات پہلے دیکھتا ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ مفادات کی تعریف کسقدر تنگ نظری سے یا وسیع النظری سے کی جاتی ہے۔

کورونا وائرس نے دکھا دیا ہے کہ ہم امریکی ایک نئی دنیا کے ساتھ اپنی حکمت عملی کو ہم آہنگ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

کورونا وائرس کی تاریخ صرف فاتحین لکھیں گے

جان ایلن

کورونا وائرس کے بحران کی تاریخ فاتحین لکھیں گے، ہر قوم، اور دھیرے دھیرے ہر فرد، ایک نئے اور طاقتور انداز میں اس وبا کے دباؤ کا تجربہ کر رہا ہے۔

یہ بات ناگزیر ہے کہ بہتر سیاسی، معاشی اور طبی سہولیات رکھنے والے ممالک ان کے مقابلے میں کامیاب ٹھہریں گے جو اس وبا کے مختلف اور تباہ کن نتائج کا سامنا کریں گے۔

کچھ لوگوں کے لیے یہ جمہوریت، کثیرالجہتی اور عالمی ہیلتھ کئیر نظام کی فتح ہے جبکہ دوسرے اسے فیصلہ کن اور آمرانہ کے فوائد واضح ہیں۔

جو بھی ہو، یہ بحران بین الاقوامی پاور اسٹرکچر میں بڑی تبدیلی لائے گا۔ آغاز میں معیشت کی رفتار کم ہو گی اور مختلف ممالک کے درمیان ٹینشن بڑھے گی۔ ایک طویل عرصے تک عالمی معیشت کی پیداواری صلاحیت کم ہو گی۔ عالمی نظام شدید دباؤ میں آ جائے گا جس کے باعث ملکوں کے اندر اور ان کے درمیان عدم استحکام پیدا ہو گا۔

عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ایک نیا ڈرامائی مرحلہ

لاری گیرٹ

کورونا وائرس کے طویل المدت اثرات ہوں گے اور یہ عالمی معیشت میں بنیادی تبدیلیاں لائے گا۔

عالمگیریت کی رو میں مختلف کمپنیوں نے دنیا کے مختلف علاقوں میں مینوفیکچرنگ کا کام پھیلایا ہوا تھا تاکہ مارکیٹس میں اپنی مصنوعات فوری طور پر بھیج سکیں۔ کورونا وائرس نے نہ صرف انسانوں کو متاثر کیا ہے بلکہ پورے نظام کو ہی زہرآلود کر دیا ہے۔

مزید ناکام ریاستیں

رچرڈ این ہاس

کورونا وائرس کے باعث اگلے کئی برسوں کے دران ممالک کی توجہ اپنے اندر مرکوزرہے گی، بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی شدید مخالفت ہو گی اور علاقائی یا عالمی مسائل کے حل کی خواہش اور ارادہ کمزور پڑے گا۔ سب ممالک اپنی تعمیر نو اور بحران کے معاشی نتائج سے نمٹنے پر اپنے وسائل صرف کریں گے۔

اندازہ یہی ہے کہ بہت سے ممالک کو اس بحران سے باہر آنے میں مشکلات کا سامنا ہو گا جس کے نتیجے میں ریاست کمزور ہو گی اور ناکام ریاستوں کی تعداد بڑھے گی۔

کورونا وائرس کی وبا کے نتائج میں امریکہ چین تعلقات میں خرابی اور یورپی ممالک کے اتحاد میں کمزوری شامل ہوں گے۔

امریکہ قیادت کے امتحان میں ناکام ہوا ہے

کوری شیک

اپنے محدود ذاتی مفادات اور بڑھتی ہوئی نااہلیت کے باعث امریکہ بین الاقوامی قائد کے طور پر مزید نہیں دیکھا جائے گا۔ اس وبا کے بین الاقوامی اثرات کو کم کیا جا سکتا تھا اگر عالمی تنظیمیں وقت پر زیادہ معلومات فراہم کرتیں جس سے مختلف ممالک کو تیاری کے لیے وقت مل جاتا۔

یہ کام امریکہ کر سکتا تھا مگر وہ قیادت کے اس امتحان میں ناکام ہوا ہے۔

ہر ملک میں انسانی روح کی طاقت دیکھی جا سکتی ہے

نکولس برنز

کورونا وائرس اس صدی کا سب سے بڑا بحران ہے، اس کی گہرائی اور وسعت بہت زیادہ ہے۔ پبلک ہیلتھ کے بحران سے دنیا کے 7.8 ارب لوگوں میں سے ہر ایک کو خطرہ لاحق ہے۔

اگر دنیا کی دو بڑی طاقتیں، امریکہ اور چین، اس موقع پر بھی لفظی جنگ سے باز نہیں آ رہیں تو ان دونوں کی ساکھ بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔

اگر یورپی یونین اپنے 50 کروڑ شہریوں کو مدد فراہم نہیں کر سکتیں تو مستقبل میں قومی حکومتیں برسلز سے مزید اختیارات واپس لے سکتی ہیں۔

تاہم ہر ملک کے اندر انسانی روح کی بے شمار مثالیں سامنے آئی ہیں، ڈاکٹرز، نرسوں، سیاسی رہنماؤں اور عام آدمی نے لچک، موثرپن اور رہنمائی دکھائی ہے۔

اس سے امید پیدا ہوتی ہے کہ دنیا کے مرد اور خواتین اس غیرمعمولی چیلنج کے جواب میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

%d bloggers like this: