نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امریکہ طالبان معاہدہ’ چند اہم مگر تلخ سوالات۔۔۔ حیدر جاوید سید

مارچ1977ء کی انتخابی مہم اور پھر قومی اتحاد کی تحریک دونوں میں امریکہ اور مقامی اسٹیبلشمنٹ قومی اتحاد کیساتھ کھڑے رہے یہاں تک کہ بھٹو کی حکومت ختم ہوگئی۔

امریکہ اور طالبان میں دوسال کے تعطل کے بعد مذاکرات کا دروازہ (پس پردہ رابطہ کاری جاری تھی) پھر کھلا اور بالآخر معاہدہ ہوگیا،
ست بسم اللہ، لڈی ہو جمالو، مبارک سلامت، بچہ لوگ تالیاں بجاؤ۔
1980ء کی دہائی میں جنیوا معاہدہ ہوا تھا، سوویت افواج جو 1979ء کے افغان انقلاب ثور کے بعد نئی حکومت کی دعوت پر افغانستان آئی تھیں واپس روانہ ہوئیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اسلامی جہادیوں کو چھوڑ چھاڑ کر ‘یہ جا وہ جا’ ہوئے۔
افغانستان میں مجاہدین اپنے ہی جوتوں میں دال باٹنے لگے۔ سوویت انخلاء اور طالبان کے ظہور کے درمیانی برسوں میں خانہ جنگی 5لاکھ افغان کھا گئی، یہی وہ دور تھا جب بعض پاکستانی فرقہ پسند تنظیموں نے اپنے کارکنوں کے تربیتی کیمپ افغانستان میں قائم کئے اور پھر پاکستان میں عسکری دہشت گردی کا نیا باب لکھا جانے لگا۔
ساعت بھر کیلئے رُک کر ایک بات عرض کئے دیتا ہوں، سوویت یونین افغانستان پر حملہ آور نہیں ہوا تھا بلکہ وہ داود خان کا تختہ اُلٹ کر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والے نور محمد ترکئی کی حکومت کی دعوت پر تعمیر وترقی کے عمل میں شرکت اور انقلاب دشمن قوتوں کیخلاف نئی حکومت کو منظم کرنے کیلئے آیا تھا، تبھی ہمارے یہاں مارشل لاء حکومت کے میڈیا اور رجعت پسندوں کے اخبارات وجرائد نے ”کہانیاں” گھڑ گھڑ کر سنائیں، سوویت یونین کا اگلا پڑاؤ گوادر ہے، اُسے گرم پانیوں تک رسائی درکار ہے، یہ کہانیاں خوب فروخت ہوئیں جہاد کیلئے دکانیں کھل گئیں۔
کیا ہم سوویت یونین کی افغانستان آمد سے لگ بھگ تین سال پیچھے چلیں۔
یہ ستمبر1976ء کی بات ہے پاکستان کے دورہ پر آئے امریکی تھنک ٹینک برائے جنوبی ایشیاء کے ارکان نے اسلام آباد میں امریکی سفیر کے ہمراہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی اور انہیں سوویت یونین کی سرپرستی میں افغانستان کے کمیونسٹوں کی سرگرمیوں اور مستقبل کے ممکنہ منظرنامہ سے آگاہ کرتے ہوئے تعاون کی درخواست کی۔
بھٹو نے تعاون کی درخواست مسترد کردی۔ ان کا مؤقف تھا کہ نصیراللہ بابر کے ذریعے جن افغان رہنماؤں کو پاکستان میں قیام کی دعوت دے گئی اس کے پیچھے پاکستان کی عسکری مہم جوئی کا ارادہ نہیں بلکہ یہ ڈیونڈرلائن کے حوالے سے موجود افغان مؤقف اور پختون زلمے کے نوجوانوں کو افغانستان میں پناہ وتربیت دینے کا ردعمل ہے۔

پاکستان اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے، امریکی وارگیم میں شریک نہیں ہوگا۔
اب اکتوبر1976ء سے جنوری1977 کے درمیان کے اسلام پسند، اخبارات وجرائد اُٹھا کر دیکھ لیجئے اور غور کیجئے کہ ان چند ماہ کے دوران بھٹو اور ان کی حکومت کو کونسی گالی نہیں دی گئی۔
مارچ1977ء کی انتخابی مہم اور پھر قومی اتحاد کی تحریک دونوں میں امریکہ اور مقامی اسٹیبلشمنٹ قومی اتحاد کیساتھ کھڑے رہے یہاں تک کہ بھٹو کی حکومت ختم ہوگئی۔
بالائی سطور بہت ضروری تھیں ماضی کے حوالے سے ہم آگے بڑھتے ہیں۔
1977ء سے1979ء کے درمیان تین پڑوسی ملکوں میں اقتدار پر نئے چہرے آن بیٹھے۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا۔ ایران میں
”شاہ رفت خمینی آمد”۔
رضا شاہ پہلوی کی جگہ آیت اللہ سید روح اللہ موسوی امام خمینی کا انقلاب برپا ہوا افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب آگیا۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت ونظام کے عالمی محافظ بنام اسلامی جہاد سوویت یونین کے مخالف کیمپ میں کھڑے ہوگئے۔
انقلابی بھی ایک دوسرے کو مارتے تخت نشین ہوتے رہے اور افغان جہاد کا میدان بھی گرم رہا۔
اس میدان میں صرف پاکستان کے 25ہزار افراد قربان ہوئے (خانہ جنگی کے برسوں میں جہادی تنظیم کی طرف سے جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد اس سے الگ ہے) جنیوا معاہدے کے بعد افغان سرزمین نے جن بدترین حالات کا سامنا کیا، وہ بالائی سطور میں عرض کر چکا۔
9/11کے بعد امریکیوں نے پرویز مشرف کے تعاون سے افغانستان میں ایک نئی جنگ کا دروازہ کھولا اور اب وہ اسے بند کرنے جارہے ہیں۔
دوحہ معاہدہ پر پُرجوش تالیاں بجائی جارہی ہیں، سنگدلوں کا مؤقف ہے لہولہان افغانستان فاتح اور امریکہ شکست خوردہ ہے۔
فتح کے نشے میں چور (مستانوں) کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ اگر افغان حکومت اور طالبان آنے والے دنوں میں مذاکرات کی میز پر نہ بیٹھے تو کیا ہوگا؟،

دو باتیں اہم ہیں،
اولاً یہ کہ کیا افغان طالبان کو کلی طور پر افغانستان کا نمائندہ تسلیم کر لیا گیا ہے؟
ثانیاً یہ کہ افغانستان کے جمہوریت پسندوں کا کیا ہوگا؟
طالبان اور افغان حکومت مل بیٹھ کر مستقبل کیلئے حکمت عملی اور تمام اکائیوں کیلئے قابل قبول نظام وضع نہیں کرتے تو نتیجہ کیا ہوگا۔
میری دانست میں ایرانی جرنیل کا عراق میں امریکہ کے ہاتھوں قتل اور طالبان امریکہ معاہدہ امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کا انتخابی کارڈ ہوں گے۔
وہ اسے اپنی عظیم کامیابیوں کے طور پر پیش کریں گے، ممکن ہے انتخابات جیت بھی لیں مگر افغانستان کا کیا ہوگا اور پھر اس کے دو پڑوسیوں ایران اور پاکستان کا کیا ہوگا؟

کیا افغانستان کے اندر علاقائی مفادات رکھنے والے چین، روس، پاکستان اور ایران پیچھے ہٹیں گے؟
کیا مستقبل میں طالبان ماضی دہرائیں گے یا ماڈریٹ انداز میں وسیع تر افغان اتحاد کا ڈول ڈالنے پر آمادہ ہوں گے؟
ان سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا آنے والے ایک دوسال میں افغانستان میں ایسا مثالی ماحول بنے گا کہ30لاکھ افغان پاکستان سے اور 20لاکھ ایران سے افغانستان واپس جا سکیں؟
خاکم بدہن اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہوتا تو کہیں ہم 1990ء کی دہائی میں واپس جاتا ہوا وہ افغانستان تو نہیں دیکھیں گے جس کے حالات کے اثرات پاکستان پر بہت گہرے مرتب ہوئے۔
لاریب جنگ مسئلہ کا حل ہرگز نہیں، مگر طالبان امریکہ معاہدہ کی کوکھ سے پائیدار امن برآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ طالب علم خوش فہمی کا شکار نہیں، دو عشرے کے درمیان جو تازہ بربادیاں امریکہ نے افغانستان میں بوئیں ان کا مداوا کیسے ہوگا۔
شام اور عراق سے محفوظ راستوں سے داعش کے جو جنگجو افغانستان پہنچائے گئے ان کے حوالے سے کیا طے پایا۔
کچھ طے نہیں پایا تو پورا معاہدہ فراڈ ہے،
ایسا فراڈ جو صرف امریکہ کے صدارتی انتخابات میں رائے دہندگان کو گمراہ کرنے کیلئے کیا گیا۔
افغان جنگ کے ایک متاثرہ خاندان کے فرد کی حیثیت سے ہمیں یہ پوچھنے کا حق ہے کہ اگر 1986ء جیسی خانہ جنگی کا دروازہ دوبارہ کھل گیا تو کیا ہوگا؟
کوئی تو ہمیں بتلائے سمجھائے کوئی ہے؟۔

About The Author