یہ ایک مختلف شام تھی۔مادرِعلمی، جی سی پوسٹ گریجویٹ کالج مظفر گڑھ کی روشوں پہ ایستادہ درخت شام کے پھیلتے سائے کو گھمبیر کرتے تھے،ان درختوں میں ایک پیڑ وہ تھا جس پہ کوئی چار دہائیاں پہلے اپنا نام لکھا تھا۔وہ درخت اب کہاں تھا!ہم کن انکھیوں سے رازداں پیڑ کو دیکھتے تھے!ایک دوست کی نگاہ سے ہم نے یہ نظارہ کیا کہ آدمی نگاہ کے علاوہ کچھ نہیں :
ادمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ کہ دیدِدوست است
ہمارے مہرباں ، ملتان کے مصور اور شاعر زوار حسین، کمال آدمی تھے ۔ ان کا شعر نہیں بھولتا:
جانے کس سوچ میں ڈوبے ہیں سرِراہ گزار
ان درختوں کو ترا نام بتایا کس نے
فیض صاحب کی ایک نظم ” شام ” ہے۔ اس میں وہ پیڑ کو مندر اور آسماں کو پروہت کہتے ہیں۔”اس طرح ہے کہ ہر پیڑ کوئی مندر ہے کوئی اجڑا ہوا بے نور پرانا مندر ڈھونڈتا ہے جو خرابی کے بہانے کب سے ۔۔۔۔آسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلےجسم پر راکھ ملے ، ماتھے پہ سیندور ملےسرنگوں بیٹھا ہے نہ جانے کب سے”! آسماں شام کے چہرے پہ راکھ مل کر شام کو شامغریباں کرتا ہے ! احمد مشتاق نے کہا:
ہوتی ہے شام آنکھ سے آنسو رواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے
آدمی رات کے اندھیرے اور نیند کی ” عارضی موت” سے ڈرتا ہے۔شام سے پہلے گھر کی جنت میں پناہ لیتا ہے۔ ہمارے بابا ہمیں شام سے پہلے گھر لوٹنے کی تاکید کرتے تھے کہ تب شام کو بستیوں میں جن بھوت آتے تھے۔گاوں میں بجلی نہ تھی۔دئیے کی روشنی دیوار پہ رقص کرتی اور بے مایہ چراغوں کی ٹمٹماتی لو میں ہم کتاب پڑھتے، اقرا باسم ربک الذی خلق! تھک جاتے تو بستر پر دراز ہو مکھ پہ کھیس ڈار سو رہتے۔ آدمی حیلہ جو ہے، زبان سے اپنی دنیا تخلیق کرتا ہے۔سونے کے کمرے کو خواب گاہ کہتا ہے۔ہائیڈگر کا خیال ہے کہ ہم زبان کے زنداں میں قید ہیں اور اپنی زبان کے حصار کے باہر کچھ نہیں سوچتے! شام کی اداسی کے علاج کو انسان نے ایک جہان آباد کیا ہے ۔رندوں کے کلب، میخانے اور ناچ گھر، دل والوں کے مشاعرے، صوفیوں کی قوالیاں اور زاہدوں کی محافل ذکر، شام کو گوارا اور خوشگوار بناتی ہیں ۔ حسب_ ذوق ، جذب و مستی کے قرینے بنتے ہیں۔غالب نے کہا:
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئیے
حیدر علی آتش آگ لگاتے ہیں اور گردن_ مینا میں بانہیں ڈال سونے کی بات کرتے ہیں:
ہر شب شب ِبرات ہے ہر روز روزِعید
سوتا ہوں ہاتھ گردنِ مینا میں ڈال کے
خوابوں کی نقابت ہو نہ ہو ، نیند کی لوری سے دن کا مارا آدمی سکون پاتا ہے۔اور اگلے دن تازہ دم ہو، زندگی سے نبرد آزما ہونے کو جاگتا ہے۔ رات کی کوکھ سے جنم لینے والی صبح کا معجزہ دیکھتا ہے!جوش صاحب نے کہا:
ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لئے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
علامہ اقبال کے مرشد، رومی کہتے ہیں کہ میری عمر کا حاصل تین سخن ہیں۔ میں خام تھا ، پختہ ہوا اور جل گیا اور اس کے لئے وہ درخت کا امیج استعمال کرتے ہیں:
حاصلِ عمرم سہ سخن بیش نیست
خام بدم پختہ شدم سوختم
ہم خام تھے تو درختوں کی طرح وسیع اور سرسبز کالج کی روشوں پہ لہلہاتے تھے ۔ اور پختہ ہو کر جلتے ہیں !کالج میں اک کشادہ راستے پر شام ، شجر اورشاعری کے ساتھ ماضی اور حال ہمارے ساتھ چلتے تھے۔نظریں ایاز شیروانی، شیخ حبیب، نوابزادہ افتخار، چوہدری ثقلین، مجیب خاکوانی، رائے ریاض، الیاس راعی، توقیر ناصر، کلیم اللہ،شعیب عتیق، خالد حمید،شاہد زیدی،مٹھو، روفی، مونچھوں والے نصرت خاں، مخدوم اختر، حسن مغیث، وقار قریشی، خالد دستی، مجید کاروانی اور میاں ایوب قریشی کو ڈھونڈتی تھیں ۔اور ہم دل میں خدا کا شکر ادا کرتے تھے کہ بے وفا شاہد زیدی کے علاوہ سب سلامت ہیں۔ ایاز خاں ہماری کابینہ میں فورتھ ائیر کے نمائندہ کلاس تھے۔ ایک سچا دوست اور کھرا آدمی جو وفا کی تصویر ہے ۔وہ ایک بڑے بنک کے وی پی رہے۔ انتخاب میں حصہ لینے کی "سازش” کے وہ بانی تھے اور اب باریش بزرگ ہو مرشد دکھتے ہیں۔ ایوب قریشی نمائندہ کلاس فرسٹ ائیر تھے۔ وہ آئی جی رہنے کے بعد اب سیاست کی وادء پرخار میں ہیں۔وہ تمام عمر مظفر گڑھ کی مٹی سے جڑ کر زندگی کرتے رہے۔ بے مثال نوابزادہ نصراللہ خان کا بیٹا نوابزادہ افتخار ممبر قومی اسمبلی ہے۔ بھلا آدمی اچھی روایتوں کا امین ہے۔کالج میں ہونے والے "لاٹری ” ڈرامے کا مرکزی کردار، توقیر ناصر، قومی سطح کا نامور اداکار ہے۔ حسن مغیث نے بار کی سیاست اور وکالت کے ساتھ اپنی مسکان کی حفاظت کی ہے وہ ہمارے ساتھ جائنٹ سیکرٹری ، مجیب خاں خاکوانی نائب صدر اور مخدوم اختر جنرل سیکرٹری تھے۔کالج یونین کے پلیٹ فارم سے ہم نے نہ صرف ڈرامہ کرایا تھا بلکہ یادگار مشاعرہ اور بین بھرپور بین الکللیاتی مباحثہ بھی منعقد ہوا۔یہ پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کے وسط کی بات ہے جب یہ طالب علم جی سی مظفرگڑھ کی یونین کا صدر اور خوش خصالوں کا یہ گروہ کالج کی زینت تھا۔خوب صورت اور خوش لباس ، پروفیسر فخر بہادر زار ہمارے پرنسپل تھے۔ طرحدار شجاعت مند خان انگریزی اور سرو قد شیدا رسول اردو پڑھاتے تھے۔پستہ قد مگر علمی لحاظ سے بالا ،غنی خاں تاریخ پڑھاتے تھے ۔پروفیسر اخلاق نیازی اور ضمیر صاحب یونین کے انچارج اور غیر نصابی سرگرمیوں میں رہنمائی فرماتے ۔ اردو کے نامور ادیب، اصغر ندیم سید، صفدر امام، باکمال شاعر رئیس احمر،لیجنڈری مصنفین پروفیسر آغا صادق حسین ،ڈاکٹر دلشاد کلانچوی ،مرنجاں مرنج عامر فہیم ،خوب صورت بشیر لطیف اور نیک طینت خلیل فاروقی کے وجود نے مادرِعلمی کو ہر زماں نئی زندگی دی ہے۔ رئیس احمر کی ایک لمبی بحر کی غزل کا ایک شعر یاد رہ گیا ہے:
دبے پاوں گر تو چلا کرے ، بھلا حشر یہ کیوں بپا کرے
گیا سینہ چھَن، گیا دِل بھی چھِن جونہی بولے چھُن تیرے گھنگھرو
کالج کا علمی ماحول قابلِ رشک تھا اور سیاسی سرگرمیاں ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔پھر یونین پر بین لگ گیا۔سب سوزِعیاں اور سب سوزِنہاں ضبط ہوئے اور بالآخر امن و اماں ضبط ہوا کہ آزادی اور اظہار پر پابندی سے علم کا دم گھٹتا ہے۔اب امن واپس آیا ہے لیکن آزادی گھر کی دیواروں پہ بال کھولے سوتی ہے !کالج میں یونین کے صدر کے فیل ہونے کی روایت پختہ تھی۔ ریاض راعی اور میں نے یہ روایت توڑی۔ بی اے پاس کیا اور زندگی کے رزمیے میں شامل ہو گئے۔وہ ائیر فورس اور ہم سول سروس کو جا نکلے۔ملتان یونیورسٹی سے ایم اے انگلش، لیکچررشپ، سی ایس ایس، ملٹی نیشنل کی نوکری، کاروبار، سیاست، کالم نگاری، دنیا کی سیر، ” "لوک بیانیہ اور سیاست” اور "مونجھ سے مزاحمت تک” نام کی کتابیں، بچوں کی تعلیم، روزگار اور شادیاں۔۔۔ جیسے ایک طلسمِ ہوشربا بیت گئی ہو یا اک خواب دیکھا ہو! زندگی کو قریب اور تفصیل سے دیکھا ہے.دیس بدیس گھوما ہوں ۔کالے اور گورے کی نوکری کی ہے۔” گر میسر گرنری ہوتی ، نوکری پھر بھی نوکری ہوتی”۔ اکبر الہ آبادی نے سچ کہا کہ غلام نوکر ہو خوش رہتا ہے کہ اسے طاقتور کا حکم سننے اور کمزور پر حکم چلانے کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا! میرے ساتھ عجب ہوا کہ زندگی کے تپھیڑے کھانے کے باوجود ہر آنیوالے دن کے ساتھ یہ یقین پختہ ہوا کہ زندگی ،سب حسن ہے، سب محبت ہے! فطرت کا دستِ نمو زندگی میں مثبت لوگوں اور اچھائی کی حفاظت کرتا ہے!آج مادرِعلمی میں چند گھنٹے گزارے تو گویا دبستاں کھل گیا۔اچھا لگا!!
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
ہمارا ہونہار اور ملنسار بھائی، رانا مسعود اب کالج کا پرنسپل ہے۔ 285 کنال رقبے پر کالج کا سنگِ بنیاد عبدالحمید دستی نے 1953 میں رکھا۔1954میں انٹرمیڈیٹ کلاسز کا اجرا ہوا۔1958میں ڈگری کالج بنا ۔ 2002پوسٹ گریجویٹ کلاسز شروع ہوئیں اور اس وقت کوئی پانچ ہزار طلبہ کالج میں زیرِتعلیم ہیں ۔وسیب کا واحد کالج جہاں ایک روشن دماغ افسر ، ڈاکٹر احتشام انور نے 2019 میں CSS کی کلاس شروع کرائی تھی۔24 فروری 2020 کو دوسری کلاس کی orientation یا ” سمت بندی” تھی اور ہم یادوں کے دئے جلانے وہاں گئے تھے۔میرے دوست ، نامور صحافی اور دانشور شوکت اشفاق، لکھاری اور سوشل ایکٹیوسٹ ندیم رحمان ملک، دائمی مقامی سرکاری افسر ملک خیر محمد بدھ ، پروفیسر ڈاکٹر صدیق اکبر، خوبرو ضلعی افسر اطلاعات، محمد شہزاد کی موجودگی نے شاد کیا اور زندگی کی رعنائی سے دمکتے سٹوڈنٹس کو دیکھا تو دل خوش ہو گیا۔ان کے امید بھرے روشن چہرے اچھے لگے اور پاکستان کے روشن مستقبل پہ یقین پختہ تر ہوا۔مستقبل کے افسروں سے کیا بات ہوئی، یہ کہانی پھر سہی!!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر