پنجاب اسمبلی محض مباحثہ فورم میں بدل کر رہ گئی ہے- اس بات کا احساس مجھے اُس وقت ہوا جب پی پی پی کے پارلیمانی رہنما سید حسن مرتضیٰ نے فلور پر کھڑے ہوکر وزیر قانون کو بتایا کہ اُن کے ضلع چینوٹ میں بنگلہ امین پورہ میں ڈپٹی کمشنر 200 گھروں پر مشتمل کچی آبادی گرانے کا حُکم دے چُکے ہیں- اُن دو سو گھروں کو مت گرایا جائے، غریب لوگ ہیں کہاں جائیں گے- وزیر قانون نے پی پی پی کے پارلیمانی رہنما کو کہا کہ وہ اُن کے چیمبر میں آکر اُن سے ملیں اور وہ اس معاملے کو دیکھیں گے لیکن تاحال اس معاملے پر کچھ نہیں ہوا اور آج بنگلہ امین پورہ میں کچی بستی کو گرائے جانے کا عمل شروع ہوچُکا ہے –
راجن پور سے پی پی پی کی رکن صوبائی اسمبلی شازیہ عابد نے اسپیکر صوبائی اسمبلی کے توسط سے ڈی جی اریگیشن زاہد زمان کو یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی کہ اُن کے حلقے سے تین کم عمر بچے ڈی لنک کینال 3 میں ڈوب گئے ہیں، پانی کے تیز بہاؤ کے سبب اُن کی لاشیں اب تک دریافت نہیں ہوسکیں، اُس نہر کو کچھ دیر کے لیے بند کیا جائے تاکہ لاشیں تلاش کرسکیں اور اُن بچوں کی ماؤں کو کچھ تو تسلی ہو- تین دن سے اُن کی بات کوئی نہیں سُن رہا-
لاہور میں صحافیوں کی کالونی کے ایف بلاک پر ناجائز لوگ قابض ہوگئے اور ایف آئی آر تک درج نہیں ہورہی – یہ چرچا بھی صوبائی اسمبلی پنجاب کے اجلاس میں ہوا-
میرے ذہن میں سوال یہ پیدا ہوا کہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومت کو آخر کچی آبادیاں گراکر، غریب لوگوں کے گھروں کو مسمار کرکے کیا فائدہ ہوگا؟ اور یہ جو پنجاب کا محکمہ مال ہے اس میں جو افسران بالا ہیں، اُن کے آنکھوں پر کون سی عینک چڑھی ہوئی ہے جو اُن کو طاقتور قبضہ گروپوں کی بدمعاشی سے سرکاری زمینوں پر قبضوں کو دیکھنے سے محروم رکھتی ہے اور دو دو، تین تین مرلوں کے کچے گھروں کو مسمار کرنے کے لیے عقابی نظر فراہم کردیتی ہے-
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جاری اجلاس میں ڈپٹی کمشنر چینوٹ سے وڈیو لنک سے رابطہ کیا جاتا اور پوچھا جاتا کہ وہ کیا واقعی 200 کچے گھروں کو گرانے جارہا ہے؟
ڈی جی اری گیشن سے فوری طور پر ڈی جی خان لنک کینال تھری کو بند کرنے کو کہا جاتا اور تین دن کی تاخیر پر انکوائری بٹھائی جاتی اور زمہ داران کو سزا دی جاتی – تب پنجاب اسمبلی کے بارے میں عوام کے اندر یہ پیغام جاتا کہ یہ واقعی عوام کے ووٹوں سے منتخب طاقتور اسمبلی ہے –
چٹ چیٹ کرنے اور عوامی مسائل کو حل نہ کرنے والی اسمبلی سے عوام کو کیا ہمدردی ہوسکتی ہے؟
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا اپنا ضلع ہے راجن پور اگر وہاں نہر میں ڈوب جانے والے بچوں کی ماؤں کی فریاد کوئی نہ سُنے اور اس علاقے کی ایک خاتون ایم پی اے کی ڈی جی اری گیشن و کینالز تک رسائی نہ ہو تو پھر عوام کی کون سنے گا؟
میرے اپنے شہر خانیوال میں 47 کینال سرکاری رقبہ عین شہر کے وسط میں فضل پارک کے عین سامنے سیوریج کے گندے پانی سے تالاب بنا ہوا ہے جبکہ یہ سرکاری رقبہ اور کچھ نہیں تو گرین بیلٹ میں بدلا جاسکتا ہے- میونسپل کمیٹی کے سی ای او سے لیکر ڈپٹی کمشنر تک اور اُس سے آگے وزیراعلٰی کی معائنہ ٹیم کے انچارج اور پھر وزیراعظم کے پرنسپل اسٹاف سیکرٹری و وزیر اعظم پورٹل فار سیٹیزن تک سب جگہ درخواستیں دی ہیں لیکن کچھ بھی نہیں ہوا سوائے عارضی کاروائیوں کے- یہ ہوتی ہے گُڈ گورننس؟ وزیراعظم عمران خان اور پنجاب میں اُن کے وزیراعلٰی اور وزراء اپنے محکموں کے سیکرٹریوں اور نیچے ضلعی ایڈمنسٹریشن کو عوام کے مسائل حل کرنے کو یقینی بنوانے میں اگر ناکام نظر آئیں گے تو اپوزیشن رہنماؤں کو یہ کہنے کا موقعہ ملے گا کہ حکومت سے بیوروکریسی کنٹرول نہیں ہورہی اور وہ نوکر شاہی کے عوام دشمن اقدامات کو روکنے میں ناکام ہے-
اسی طرح نیوسبزی منڈی روڈ خانیوال کے اردگرد رہائشی ایریا میں سرکار کی گرین بیلٹ پر ناجائز اور غیرقانونی اڈے بنے ہوئے ہیں- ڈی سی خانیوال کہتے ہیں کہ سیکرٹری آر ٹی کو اُن کو متبادل جگہ پر منتقل کرنے کا فوری حکم دیا ہے لیکن اڈے اپنی جگہ قائم ہیں…. اس پوری سڑک کے ایک طرف بڑی چوڑی بیلٹ ہے جہاں شجرکاری کی جاسکتی ہے، ماحول بہتر بنایا جاسکتا ہے- ایڈمنسٹریشن کو کہا بھی گیا ہے لیکن کسی مجاز افسر کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی – علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے اپنی بے اختیاری کا رونا روتے نہیں تھکتے-عوام کس کے پاس جاکر اپنا رونا روئیں؟
مہنگائی سے تنگ عوام کے کچے گھر گرائے جائیں اور سرکاری قمیتی رقبے سیوریج کے پانی سے تالاب بنکر ساتھ کے محلوں کے مکانات کی بنیادیں ہلانے لگیں اور مکان گرنے کا خطرہ پیدا ہوجائے تو پنجاب کی عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگی کہ تبدیلی سرکار نئے گھر تو کیا دے گی پہلے سے بنی جھونپڑیاں اور کچے مکان بھی گرانے پر تلی بیٹھی ہے –
پڑوس کے ہندوستان میں دہلی صوبے کی عام آدمی پارٹی کی سرکار دہلی کی سینکڑوں غیرقانونی کچی آبادیوں میں سڑکیں بنارہی ہے، گلیاں پکی کررہی ہے، کلینک بنائے جارہے ہیں، بجلی فراہم کررہی ہے اور وفاقی سرکار اُن کو مالکانہ حقوق دینے کی بات کررہی ہے جبکہ پورے دہلی میں ہر گھر کو 200 یونٹ فری بجلی اور 30 ہزار گیلن پانی سرکاری نل سے فراہم کیا جارہا ہے- عورتوں کو بسوں میں مفت سفر کی سہولت ہے جو اب دوسرے شہریوں تک بھی وسیع کی جارہی ہے- لیکن ہماری سرکار چاہے وہ وفاق کی ہو یا صوبوں کی یا ضلعوں کی وہ کچی آبادیوں کو گرانے میں لگی ہوئی ہے-
نوکر شاہی بنا سفارش اور بنا رشوت کے کوئی کام نہیں کرتی – کھلی کہچریاں، گرین پنجاب مہم، صفائی مہم اور ترقیاتی کاموں میں شفافیت کی مہم پنجاب میں بدترین ناکامی سے دوچار ہیں-
وزیراعظم پاکستان اور اُن کے اوپننگ بیٹسمین عثمان بزدار کوپنجاب کی عوام میں بڑھتے ہوئے غصے اور بے گانہ پن کا جلد از جلد ادراک کرنا ہوگا-
اپوزیشن مارچ میں فیصلہ کُن احتجاجی تحریک چلانا چاہتی ہے اور اسی سلسلے میں پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری لاہور ڈیرے لگائے ہوئے ہیں جبکہ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ نواز شریف مارچ میں واپس آکر تبدیلی سرکار کے خلاف جدوجہد دوبارہ شروع کریں گے-
عوام نوکر شاہی کی من مانیوں سے بہت تنگ ہے اور اُسے ہر جگہ دھکے کھانے پڑتے ہیں اور پنجاب میں حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ہی نوکر شاہی کو عوام کا خادم بنانا ہے-
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ