خصوصی رپورٹ قیوم بلوچ
معاشرے میں کسی بھی وسیب کی پہچان اس میں بولی جانے والی زبان سے ہی کی جاتی ہے کرہ ارض پر بسنے والے اربوں لوگوں کی تہذیب و تمدن بالکل جدا ہیں اور سیکنڑوں ثقافتیں بکھری پڑی ہیں ہر علاقے میں اور قوم کی تقریباً اپنی اپنی زبان اور اپنا اپنا رہن سہن ہے
برصغیر کے جنوبی اضلاع جو کہ اب پاکستان کے صوبہ پنجاب آور خیبرپختونخواہ کا حصہ ہیں اس میں ایک بہت خوبصورت اور مٹھڑی زبان سرائیکی بولی جاتی ہے ہندکو پنجابی ہندی سنسکرت کے الفاظ کو بھی خود میں سمو لینے والی اس خوبصورت زبان کو اولیاء کی زبان ہی کہا جاتا ہے
اسی طرح خیبرپختونخواہ کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ بھی یہی زبان استعمال کرتے ہیں ڈیرہ پہلاں دا سہرہ کہلائے جانے والے ضلع کی مٹی نے ادبی طور پر بہت زرخیز ہے اور اس نے ادب کے کئی کئی بڑے نام پیدا کئے ہیں جن میں سئیں نصیر سرمد سائروی(مرحوم)عبداللہ یزدانی جاوید بچاری شیخ امیر محمد مجروح جیسے نام شامل ہیں ڈیرہ اسماعیل خان کی جنوبی تحصیل پروآ کے تقریباً 100 فیصد لوگ سرائیکی بولتے اور سمجھتے ہیں اس سرکل میں ادب کے کئی نام آتے ہیں جن میں سئیں مظہر علی تابش ثاقب دامانی رفیق ساگر غلام فرید نفیس راقش بھٹی صفدر علی صفدر کفایت اللہ عاکف جیسے لوگ سر گرداں ہیں اور سرائیکی کی ترویج و ترقی کیلئے دن رات کوشاں ہیں اس سلسلہ میں
15 فروری کی رات گاؤں نائیویلہ میں ایک ادبی شام منائی گئی اور اسکو ادب کے باوقار نام سید مظہر علی تابؔش کے نام سے منسوب کیا گیا۔
اس ادبی شام میں کئی مقامی شعراء کرام جن میں صاحب شام سید مظہر علی تابؔش عصمت اللہ گورمانی شانی خان دامانی پرویز منیر کو لنگی پہنائی گئی
اس میں شانی خان دامانی کی کتاب 📕نماشاں کی تقریب کی رونمائی کی گئی سید مظہر علی تابش نے ملالہ پیش کرتے ہوئے تعریفی کلمات میں کہا کہ شانی خان دامانی دکھ درد سمجھنے والا شاعر ہے اور ادبی دنیاں کا چمکتا ستارہ ہے
دوسرے شعراء کرام میں عصمت اللہ گورمانی پرویز منیر ثاقب دامانی خادم نہالوی اللہ نواز قریشی رفیق ساگر صفدر علی صفدر بیقصور خان حکیم راقش بھٹی قیوم نواز بلوچ جاوید بلوچ کلیم عثمانی نے اپنے اپنے کلام سے عوام کو محظوظ کیا شانی خان دامانی نے
٫کانواں دا تاں ایویں خالی نا بدنام ہے
ملخ تباہ سارے گیرے کیتی ودے ہن،
غزل پڑھ کر خوب داد سمیٹی اسی طرح عصمت گورمانی نے بھی معاشرے کی عکاسی کرتے ہوئے نظمیں سنائیں عوام نے اٹھ کر داد دی
اسٹین سیکٹری کے کفایت عاکف نے مہر سرائیکی ادبی سنگت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہماری یہ ادبی سنگت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہماری یہ ادبی تنظیم 1999ء سے کام کر رہی اور میرے ادب کے یہ ستارے اپنی اپنی زمہ داریاں نبھا رہے ہیں اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے کئی کتابیں بھی منظرعام پر آئی ہیں
اس یاد گار محفل میں سبق آموز سنجیدہ شاعری کے ساتھ ساتھ تنزومزاح سے بھرپور شاعری بھی سنائی گئی اور سامعین کو محظوظ کیا گیا جن میں گیت غزل دوہڑہ قطعہ ماھیا کافی نظم سانٹ جیسی مختلف صنفیں پڑھنے والے شعراء نے محفل میں موجود سامعین کے دل جیت لئے آخر میں صدر بزم نے اپنے اظہار خیال میں کہا کہ ایسی محفلیں اور ایسی بیٹھکیں ہی ہیں جنہوں نے آج بھی ہماری تہذیب کو برقرار رکھا ہوا ہے اگر ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو اپنی تہذیب و تمدن سے منسلک رکھنا ہے تو پھر ایسی محفلیں ناگزیر ہیں
آخر میں اپنی پہچان سرائیکستان کے نعرے کے ساتھ اَن مِٹ یادیں چھوڑتے ہوئے یہ شام اختتام پزیر ہو گئی
جڈاں عشق فرید استاد تھیا ،
سبھ علم عمل برباد تھیا،
پر دل حضرت آباد تھیا،
سو وجد کنوں لکھ حال کنوں،
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
ڈیلی سویل ٻیٹھک: سندھ ساگر نال ہمیشاں.. ݙوجھادرشن