نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آﺅ الزام الزام کھیلیں ۔۔۔ حیدر جاوید سید

پیپلز پارٹی کےخلاف ہی 1970ءکے انتخابات سے قبل ایک فتوی آیا ”پی پی پی کو ووٹ دینا خلاف اسلام ہے جو ووٹ دے گا نکاح فسخ ہوجائیں گے“۔

بھٹو صاحب ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے‘ انہوں نے ملک توڑا‘ بےنظیر بھٹو سیکورٹی رسک تھیں۔ اعتزاز احسن نے بھارت کو آزادی پسند سکھوں کی لسٹ فراہم کی۔ بھٹو بھارت کی شہریت کے خواہش مند تھے، نہ ملنے پر مجبوراً پاکستان کی شہریت لی‘ زرداری مسٹر ٹن پرسنٹ تھے‘ پھر مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ ہوئے۔ بھٹو بنگالیوں کو گالیاں دیتے تھے، بےنظیر بھٹو اکھنڈ بھارت کی حامی تھیں، یہ اور ان جیسے بہت سارے الزامات پچھلی چار پانچ دہائیوں سے پاکستانی سیاست کی پنجاب برانچ کا رزق ہیں۔
کونسی جماعت ہے جس نے سیاست کے شکم میں اس طرح کے الزامات ڈال کر شکم سیری نہیں کی۔ بھٹو کےخلاف بننے والے قومی اتحاد میں شامل جماعتوں نے انتخابی مہم اور پھر بھٹو مخالف تحریک جسے لوگوں کے جذبات بھڑکانے کےلئے ”تحریک نظام مصطفی“ کا نام دیا گیا کے دوران وہ کونسا الزام تھا جو بھٹو اور پیپلز پارٹی پر عائد نہیں کیا۔

پیپلز پارٹی کےخلاف ہی 1970ءکے انتخابات سے قبل ایک فتوی آیا
”پی پی پی کو ووٹ دینا خلاف اسلام ہے جو ووٹ دے گا نکاح فسخ ہوجائیں گے“۔
ووٹروں کی اکثریت نے فتویٰ اُڑا کے رکھ دیا۔ ہم نے نیا حساب لگایا‘ پیپلز پارٹی کو مجموعی طور پر 35فیصد ووٹ پڑے ہیں، مخالفوں اور ووٹ نہ ڈالنے والوں کی تعداد 65فیصد ہے، بھٹو اقلیت کے نمائندے ہیں۔
1970ءکی دہائی کے اسلام پسند اخبارات وجرائد نکال لیجئے، ان سے سوا بھی بہت کچھ ملے گا۔
1988 اور پھر 1990 کی سیاست کا رزق بھی یہی الزامات رہے‘ 1988ءکے انتخابات کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد کے میڈیا سیل (اس سیل کے سربراہ حسین حقانی تھے اور ارکان میں ایسے ایسے اسلام پسند نابغہ روزگار کہ بندہ حیران ہو جاتا ہے) نے بیگم نصرت بھٹو اور بےنظیر بھٹو کی بے ہودہ تصاویر تک تقسیم کروائیں۔
بےنظیر بھٹو کو کیا کیا نہیں کہا اور کیسے کیسے الزامات نہیں لگے۔
دور جانے اور پرانے الزامات کا قصہ تازہ کرنے کی بجائے آپ نقیب اللہ محسود کے قتل کے فوراً بعد اُڑتی اُڑاتی کہانیوں کو لے لیجئے بھٹو کی ایک نواسی کو ویسے ہی الزامات سے دوچار ہونا پڑا جیسے اس کی نانی اور والدہ پر لگے تھے۔

کہتے ہیں بھٹو مخالفین کےخلاف بدزبانی کرتے تھے۔
ایک بات میں تین بار پیپلز پارٹی اور بھٹو کو گالی دینے والے بھی بذلہ سنجی کو گالی قرار دیتے ہیں۔
ہم اصل میں چاہتے ہیں کہ ہماری گالی اور دوسرے کے طنز کو ایک پلڑے میں رکھا جائے۔
تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کے دور میں وفاقی وزارت اطلاعات میں ایک اعلیٰ افسرکی نگرانی میں خصوصی سیل قائم تھا، اس سیل کی ذمہ داری صرف اور صرف بھٹو مخالف توہین آمیز کہانیاں گھڑنا تھی۔
کیسے کیسے کوفی وشامی وزیر آبادی اور جالندھری و دھاری اس سیل کو پروپیگنڈے کےلئے تحریریں فراہم کرتے تھے اور حق خدمت پاتے تھے۔
کسی دن کسی تحریر نویس نے صرف اس مارشل لائی سیل بارے تحقیق کے ڈول ڈالے تو دو تین جلد یں مرتب ہو ہی جائیں گی۔
زرداری پر الزام ہے کہ ججز بحالی کے معاہدے سے پیچھے ہٹے۔
مگر اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ میثاق جمہوریت میں طے ہوگیا تھا کہ پی سی او ججز کو عدلیہ کا حصہ نہیں بنایا جائے گا تو پھر نواز شریف و ہمنواﺅں نے افتخار چودھری اینڈ کمپنی کے پلڑے میں اپنا وزن کیوں ڈالا۔
کیا چودھری اینڈ کمپنی نے مشرف کے پی سی او کے تحت حلف نہیں لیا تھا؟
یہاں اس امر کا اعتراف کیوں نہیں کیاجاتا کہ افتخار چودھری وغیرہ پر نوازشات کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے شریف خاندان کو ریلیف دیا اس ریلیف کے سیاسی ومالی فائدوں کی تفصیل بڑی طویل ہے۔
مگر کیا اس ریلیف کی بدولت آگے چل کر شریف خاندان نے نیشنل بنک سے مالی معاملات کچھ اس طرح طے نہیں کئے کہ ساڑھے آٹھ ارب روپے کا معاملہ تین ارب میں طے ہوا اور این او سی جاری ہوگیا۔
زرداری پر ملک معراج خالد کی نگران حکومت اس سے قبل اور بعد میں جتنے کرپشن کے مقدمات بنے کیا ان کے حوالے سے نواز شریف کا یہ اعتراف ریکارڈ پر نہیں کہ
”ہماری حکومت کو مجبور کیا اداروں نے کہ ہم مقدمات بنائیں“۔
میثاق جمہوریت اس وقت کہاں تھا جب میاں نواز شریف
کالا کوٹ پہن کر میمو گیٹ سکینڈل میں سپریم کورٹ گئے تھے؟۔
کہتے ہیں وفاق نے پنجاب حکومت برطرف کی (سلمان تاثیر والے گورنر راج کی کہانی) چلیں کسی دن‘ میاں نواز شریف حلف دےدیں کہ یہ معاملہ ان کی درخواست پر نہیں ہوا تھا۔

آپ حیران ہو رہے ہوں گے یہ کیا موضوع ہے اور اس کی ضرورت کیا ہے۔
میں عرض کرتا ہوں پاکستانی سیاست اور صحافت کی پنجابی برانچ پچھلے کچھ عرصے سے پھر پرانے الزامات کی جگالی میں مصروف ہے۔
کسی دن کسی نے پلٹ کر کچھ کہہ دیا تو روتے پھریں گے۔

بھٹو ایوب کو ڈیڈی کہتے تھے۔ یہ الزام جماعت اسلامی کے حامی جریدوں نے 1970ءکی دہائی میں پھیلایا۔ گوہر ایوب تو خود ایک موقع پر تسلیم کرچکے کہ
”میں نے یہ بات غصے میں کہی تھی“۔
عجیب بات یہ ہے کہ ان بے ہودہ الزامات سے متاثر ہونے والی پیپلز پارٹی جواب دعویٰ نہیں کرتی۔
مجھے یاد ہے کہ محترمہ بےنظیر بھٹو کی شہادت سے قبل ان سے ہوئی آخری ملاقات میں یہ دریافت کیاگیا تھا کہ جن لوگوں نے آپ کی کردارکشی کی، جھوٹے مقدمات بنائے آپ ان کےلئے سیاسی سہولتیں فراہم کرنے کا مطالبہ کیوں کرتی ہیں؟۔
اسلام آباد کے زرداری ہاﺅس وسیع ڈرائنگ روم کے صوفے پر بیٹھی بےنظیر بھٹو کا جواب تھا
”اگر کوئی پرانی باتوں پر معافی مانگ لے تو ان باتوں کو بھول کر آگے بڑھنا چاہئے۔ کچھ لوگ اور ادارے یہ چاہتے ہیں کہ سیاستدان ماضی سے باہر نہ نکلیں تاکہ عوام کو حق حکمرانی نہ مل سکے۔ میں گالی دینے، الزام تراشی اور مقدمات بنانے والوں کو معاف کرکے آگے بڑھنے پر یقین رکھتی ہوں۔“
معاف کرکے آگے بڑھنے والوں کی جمہوریت پرستی ہی پاکستانی سیاست کا اصل چہرہ ہے۔
بھٹو ایوب کے دور میں وزیر رہے بلکہ وہ سکندر مرزا کے دور میں بھی وزیر تھے لیکن کیا سیاسی عمل اور جمہوریت کےلئے بھٹو نے جو کیا وہ نظرانداز کردیا جائے۔
پاکستان بھٹو نے توڑا تھا تو جھوٹا قتل کا مقدمہ چلانے کی بجائے جنرل ضیاءالحق نے ان کےخلاف غداری کا مقدمہ کیوں نہ چلوایا؟۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ اور ادارے آج بھی یہی چاہتے ہیں سیاست ماضی کے ماحول سے باہر نہ نکلے، الزام الزام کھیلتے رہیں
تاکہ اصل مسائل پر بات نہ ہوسکے۔
سیاست وصحافت کے پنجابی ایڈیشن کو ماضی سے نکل کر آگے بڑھنا ہوگا۔
جواب دعویٰ پیش ہوا تو نقصان جمہوریت کا ہی ہوگا اسلئے ضروری ہے کہ سیاسی عمل کو آگے بڑھانے پر توجہ دی جائے۔

جمعرات 27 فروری 2020ء
روزنامہ مشرق پشاور

About The Author