عمومی تاثر یہی ہے کہ مذہبی انتہا پسندی نے عدم برداشت کی اس صورتحال سے جنم لیا جس میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ کم اور بالادستی کا جنون زیادہ ہے۔
پاکستان کے حوالے سے اگر اس شدت پسندی کا جائزہ لیں تو ایک رائے یہ بھی ہے کہ مذہبی اختلافات کی خلیج، ایرانی انقلاب کے بعد گہری ہوئی۔
دوسری رائے جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کی بعض پالیسیوں کے حوالے سے ہے۔
پہلی رائے کے حاملین کہتے ہیں ایران میں انقلاب کے بعد ہمسایہ ملکوں میں اس انقلاب کے حامیوں کا رویہ بالکل ویسا تھا جیسا کبھی سوویت انقلاب کے حامیوں کا ہوتا تھا ”یعنی انقلاب آیا ہی آیا”
دوسری رائے کے حامی کہتے ہیں کہ
جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی اور بعض دوسرے اقدامات نے شدت پسندی کے دروازے کھولے، اصولی طور پر دونوں آراء درست نہیں۔
فرقہ وارانہ شدت پسندی یا اس کی کوکھ سے جنم لینے والے پرتشدد واقعات کو مجموعی مذہبی شدت پسندی سے نہیں جوڑا جاسکتا۔
فرقہ وارانہ شدت پسندی تو جنرل ضیاء الحق سے قبل بھی موجود تھی البتہ اسے اُس وقت کی فوجی حکومت نے اپنے مقاصد کیلئے بڑھاوا دیا اور پھر یہ تاثر بھی پیدا کیا گیا کہ ایران کے شیعہ انقلاب کا جواب دوسری فکر کے ویسے ہی انقلاب میں ممکن ہے۔
اس تاثر کے پختہ ہونے میں افغانستان میں جہاد کے نام پر لڑی گئی جنگ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔
اس جنگ یا جہاد کیلئے پاکستان میں ایک ( دیوبندی ) مکتب فکر نے نہ صرف اس وقت کی حکومت کی جہادی پالیسی کی کھل کر تائید کی بلکہ عملی طور پر اس میں بھرپور شرکت بھی کی۔
ہمارے یہاں مذہبی شدت پسندی کو اس فرقہ وارانہ کشمکش کے تناظر وتاریخ میں دیکھنے سمجھنے اور پیش کرنے پر ہی داد وتحسین ہی ہوئی۔
حقیقت اس سے مختلف ہے،مسلم سماج کے حوالے سے جس مذہبی شدت پسندی کی بات کی جاتی ہے یا عمومی طور پر دنیا میں اس حوالے سے جو تاثر موجود ہے وہ خدا کی حکومت کا وہ تصور ہے جو پچھلی ایک صدی کے دوران مسلم سماجوں میں اُبھر کر سامنے آیا۔
برصغیر میں اس حوالے سے پہلی آواز وجدوجہد سید احمد شہید کی تحریک کو قرار دیا جاتا ہے۔
یوں یہ سوال بہت اہم ہے کہ
کیا سیاست اسلامی نظام ہائے اسلام کا نفاذ یعنی خدا کی حکومت خدا کیلئے جسے عمومی طور پر ”حکومت الٰہیہ” کے تصور کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، سے مذہبی شدت پسندی نے جنم لیا؟۔
یہ سوال بہت اہم ہے لیکن ہمارے یہاں اس پر بہت زیادہ کام نہیں ہوا، جو تحقیقی کام ہوا بھی اس میں بس فرقہ وارانہ کشمکش کاپہلو نمایاں ہے۔
اب حال ہی میں کراچی میں مقیم نوجوان سکالر شمس الدین حسن شگری کی
"مذہبی انتہا پسندی”
/ اسلامی انقلاب وحکومت اور جوابی بیانیہ/
کے نام سے تحقیقی تصنیف سامنے آئی ہے۔ جدید وقدیم علوم سے بہرہ مند نوجوان سکالر کی یہ تصنیف اپنی نوعیت کی اولین تصنیف ہے
۔ انہوں نے تحقیق پسندوں کی آگاہی کیلئے اہم ترین کام یہ کیا کہ دو بڑے مسلم مکاتب فکر سنی و شیعہ کے ہاں موجود تصور حکومت الٰہیہ کے پس منظر اور دستیاب اساس کیساتھ بنیاد تلاش کرنے کی زحمت تمام بھی کی،
ورنہ ہمارے یہاں عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اموی و عباسی، فاطمی اور عثمانی خلافتوں کا وجود اور دور مسلم فکر کی حامل حکومت الٰہیہ کے ادوار ہیں۔
حالانکہ ایسا ہے نہیں، اموی، عباسی اور عثمانی خلافتیں تین خاندانوں کے ادوار اقتدار ہیں،
اسی طرح مصر کی فاطمی خلافت جوابی بیانیہ کا ایک ایسا نظام جو خود بھی ایک خاندان کے اقتدار کا چہرہ اور تفسیر ہے۔
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ان چار خاندانی حکومتوں کو جو نظام ہائے خلافت کے نام پر صدیوں کا سفر طے کر کے تمام ہوئیں حکومت الٰہیہ کے طور پر پیش کرنا کسی بھی طور درست نہیں۔
ثانیاً یہ کہ اس تصور کو کبھی پذیرائی نہیں ملی کہ ”خلیفہ مامور منن اللہ ہے”۔
دستیاب اسلامی سیاست سے عبارت مسلم فہموں میں برصغیر میں حکومت الٰہیہ کا تصور مولانا سید مودودی نے پیش کیا۔
اہل تشیع کے ہاں چونکہ عقیدہ امامت مامور منن اللہ کی فہم سے عبارت ہے وہاں بھی ماسوائے امام علیؑ کے پونے پانچ سالہ دوراقتدار اور امام حسنؑ کے چھ سے آٹھ ماہ کے دور کے علاوہ تیسری مثال موجود نہیں۔
ان دو حوالوں سے بھی یہ بحث موجود ہے کہ کیا یہ ادوار نظام ہائے مملکت کا تسلسل تھے یا ولایت فقیہ کے اس تصور اور نظام کی ابتدا جو آج ایران میں موجود وقائم ہے جس نے جناب سید روح اللہ موسوی امام خمینی کے انقلاب سے رزق پایا؟۔
شمس الدین شگری نے ہر دو مکاتب فکر کے ہاں حکومت الٰہی کے تصور کے آغاز اور اس کے مسلم دنیا کے شرق وغرب پر اثرات پرتفصیل سے بات کی ہے۔
ان کے خیال میں سید مودودی کے تصور اسلامی حکومت کو "سید قطب اور امام خمینی نے قبول کیا اور دونوں نے اسے آگے بڑھایا۔
ایران کے مخصوص حالات اور سماج کی بدولت امام خمینی ایک اسلامی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے انقلاب کے بعد وہاں نظام ولایت فقیہ کی ترویج کی”۔
سید مودودی اور سید قطب شہید کو تحریکی کام کرنے کے مواقع تو ملے مگر وہ کہیں اپنے تصورحکومت الٰہیہ کے مطابق نظام قائم نہ کر پائے۔
اسلامی سیاست یا نظام ہائے اسلام کا قیام کے نظریات، ان کے اثرات اور پیدا شدہ مسائل کو الگ الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔
یہ سوال بذات خود اہم ہے کہ اگر اسلامی نظام قائم ہوتا ہے تو اس کا فقہی چہرہ کیا ہوگا؟۔
کیا ایک مکتب فکر کی اسلامی حکومت اپنی جغرافیائی حدود میں موجود دوسرے مسلم مکاتب فکر کو برداشت کر پائے گی؟
محض برداشت ہی نہیں انہیں ان کی تفہیم کے مطابق زندگی بسر کرنے دے گی۔
پھر کیا ہم یہ تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں کہ پچھلے چالیس چوالیس برسوں میں اسلامی حکومت یا حکومتوں کے قیام کیلئے مسلم سماجوں کے اندر سے جو انتہاپسند عسکری تنظیمیں اُبھر کر سامنے آئیں اور انہوں نے جو اثرات مرتب کئے ان تنظیموں نے فکری غذا سیاست اسلامی، اسلامی حکومت اور خالص حکومت الٰہیہ کے تصور سے حاصل کی ہے؟
یہ اور اس طرح کے دوسرے بہت سارے اہم سوالات ہیں جنہیں شمس الدین شگری نے نظرانداز نہیں کیا بلکہ ان پر تفصیل کیساتھ بحث کی ہے۔
البتہ یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ کوئی بھی مذہبی یا فقہی (خاص عقیدہ کی) حکومت مساوات کا ایسا نظام قائم نہیں کر سکتی جو سیکولر جمہوریت پر مبنی نظام سے ہی ممکن ہے۔
شمس الدین شگری صاحب کا جوابی بیانیہ ایک اچھی اور علمی کاوش ہے،
تحقیق کا سلسلہ کسی ایک کتاب پر تمام نہیں ہوجاتا مگر یہ اُمیدافزا بات ہے کہ اب نوجوان سکالر ان سوالوں کا جواب حاصل کرنے کیلئے تحقیق کا راستہ اختیار کرر ہے ہیں جو سوال ہی کفر سمجھے جاتے تھے۔
ہم سے طلباء کو یہ اُمید ہے کہ آنے والے برسوں میں کچھ اور تحقیق پسند نئے سوالوں اور تحقیق کیساتھ سامنے آئیں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ