نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

14فروری2020:آج جموں اینڈ کشمیرمیں کیا ہوا؟

جموں اینڈ کشمیر سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر: پونچھ میں خفیہ پناہ گاہ تباہ

جموں و کشمیر پولیس اور راشٹریہ رائفلز نے ضلع پونچھ کے کنائیان علاقے میں ایک پرانی خفیہ پناہ گاہ سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا ہے۔

پونچھ کے ایس ایس پی رمیش انگلرل نے کہا کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) پونچھ منیش شرما کی سربراہی میں فوج کے راشٹریہ رائفلز نے ایس او جی نے کنئیان جنگلات کے علاقے میں مشترکہ سرچ آپریشن شروع کیا تھا۔
پلوامہ حملے کا ایک سال مکمل’

14 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ہونے والے خودکش حملے میں 40 سے زیادہ بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

یہ حملہ پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری نوجوان عادل احمد ڈار نے انجام دیا تھا۔ گذشتہ کئی دہائیوں میں سیکورٹی فورسز کے خلاف ہونے والا یہ شدید ترین حملہ تھا۔
دیویندر سنگھ معاملے میں ایک اور گرفتاری

بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے دیویندر سنگھ معاملے میں تنویر احمد باردا نامی ایک شخص کو گرفتار کیا ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر پولیس کے معطل افسر دیویندر سنگھ کو11 جنوری کے روز عسکریت پسندوں سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔


پنچایت الیکشنز میں حصہ نہیں لیں گے

سرینگر

ممبر پارلیمنٹ اننت ناگ نے تین سابق وزرائے اعلیٰ کی نظر بندی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی خاطر سبھی لیڈران کی رہائی ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہاکہ

جموں وکشمیر میں امن و امان کے قیام کی خاطر تین سابق وزرائے اعلیٰ کی نظر بندی ختم کرنا ضروری بن گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ غیر ملکی سفارتکاروں کا کشمیر دورہ اُس وقت تک بے سود ہے جب تک نہ یہاں کی لیڈر شپ کو سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔

ممبر پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ لیڈران کی نظر بندی ختم کرنے تک پنچایتی انتخابات میں حصہ لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ممبر پارلیمنٹ اننت ناگ حسنین مسعودی نے ڈا ک بنگلہ میں کارکنوں سے میٹنگ کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران کہاکہ

تین سابق وزرائے اعلیٰ کی نظر بندی ختم کرنے سے ہی جموں وکشمیر میں بے چینی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ جمہوریت میں ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے لہذا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے لیڈران کی رہائی ناگزیر ہے۔

ممبر پارلیمنٹ کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل کانفرنس نے جمہوریت کی بقاءکی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ تین سابق وزرائے اعلیٰ کی نظر بندی تک وادی کشمیر میں حالات معمول پر نہیں آسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ

حکومت کو سبھی سیاسی پارٹیوں کو سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے تاکہ جموںوکشمیر میں جمہوریت کے ستون کو مضبوط کیا جاسکے۔ ممبر پارلیمنٹ کا مزید کہنا تھا کہ وادی کشمیر کے لوگ امن چاہتے ہیں

لہذا حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت سبھی نظر بند لیڈران کی رہائی عمل میں لائے۔ غیر ملکی سفارتکاروں کے کشمیر دورے کو لاحاصل قرار دیتے ہوئے ممبر پارلیمنٹ نے کہاکہ جب تک نہ لیڈر شپ کو سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی

تب تک اس طرح کے دوروں سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ انہوںنے کہا کہ مین اسٹریم پارٹیوں کو سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دیدی جانی چاہئے تاکہ وادی کشمیر میں پھر سے امن واپس لوٹ آسکے۔

تیسرے فرنٹ کے قیام پر حسنین مسعودی نے کہاکہ اس طرح کے اقدام سے زمینی سطح پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ انہوںنے کہاکہ تیسرے فرنٹ میں ایسے افراد شامل ہیں جو ماضی میں سیاسی پارٹیوں کا حصہ رہے ہیں۔

حسنین مسعودی کا مزید کہنا تھا کہ انتظامیہ نے ضمنی پنچایتی انتخابات کا اعلان کیا تاہم نیشنل کانفرنس یہ واضح کرنا چاہتی ہیں کہ لیڈران کی نظر بندی ختم ہونے تک این سی کسی بھی الیکشن عمل کا حصہ نہیں بنے گی۔ انہوںنے کہا کہ سبھی لیڈران اور کارکنان کی رہائی کے بعد ہی آئندہ کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کے اونتی پورہ علاقے میں عسکریت پسندوں کے ایک معاون کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ضلع پولیس نے اونتی پورہ علاقے میں توصیف احمد بٹ نامی ایک شخص کو گرفتار کیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ توصیف احمد، انڈر گراؤند ورکر تھے اور عسکری تنظیم جیش محمد سے وابستہ تھے۔ پولیس نے کیس درج کرکے تحقیقات شروع کر دی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ضلع بڈگام میں عسکریت پسندوں کے پانچ معاون کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ بڈگام پولیس نے عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ کو تباہ کیا ہے اور پناہ گاہ سے بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد کیا ہے۔

گرفتار شدگان کی شناخت شہنواز احمد وانی، ناصح احمد وانی، بلال احمد خان، عرفان احمد پٹھان اور علی محمد بٹ کے طور پر ہوئی تھی۔
مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کے نائیرا ٹہاب علاقے میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے تلاشی مہم جاری ہے۔

گذشتہ برس پلوامہ میں ہونے والے خودکش حملے کی آج پہلی برسی ہے جس میں 40 سے زائد فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

فوج، سی آر پی ایف اور مقامی پولیس کی مشترکہ ٹیم نے نائیرا ٹہاب علاقے کو محاصرے میں لیا اور تلاشی مہم شروع کی۔علاقے میں مزید فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا اور تمام راستوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس 14 فروری کو اس خودکش حملے میں 40 سے زیادہ بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ یہ حملہ پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری نوجوان عادل احمد ڈار نے سرانجام دیا تھا۔ گذشتہ کئی دہائیوں میں سکیورٹی فورسز کے خلاف ہونے والا یہ شدید ترین حملہ تھا۔

آخری خبریں انے تک علاقے میں تلاشی مہم جاری ہے۔
سوشل میڈیا پر حساس پوسٹ کرنے کی پادائش میں پونچھ پولیس نے ایک شخص کو حراست میں لے لیا ہے۔
پولیس کے مطابق امن و امان کو درہم برہم کرنے کی پادائش میں مذکورہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔  سوشل میڈیا پر پابندی کے دوران سرنکوٹ پونچھ میں شوکت علی نامی ایک نوجوان نے حساس نوعیت کا مواد اپ لوڈ کیا ۔

معلوم ہواہے کہ پورے ضلع میں یہ پوسٹ وائرل ہونے کے ساتھ ہی پولیس نے معاملے کی نسبت کیس درج کرکے تحقیقات شروع کی۔ پولیس بیان کے مطابق مذکورہ شخص پر نظر گزر رکھی جارہی تھی اور لگاتار وہ حساس نوعیت کے پوسٹ شیئر کرتا تھا جس وجہ سے ضلع میں حالات درہم برہم ہونے کا خدشہ تھا۔

ایس ایس پی پونچھ نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر لوگوں کو اُکسانے والوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہاکہ جو کوئی بھی امن و امان کو درہم برہم کرنے کا مرتکب قرار پائے گا اُس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔


غیر ملکی سفیر صرف سیر کرنے کشمیر آئے

سرینگر،

مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے والےغیر ملکی وفد نے دو روزہ دورے کے دوران مختلف عوامی وفود کے علاوہ کئی سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کے ساتھ ملاقات کی۔
غیر ملکی سفیروں کے وفد میں فرانس، جرمنی، کینیڈا، افغانستان کے سفارتکاروں کے علاوہ یورپی یونین کے اراکین پارلیمان شامل تھے۔

مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 25 سفارتکاروں پر مشتمل وفد بدھ کے روز سرینگر پہنچا تھا۔
وفد نے سخت حفاظتی انتظامات اور ڈورن کیمروں کی نگرانی میں ڈل جھیل کی سیر کے بعد گپکار میں واقع للت گرینڈ ہوٹل میں مختلف عوامی وفود کے علاوہ کئی سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کے ساتھ ملاقات کی۔
ضلع بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے عامر مشتاق نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ شمالی کشمیر کے وفد کے رُکن تھے اور انہوں نے سفارتکاروں سے ملاقات کی اور دورانِ ملاقات کشمیر کے موجودہ حالات پر بات چیت کی۔

عامر مشتاق نے کہا کہ اور دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں پیدا شدہ حالات کے بارے میں وفد کو آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد مرکزی حکومت نے جو وعدے کیے ہیں ان کو پورا کیا جائے اور کشمیر میں پُرامن ماحول بنایا جائے، کیونکہ کشمیری عوام پُرسکون ماحول اور ترقی چاہتے ہیں۔
سماجی کارکن وجاہت احمد نے بتایا کہ انہوں نے بھی سفارتکاوں سے ملاقات کی اور یہاں کی صورتحال کے بارے میں انہیں آگاہ کیا۔

وجاہت احمد نے کہا کہ انہوں نے سفارتکاروں کو بتایا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر کی صورتحال کیسی ہے۔ کیا ہوا ہے اور کیا ہونا چاہیے۔
دو روزہ دورے کو سمیٹتے ہوئے وفد نے کل جموں میں لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو، چیف سکریٹری بی وی آر سبھرامنیم، جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی خاتون چیف جسٹس، جسٹس گیتا متل کے علاوہ مختلف وفود سے ملاقات کی۔

چند لوگ سفارتکاروں کے اس دورے کو سیر و تفریح سے تعبیر کرتے ہیں۔ فروٹ ایسوسی ایشن کے صدر غلام رسول بٹ کا کہنا تھا کہ ہمیں اس وفد کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا کہ سفارتکار آئے تھے اور ہم نے سوچا تھا کہ وہ عام لوگوں سے بات چیت کریں گے لیکن بجائے اس کے کہ انہوں نے (سفارتکاروں) ڈل جھیل کی سیر کی اور واپس چلے گئے۔

غلام رسول نے کہا دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد میوہ تاجروں کو کافی نقصان اور ہمیں امید تھی کہ وہ میوہ تاجروں سے ملاقات کرے گی اور ان کے مسائل سنے گی لیکن ایسا کچھی بھی نہیں ہوا۔ وہ صرف اعلیٰ حکام سے ملے۔

بھارت کی مرکزی حکومت کی طرف سے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے پانچ اگست 2019ء کے فیصلوں کے بعد یہ کسی غیر ملکی وفد کا تیسرا دورہ کشمیر تھا۔


پلوامہ حملے میں ہلاک فوجی اہلکاروں کے اہل خانی مراعات سے محروم

سرینگر؛

پلوامہ حملے میں قنوج سے تعلق رکھنے والے ہلاک جوان کے اہل خانہ نے حکومت پرالزام لگایا ہے کہ ان کی ہلاکت کے بعد حکومت کی جانب سے کیے گئے سارے وعدے ادھورے ہیں۔
ریاست اتر پردیش کے ضلع قنوج سے تعلق رکھنے والے لال پر دیپ یادو سمیت تقریبا 14 جوان پلوامہ میں ہلاک ہو گئے تھے۔

قنوج سے تعلق رکھنے جوانوں کی ہلاکت کے بعد حکومت نے ان کے اہل خانہ سےکئی وعدے کئے تھے، 2019 تا 2020 پورے ایک برس مکمل ہونے کے بعد بھی اب تک وعدے ادھورے ہیں۔
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ’ حکومت نے ان سے 5 بیگھہ زمین کے وعدے کیے تھے جو صرف اڑھائی بیگھہ ہی انہیں ملا اور وہ ایسی جگہوں پر دیا گیا جہاں آنے جانے کا کوئی راستہ ہی نہیں۔

جوانوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان سے جتنے بھی وعدے کیے سارے سارے آدھے ادھورے ہیں
جوانوں کے نام پر گاوں میں کوئی گیٹ تک نہیں ہے۔

ان تمام وعدوں کے پیش نظر جوان پر دیپ یادو کی بیوہ اہلیہ نے حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ’ حکومت کے سارے وعدے جھوٹے ہیں انہوں نے پورا برس مکمل ہونے پر بھی کوئی وعدے پورے نہیں کیے ہیں۔


پلوامہ حملے میں ہلاک فوجی کے اہل خانہ کوملنے والا معاوضہ حکومت اور دیگر اداروں نے ہڑپ کرلیا

سرینگر،

ریاست جھارکھنڈ کے ضلع گملا سے تعلق رکھنے والے وجئے سورینگ کو پلوامہ حملے میں ہلاک ہوئے ایک برس کا وقفہ گزر گیا ہے، لیکن اب تک ان کے اہل خانہ کو حکومت کی جانب سے اعلان شدہ رقم موصول نہیں ہوئی ہے۔

گزشتہ برس 14 فروری کو جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہلاک ہونے والے جوانوں میں گملا ضلع کے بسیا بلاک علاقے کے فرساما گاؤں کے رہنے والے وجئے سورینگ بھی شامل تھے۔
اس حملے کے بعد ریاستی حکومت نے اپنی ریاست کے جوانوں کے اہل خانہ کو لاکھوں روپے کی مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

وجئے سنگھ کو ریاستی حکومت کی جانب سے 10 لاکھ، جھارکھنڈ کے وزیر اور ایم ایل اے، سکریٹریٹ کے عہدیداروں اور ملازمین نے اپنے ایک دن کی تنخواہ دینے کا اعلان کیا تھا، لیکن ایک برس مکمل گزرنے کے بعد بھی یہ اعلانات صرف اعلان ہی رہے ہیں۔

سی سی ایل اور بی سی سی ایل کے ملازمین نے بھی ایک دن کی تنخواہ ان کے اہل خانہ کو دینے کا اعلان کیا تھا، لیکن یہ رقم بھی ابھی تک انہیں نہیں ملی ہے۔

وجئے سورینگ کی والد اور والدہ گاؤں میں ہی رہتے ہیں، جبکہ ان کی اہلیہ اور بچے رانچی میں رہائش پذیر ہیں۔
وجئے سورینگ کے والد نے بتایا کہ حکومت کے ساتھ کئی تنظیموں کی جانب سے مالی امداد دینے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن آج ایک برس مکمل ہوگئے ہیں کسی نے بھی خیر خبر نہیں لی۔ وہیں کافی جدوجہد کے بعد حکومت کی جانب سے اعلان شدہ 10 لاکھ روپے کی مالی امداد بھی بہت تگ ودو کے بعد اب ملی ہے۔

مارچ 2019 میں ہی بی سی سی ایل کی جانب سے 90 لاکھ روپے اور سی سی ایل کی جانب سے 84 لاکھ روپے اپنے ملازمین کے ایک دن کے تنخواہ سے کاٹ کر جمع کیے گئے تھے۔جو ابھی تک اہل خانہ کو نہیں ملے


پلوامہ سانحہ سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوا؟

سرینگر،14فروری

پلوامہ حملے کی پہلی برسی کے موقع پر کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے مرکزی حکومت پر اس معاملے کی تحقیقات کے سلسلے میں کئی طرح کے سوالات اٹھائے ہیں۔
راہول گاندھی نے ٹویٹر کے ذرئعے پلوامہ سانحہ میں ہلاک ہونے والے فوجی اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کیا اور مرکزی حکومت کو نشانہ بنا کر کئی سوالات کیے۔

راہول گاندھی نے لکھا کہ ہم آج پلوامہ حملے میں ہلاک ہونے والے 40 سی آر پی ایف اہلکاروں کو یاد کررہے ہیں تو ہم یہ پوچھیں کہ اس حملے سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوا؟ حملے کی تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلا؟ بی جے پی حکومت میں ابھی تک سکیورٹی چوک کے لیے کس کو جوابدہ ٹھہرایا گیا ہے؟

غور طلب بات یہ ہے کہ اس حملے کے تین ماہ بعد بھارت میں عام انتخابات ہونے والے تھے اور حکمران سیاسی جماعت بی جے پی نے اس حملے کے علاوہ کشمیر میں عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی کی کمر توڑنے کے معاملوں کو انتخابات کا موضوع بنایا تھا۔

بی جے پی پر اپوزیشن جماعتوں اور عوامی حلقوں نے الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے فوجیوں کی ہلاکتوں کو انتخابات جیتنے کیلئے استعمال کیا۔ تاہم انتخابات میں بی جے پی پھر سے کامیاب ہوگئی اور انکی نشستوں میں 2014 کے انتخابات کے مقابلے میں کافی زیادہ نشستوں کا اضافہ بھی ہوگیا۔


عمر عبداللہ پر پی ایس اے، جموں و کشمیر انتظامیہ کو سپریم کورٹ کا نوٹس

سرینگر،

جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر انتظامیہ کو نوٹس جاری کیا۔

سپریم کورٹ نے سارہ پائلٹ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جموں و کشمیر انتظامیہ کو 2 مارچ کو جواب دینے کو کہا ہے۔

سارہ پائلٹ نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ ‘ چونکہ یہ ایک حبس کارپس کیس ہے تو امید تھی کہ ہمیں اس معاملے میں جلد ہی فیصلہ مل جائے گی۔ لیکن ہمیں انصاف کے نظام پر مکمل اعتماد ہے’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘ ہم یہاں موجود ہیں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام کشمیریوں کو بھارت کے تمام شہریوں کی طرح حقوق ملنے چاہئیں اور ہم اس دن کے منتظر ہیں’۔

اس سے قبل جسٹس موہن ایم شانتانا گودار نے اس معاملے کی سماعت ملتوی کر دی تھی اور ساتھ ہی اس معاملے سے خود کو الگ کر لیا تھا۔

گذشتہ روز اس معاملے کی سماعت کے لیے جسٹس ارون مشرا اور جسٹس اندرا بینرجی کی نیا بنچ تشکیل دیا گیا تھا۔ اب اس معاملے کی اگلی سماعت 2 مارچ کو ہوگی۔


حکام نے 6 فروری کو سابق وزرائے اعلی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے ) عائد کیا تھا تاکہ انکی مدت نظربندی طویل کی جاسکے
سیاسی لیڈروں کی نظربندی بھارت کے آئین کے خلاف ہے۔ سابق سپریم کورٹ جج

سرینگر،

سپریم کورٹ کے سابق جسٹس نے نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کرنے کو انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہاکہ عمر عبداللہ سمیت جتنے بھی لیڈران کو نظر بند کیا گیا وہ آئین ہند کے آرٹیکل 21کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہاکہ عمر عبدا ﷲپر پی ایس اے عائد کرنے کے حوالے سے جو ڈوزئیر بنایا گیا وہ زمینی سطح پر میل ہی نہیں کھا رہا ہے۔ سابق جسٹس کے مطابق عمر عبدا ﷲنے کھبی بھی ملک کے خلاف بیان نہیں دیا اور نہ ہی تشدد کے حامی رہے

بلکہ وہ بھارتی آئین کا ہمیشہ احترام کرتے ہیں۔ ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق عدالتِ عظمیٰ کے سابق جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے عمر عبدا ﷲ ، فاروق عبدا ﷲ اور محبوبہ مفتی کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہاکہ حکومت آئین ہند کی دفعہ 21کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔

عمر عبدا ﷲ پر عائد پی ایس اے کے حوالے سے جو ڈوزئیر بنایا گیا وہ سمجھ سے بالا تر ہے ۔ انہوں نے کہاکہ تین صفحات پر مشتمل ڈوزئیر میں لکھا گیا ہے کہ 370کی تنسیخ کے بعد عمر عبدا ﷲنے اس کے خلاف بیانات دئے جبکہ وہ رائے دہند گان کو ووٹ ڈالنے کے ضمن میں حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے ۔

انہوں نے کہاکہ ڈوزئیر زمینی حقائق کے برعکس ہے کیونکہ عمر عبدا ﷲ پرآج تک کسی نے یہ الزام نہیں لگایا کہ وہ تشدد کے حامی ہیں اور نہ ہی اُنہوں نے تشدد آمیز بیان دیا لہذا اُن پر پی ایس اے کا اطلاق کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ عمر عبدا ﷲکا جو سیاسی کیرئیر ہے اگر اُس پر نظر دوڑائی جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ آئین ہند کو تسلیم کرتے ہیں ۔ مارکنڈے کاٹجو نے کہاکہ گورنمنٹ پر تنقید کرنا کوئی جرم نہیں ہے

کیونکہ جمہوریت اور ملک کے دستور نے ہر کسی کو شہری کو یہ حق دیا ہے کہ جہاں پر بھی حکومت غلط قدم اُٹھائے تو اُس کے خلاف پُر امن احتجاج کرنا قانونی طورپر جائز ہے۔

انہوں نے کہاکہ سال 1950میں سپریم کورٹ نے رمیش تھاپر کیس میں اس حوالے سے ایک تاریخی فیصلہ بھی سنایا ۔

مارکنڈے کاٹجو کے مطابق عمر عبدا ﷲ اور دیگر نظر بندوں کی فوری طورپر رہائی عمل میں لائی جانی چاہئے ۔

About The Author