سوشل میڈیا پہ حکومتی پابندی ۔۔۔۔۔۔ میک اپ اترنے کے بعد کی حقیقی شکل و صورت کے ڈراؤنے خواب سے بچاؤ کی نا کام کوشش ۔۔۔۔۔۔۔
تحریک انصاف کی سیاسی خاصیت و تعارف کو اگر صرف دو لفظوں میں سمو دیا جائے تو وہ دو الفاظ ہیں "سوشل میڈیا”۔۔۔۔۔۔۔
میڈیا ہر دور کے حکمران بالادست طبقے کی ڈُوئی/چمچہ اور کڑچھا رہا ہے۔۔۔۔ کبھی یہ میڈیا مُلاں اور پروہت رہے۔ کبھی درسی کتابیں اور حکمرانوں کے زیر تسلط چلنے والی درسگاہیں تو کبھی ملکی خزانے سے فیض یاب ہونے والے اخبارات اور ٹیلیویزن۔ اور اب کے عہد میں سوشل میڈیا ۔۔۔۔
طبقاتی سماج کے آغاز سے لیکر اب تک میڈیا کا واحد مقصد حکمران طبقے کے مفادات کو قابلِ قبول بنا کر عامۃ الناس میں پیروی و اطاعت کی خُو پیدا کرنا رہا ہے۔۔۔۔ ظلم، زیادتی، جبر، لوٹ مار اور استحصال کی چھتر چھایہ میں پروان چڑھنے والے حکمران اور بالادست طبقہ اپنی بات میڈیا کے منہ میں ڈالتا ہے۔ میڈیا سے وابستہ سب کردار حکومتی اور بالادست طبقے کے مؤقف کی اٹھتے بیٹھتے جگالی کرتے ہیں۔ ان کی اس جگالی سے متاثر ہو کر عام لوگ/ محنت کش طبقہ جب ان کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے تو یہ اس تسلیمی اظہار کو اچک لیتے ہیں اور پھر ایک واویلہ شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھیں لوگ ایسا کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
ہر دور چونکہ اپنے پچھلے دور کے ختم ہوتے ہوئے وقت سے جنم کر نئے عہد میں نئے تقاضوں کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ اس لئے ایک طرف اس کے دامن میں گزرے عہد کے اسباق اور تجربات ہوتے ہیں تو نئے عہد کی ضرورتیں اور تقاضے بھی۔۔۔ پاکستان میں بطور ایک سیاسی پارٹی کے تحریک انصاف کا جنم ، پرورش، ابھار اور پھر اقتدار ایک ایسے عہد میں ہوا ہے کہ جب پاکستان کی سیاست میں سے رواداری، ایمانداری، قربانی، اصولوں اور نظریات کا تقریباً جنازہ نکل چکا تھا۔۔ دوسری طرف بد قسمتی سے یہ کوئی بدلتا ہوا عہد بھی نہیں تھا بلکہ ایک طویل سیاسی جمود کا عہد تھا۔ نتیجۃً جھوٹ، مکر، فریب، بے اصولی، عدم برداشت، گالم گلوچ ، دیدہ دلیری، بے شرمی جیسے منفی سماجی رحجانات تحریکِ انصاف کی سیاست کا حصہ اور خاصہ بنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا کو اس کے پھیلاؤ اور فروغ کا ذریعہ بنایا گیا۔ ادھر ایک طرف کسی جھوٹ اور کسی فریب کو لڑھکایا گیا اُدھر اسی جھوٹ اور فریب کو سچا اور واحد سچ بنانے اور منوانے کی بھر مار کردی گئی۔۔۔۔۔ اسے اتفاق کہیئے یا عہد کا جبر کہ یہ خاصیت اور خصوصیت نہ صرف تحریک انصاف کے حصہ میں آئی بلکہ تحریک انصاف نے اس خاصیت کو گلے سے لگایا بھی اور نبھایا بھی۔ اور اس کیلئے اسی سوشل میڈیا سے بھر پور کام لیا۔۔۔۔۔
مگر چونکہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ اب جب تحریکِ انصاف کی حکومت کے میک اپ اترنے سے اس کے جو اصل خد و خال تھے وہ نظر آنے لگے تو اس حقیقی تصویر کے بھیانک پن سے بھی خود تحریک انصاف کو ڈراؤنے خواب نظر آنے لگے۔۔۔۔۔ اب حکومت کی طرف سے سوشل میڈیا پر پابندی کا فیصلہ اور قانون سازی اسی خوف کو ٹالنے کی ایک مصنوعی کوشش اور کاوش ہے۔
مشہور انقلابی شاعر ممتاز اطہر کا یہ شعر بھی شاید ایسی کیفیت کی وضاحت یا سُجھاونی کیلئے کہا گیا تھا کہ
کسی کے ہاتھ تو بازوؤں کے ساتھ رہنے دے
پلٹ کے آ گیا تجھ پہ تیرا عذاب تو پھر ؟ ؟
آج حکومت کا اپنی بے چینی سے مجبور ہو کر سوشل میڈیا پر پابندی سے سکون کی تلاش کا جو بھی جواز ہو مگر ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سکون آور ادویات کبھی علاج نہیں ہوا کرتیں۔ بیماری موجود رہے تو حکیمانہ ٹامک ٹوئیاں مریض کو موت کے قریب تر لے جاتی ہیں ۔۔۔
تحریک انصاف کی حکومت کسی ایک فرد یا چند افراد کے ٹولے کی حکومت نہیں ہے بلکہ اس مرتے ہوئے سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام پر یقین رکھنے والے بالا دست طبقے کی گماشتگی کا تسلسل ہے۔ اس حکومت کا زوال کسی ایک فرد یا چند افراد کا زوال نہیں ہو گا۔ بلکہ یہ اس سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کے خاتمے کا اعلان ہوگا۔۔۔ لیکن محنت کش طبقے کے پاس جب مردے کو دفن کرنے کی کوئی اپنی طاقت اور متبادل نہ ہو تو ایسا مردہ اپنے تعفن کے ذریعہ ماحول اور سماج میں پہلے سے کہیں زیادہ گھٹن پیدا کر کے زندگی اجیرن بنا دیتا ہے۔۔۔۔
سو اس گلے سڑے نظام کے متعفن وجود کو ٹھکانے کیلئے ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر اور قیام ضروری ہے جو ایک سوشلسٹ سویرے کی نوید بن کر نسلِ انسانی کو ایک معطر و خوشگوار ماحول اور سماج دے سکے۔ جس میں کسی جھوٹ اور جبر، فریب اور مکر اور ذلت و رسوائی کا شائبہ بھی نہ ہو۔ جہاں سب انسان اور ان کی انسانیت صرف اور صرف سرشار اور سرخرو ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر