نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوشل انٹر پرائززکو ترقی یافتہ بنانے کے لئے جامع قانونی فریم ورک کی ضرورت کیوں؟

حکومت سوشل انٹر پرائززمیں سرمایہ کاری کے خواہشمند افراد کے خدشات کو دور کرے

حکومت سوشل انٹر پرائززمیں سرمایہ کاری کے خواہشمند افراد کے خدشات کو دور کرے،ڈاکٹر وقار
سوشل انٹر پرائززکو ترقی یافتہ بنانے کے لئے جامع قانونی فریم ورک اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔

ماہرین
سماجی کاروباری شعبہ حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام ورک شاپ

اسلام آباد

بنیادی معاشرتی مسائل کے حل اور عوامی خدمات کی فراہمی میں حکومت کی مدد کرنے کے امکانات کے پیش نظر ، پاکستان میں سوشل انٹر پرائزز( سماجی کاروباری شعبہ) حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔

سوشل انٹر پرائززکو ترقی یافتہ بنانے کے لئے جامع قانونی فریم ورک اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔ماہرین نے ان خیالات کا اظہار برٹش کونسل اور یو این ای ایس سی اے پی کے تعاون سے یہاں اسلام آباد میں ” پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام” پاکستان میں سوشل انٹرپرائز پالیسی ٹول کٹ برائے اورینٹیشن ورکشاپ "میں کیا۔ جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ،

ایس ڈی پی آئی ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ معاشرتی کاروباری ادارے پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کے لئے متحرک ثابت ہو سکتے ہیں ۔ان اداروں کو سہولتیں دینے سے صحت ، تعلیم ، پینے کے صاف پانی ، سستی رہائش ،

اور سستی توانائی کے مسائل کو حل کر نے میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم ملک میں بہت کم سماجی کاروباری ادارے ہیں لہذا یہ ضروری ہے کہ سماجی کاروباری افراد کو درپیش رکاوٹوںکو سمجھنے کے لئےحکومتی سربراہی میں ایک ورکنگ گروپ بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایس ڈی پی آئی نے اس پر فعال تحقیق کی ہے کہ ٹیکس ، مالی اعانت اور مالیات کے نظام میں بہتر اصلاح کے ذریعہ انہیںکس طرح سہولت دی جاسکتی ہے۔

مزید برآں قانونی شناخت اور سماجی انٹرپرائز کے مسائل کو مناسب قانون سازی کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں پاکستان جنوبی کوریا ، تھائی لینڈ ، ویتنام اور فلپائن میں سماجی کاروباری قوانین سے استفادہ کرسکتا ہے۔

ڈاکٹر وقار نے کہا کہ مرکزی بینک اور ایس ای سی پی کوسماجی انٹرپرائز سیکٹر میں حصہ لینے کے خواہشمند سرمایہ کاروں کی رہنمائی کرنی چاہئے انہوں نے مذید کہا کہ

گارنٹی اسکیموں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو کمرشل بینک بھی سماجی انٹرپرائز کو فنڈ دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی سماجی کاروباری اداروں میں سرمایہ کاری کے خواہشمند افراد کے خدشات کو دور کرنا ہوگا۔

ان خدشات میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کی موجودہ جگہ بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر وقار نے کہا ، "وفاقی اور صوبائی پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹیز (پی پی آر اے) معاشرتی ا قدار پر غور کرکے اس طرح کے کاروبار کو فروغ دینے میں مدد کرسکتے ہیں۔

” انہوں نے مزید کہا کہ مسابقتی کمیشن ایک ایسا ماحول سازگار ماحول بناسکتا ہے جہاں خالص معاشرتی اثرات کے حامل کاروباری ادارے روایتی کاروباری اداروں کا مقابلہ کرنے کے اہل ہوں۔

ڈاکٹر وقار نے بتایا کہ آنے والے دنوں میں ، ایس ڈی پی آئی کی ٹیم ایک سماجی انٹرپرائز قانون تیار کرے گی جس میںسرکاری اور نجی شعبے کی آراءبھی شامل کی جائینگی ۔

ہمیں امید ہے کہ پارلیمنٹ کی متعلقہ اسٹینڈنگ کمیٹی اس مسودہ قانون پر تبادلہ خیال کرنے اور اگلے مراحل کے لئے اس پر کارروائی کرنے میں گہری دلچسپی لے گی۔

برٹش کونسل کے طلحہ چشتی نے کہا کہ اس کے ترقی پذیر جامع اور تخلیقی معیشتوں (ڈائس) پروگرام کے تحت برٹش کونسل کا مقصد ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اہم مسائل کو دور کرنا ہے

جس میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈائس فیلوشپ پروگرام کے تحت 600 سے زیادہ انفرادی تخلیقی سماجی کاروباری افراد کو تربیت دی گئی ہے

جو چیلنجوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیلوشپ پروگرام تخلیقی اور سماجی کاروباری رہنماو ¿ں کو کاروبار کرنے میں آسانی سے ،

اپنے کاروبار کو برقرار رکھنے اور ان کے اثرات کو بڑھانے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ ورکشاپ کے شرکاءنے ٹیکس ،

فنڈ اور فنانس تک رسائی اور دیگر کاروباری اداروں کے لئے اصلاحا ت و اقدامات تجویز کر نے کے علاوہ ٹیکسوں کے نظام کو آسان بنانے کی ضرورت ک پر زور دیا

اور سماجی کاروباری اداروں کےلئے اصلاحی اقدامات کی تجویز دی۔ ورکشاپ میں وزارت منصوبہ بندی ، ترقی و اصلاحات ، پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) ،

مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) ، ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان (ایچ ای سی) ، نیشنل انکیوبیشن سینٹر (این آئی سی) ، کے پی بورڈ کے عہدیداروں، انوسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ ،

بلوچستان ریونیو اتھارٹی ، پنجاب ریونیو اتھارٹی ، سندھ ریونیو بورڈ ، ایس ای سی پی ، نیسلے پاکستان ، مختلف سماجی انٹرپرائز کے نمائندے اور کاروباری افراد نے شرکت کی۔

About The Author