نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مہنگائی اور وزیراعظم ۔۔۔ گلزار احمد

کٹے وچھے مرغی انڈے بے گھر لوگوں کو گھر فراہم کرنے کے دعوے کرنے والی حکومت لوگوں کے منہ سے نوالہ چھین رہی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مہنگائی کے خلاف ہر حد تک جائینگے اور عوام کو ریلیف دیکر آٹا۔گھی۔دالیں سستی کریں گے۔ ہمارے وزیراعظم کی ٹیم اس وقت سوئی رہی جب تک روزمرہ کی اشیاء کے نرخ ڈبل نہیں ہو گیے ہمارے منتخب نمائندوں کو مہنگائی کا خیال آتے ہی انہوں نے اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کے اقدامات شروع کر دیے یعنی عوام جاے بھاڑ میں عوامی نمائندوں کی تنخواہ بڑھاتے جاو ۔

وزیراعظم صاحب کو مہنگائی کے خلاف بیان دینے کا خیال شاید نریندر مودی کی دارالحکومت دہلی کے انتخابات میں عبرتناک شکست کے بعد آیا اور پتہ چلا کہ حکمرانوں کو عوام دشمن پالیسیوں کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ سابقہ حکومتوں پر الزامات لگانے سے اب کام نہیں چلے گا اس لیے کہ ان لوٹ مار کرنے والے لیڈروں کے دور میں آٹا۔چینی۔گھی تو سستے داموں دستیاب تھا۔ بیچ میں PTI کی 18 ماہ کی کرپشن فری حکومت میں ایسا کیا ہوا کہ گھریلو روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور لاکھوں لوگ غربت کی لائین سے نیچے چلے گیے۔

PTI کے حکمران اپنے مخلص ورکروں سے دور ہو گیے اور 73 سال سے ملک کو نوچنے والے چند مفاد پرست لوگوں کے نرغے میں پھنس گیے جو روز بروز ان کو نئی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔ معیشت کی بہتری کے متعلق طرح طرح کے دعوے کیے جاتے ہیں اور زمینی حقایق یہ ہیں کہ روٹی مہنگی اور غریب کی عزت سستی ہے۔ انصاف کے نام سے اٹھنے والی تحریک کے
دور میں انصاف مہنگا اور غریب کی دسترس سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔

کٹے وچھے مرغی انڈے بے گھر لوگوں کو گھر فراہم کرنے کے دعوے کرنے والی حکومت لوگوں کے منہ سے نوالہ چھین رہی ہے۔ تاجر۔صنعتکار۔ دکاندار سب پریشان پھر رہے ہیں لیکن کوئی سنتا نہیں۔

ملک کی معیشت IMF کے حوالے کر دی گئی جس نے پہلے ہی کئی ملکوں کی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا۔ IMF کے حکم پر ماہانہ بجلی گیس تیل کے نرخ بڑھاے جاتے ہیں۔ بجلی کے بلوں پر ناجائیز جرمانوں اور درجنوں ٹیکس لگا دیے تا کہ Imf کا پیٹ بھرا جا سکے۔

ایک عام ان پڑھ پاکستانی بھی ایک روپیہ ڈالر کے ریٹ بڑھانے پر سیخ پا ہو جاتا ہے جبکہ ہماری حکومت نے کس کے کہنے پر ڈالر کا ریٹ چالیس روپے بڑھا دیا؟ اور اس بڑھوتری کے فواعد جو بیان فرماے گیے تھے وہ کدھر ہیں؟ ہاں البتہ اس کا نقصان ہر پاکستانی برداشت کر رہا ہے۔

2003 تک ہماری معیشت میں درآمدات کا تناسب 25% تھا یعنی ہم اگر 100 ڈالر کی چیزیں باہر بھیجتے تو 125 کی درآمدات کرتے اس طرح خسارہ 25% تھا اس خسارے کو بیرون ملک پاکستانیوں کے remittances اور کچھ قرضوں سے پورا کر لیتے تھے آج صورت حال یہ ہے کہ برآمدات اگر ایک سو ڈالر ہیں تو درآمدات 225 ڈالر ہیں یعنی خسارہ 25% سے بڑھ کر 125% ہو گیا ہے۔

اس خسارے کو سواے قرضے لینے کے پورا کرنے کا کوئی طریقہ بھی نہیں۔ اور یہ قرضے صرف پانچ فیصد امیر لوگوں کے سامان تعیش کو فراہم کرنے کے لیے لینے پڑتے ہیں کیونکہ یہ طبقہ گھر کا فرنیچر۔ڈریس۔دوایاں حتی کہ کتوں کی خوراک اور شیمپو بھی باہر سے منگواتا ہے۔

غریب کو ایک وقت کی روٹی کا رپھڑا ہی فارغ نہیں ہونے دیتا۔ایک تہائی پاکستانی بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں آدھی آبادی کو صاف پانی میسر نہیں مگر ہمارے منتخب نمائندے کبڈی کبڈی کھیل رہے ہیں کہ کس کو اقتدار دینا ہے اور کس سے لینا ہے کتنے نمبر پورے کرنے کے لیے کتنے ووٹ خریدنے اور ناجائیز مطالبات ماننے ہیں۔

وزیراعظم صاحب کا مہنگائی کم کرنے کے اعلان میں جتنا بھی خلوص ہے ہونا اس کے برعکس ہے کیونکہ صوبوں میں بھی بیانات کا زور لاھور پشاور کوئٹہ کراچی تک ہے اور عمل درآمد کہیں نظر نہیں آ رہا۔ ٹڈی دل کو جون میں ختم کرنا آسان تھا اب ٹڈیاں عفریت کی شکل اختیار کر چکیں تو حکومت جاگی اس کا اندازہ نہیں کہ زراعت اور خاص طور پر گندم کی فصل کو کتنا نقصان ہو گا۔

ان حالات میں آٹے کا ریٹ چالیس روپے چینی پچاس روپے گھی 150 روپے دوائیاں 50% کم ریٹ پر واپس لانا مشکل ہے بس بیانات دیتے جائیں خواب دیکھنا کوئی بری بات تو نہیں۔

About The Author