ستمبر 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھی محبوب اور سومرا سلطان ۔۔۔رانا محبوب اختر

سکھر کا شمس الزماں شاہ ہمارا یار ہے اور پرانے وقتوں کی شرافت کا امین ہے۔ایک نجیب کامریڈ اور نامور سیاستدان، شمس الدین شاہ کا بیٹا محبت میں گندھا ہوا ہے

سیہون ریستوران میں قلندری کا جوہر آشکار کرنے کو خادم حسین سومرو کا دھیمہ لہجہ اور چائے کی خوشبو مہمیز تھی۔ سندھ کا اسرار موہنجوڈارو کی ناچتی لڑکیوں سے لے کر قلندر کے نقارچیوں اور مشعالچیوں تک روشن تھا۔ سفر کے ہزار قصوں میں سندھ کے سفر کا ناتمام قصہ کھلنے لگا تھا۔ یہ طلسم _ خواب_ زلیخا نہ تھا ، سندھ کا دام_ صد رنگ تھا۔ تاریخ ، تہذیب، شاعری ، تصوف اور مقیمان صوفی، مسافران قلندر ، باہر کے حملہ آور بادشاہ، ست سورمیون، زمیں زاد سورما، اور سندھ وادی کی مٹی میں گندھے عام سندھیوں کی ایک طلسم _

ہوشربا تھی جس کی مستی دم بہ دم بڑھتی جاتی تھی۔ ملتان میں ایک درویش صفت دوست، فادر یونس ہیں۔ وہ از راہ_ مذاق اپنے آپ کو پوپ کا نمائندہ کہتے ہیں۔ خادم سومرو کے بارے میں فادر یونس نے جو بتایا تھا مجھے یاد نہ تھا۔

بس وادئ مہران کا ایک مہربان سندھی ، مسافر کے ساتھ چائے پیتا تھا۔ہماری سندھ سے محبت کی کہانی موہنجوڈارو سے شروع ہوتی ہے۔تہذیب اور تعذیب تک بہت سے سندھی میرے محبوب ہیں۔وہ راجپوت ہوں ، سید یا بلوچ، اول آخر سندھی ہیں۔جاموٹ ہوں یا سماٹ پہلے سندھی اور بعد میں کچھ اور ہیں۔پانچ ہزار سال پرانے زمیں زاد، ہزار سال پہلے کے مسلمان اور 72 سال پرانے پاکستانیوں کی تاریخ میں کوئی کڑی نہیں ٹوٹی، کوئی missing link نہیں ہے۔

۔تو لاڑکانہ کا کلیم اللہ لاشاری، استاد اور عالم ہے۔رہنمائی کے ساتھ ساتھ دلبری کرتا ہے۔ مہذب منظور میمن، سیاستکار امتیاز شیخ، بزلہ سنج سید آصف اختر، شریف شیخ اشرف،دھیما اکبر سوہو ، شرارتی انعام الحق، اچھا فتح محمد میمن، چلبلا سائیں نذیر میمن جس پہ کوٹ کے کپڑے سے میچنگ جرابیں سلوانے کا الزام تھا، جذباتی ، تیزگو اور تیزگام محمد عیسے جلبانی ، خاموش طبع ہادی بخش ابڑو، زندہ دل اکبر ڈھانی، اسد ابڑو سا کڑیل جوان، شاعر شکیل نقوی، محبتی ذوالفقار کاظمی اور دانشور خلیل کمبھار میں سے بیشتر ایسے ہیں جن سے محبت کے رشتے پچھلے ہزاریے سے چلے آتے ہیں جب لیلائے سول سروس نے ہم سب کو سول سروس اکیڈیمی لاہور میں لا ملایا تھا۔

بھانت بھانت کے لوگ چاکری کو افسری جان آ دھمکے تھے۔ کچھ ان میں سے بے وفا نکلے۔اسد ابڑو اور جلد باز،محمد علی ڈاہر اور سادات_ امروہہ کے شکیل نے وفا نہ کی اور کبھی نہ ملنے کی قسم کھا کر وہاں چلے گئے جہاں ایسا تماشا برپا ہے کہ کوئی لوٹ کر نہیں آتا !شکیل کا شعر دیکھئے:

طبیعت کے سنبھل جانے کا غم ہے
ہمیں اپنے بدل جانے کا غم ہے

ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری نے زبان وادب، آثاریات اور تاریخ پر وقیع کام کیا ہے۔ بطور ادیب اور محقق خود کو منوایا ہے۔” ماکلی” پر اس کی گراں مایہ کتاب ” Epigraphy of Makli” یا ” ماکلی کے کتبات ” اسے ہمیشگی دینے کو کافی ہے۔ موہنجوڈارو کی ناچتی لڑکیاں ، راجہ ڈاہر کے گھر کی عزت مآب خواتین ، رومانوی داستانوں کی ماروی، مومل، سسی، سوہنی، لیلا، نوری، سورٹھ، ریباری عورتیں جو آج بھی دودو سومرا کا احسان نہیں بھولیں، مہذب سومرا ملکہ تاری یا زینب اور بے نظیر بھٹو، سندھ کی سورمائیں ہیں جن کے رومانس سے سندھ مہکتا ہے۔ دنیا کے پہلے فیمنسٹ، شاہ لطیف کی ست سورمیون، معشوق نہیں عاشق ہیں، وفا کا استعارہ ہیں ۔

گزشتہ محبوبوں کی یادوں میں گم ، میں سوچتا تھا کہ میرے سامنے بیٹھا سیہون کا باسی اور قلندر کا ہمسایہ، خادم سومرو، کون ہے؟ اس کی شخصیت میں ایک عاجزانہ تمکنت تھی جو ہر سندھی کا خاصا ہے۔ فادر یونس یا قلندر نے استقبال کو ملنگ بھیجا تھا، معلوم نہ تھا!! اب وہ خاموش تھا اور اس کی باتیں ناتمام قصے کی طرح ادھوری رہ گئیں تھیں! "مہذب لوگوں کی پہلی خصوصیت ان کی امن پسندی اور شانت ہونا ہے” اس کا جملہ میرے دل میں ترازو تھا۔کہ ہم ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہنا نہیں جانتے! مسافر اب چار یاروں ،سومرا سلطنت، دہلی کے سلطانوں، سیہون کے راجوں اور قلندر کی کرامات کا سوچتا تھا۔

کچھ الجھنوں نے سفر کی صعوبت کی طرح گھیر رکھا تھا۔ نصابی تاریخ، فتوحات اور کرامات !!میرے ساتھ ہزار وہم و گماں سفر میں تھے۔ سومرا کون تھے؟ بادشاہی اور سلطنت کا راز کیا ہے؟ سکندر اور چنگیز قاتل تھے یا ہیرو؟ ایک قتل کرنے والے کو قاتل اور لاکھوں لوگوں کے قاتل کو ہیرو کیوں کہتے ہیں؟ دربار اور مزار میں کیا تعلق ہے؟ موسیقی اور رقص حرام ہے تو شہباز قلندر رح اور جلال الدین رومی رح کیوں ناچتے تھے؟ وحدت الوجود کیا ہے؟ مجھے صوفیوں اور قلندروں سے ملنے کا شوق ہے ۔ رفعت عباس انھیں جانتا ہے اور مجھے اس کوہ قاف کا پتہ نہیں دیتا جہاں ان کے آستانے ہیں ؟ ہمارے عہد کے صوفی کہاں چھپ گئے ہیں؟ سر سنگیت کیا ہے؟ غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟

سیہون کے میاں میر رح جو 25 سال کی عمر میں لاہور جا بسے تھے،ان سوالوں کے جواب جانتے تھے کہ گولڈن ٹمپل کی بنیاد چار اینٹوں سے رکھی تھی ! مروند سے آنیوالے قلندر نے ایک سال سیہون میں قیام کیا اورصدیوں سے اس کے مزار پہ چار چراغ جلتے ہیں!! بہاءالدین ذکریا ملتانی( 1276- 1180ء)، شہباز قلندر(1274-1177ء)، فریدالدین گنج شکر( 1266-1179ء)، اور جلال الدین سرخ پوش بخاری( 1292-1198ء)، چار یار ، چار چراغ تھے۔علم الاعداد میں چار کا ہندسہ روح اور وجود کے اتصال کی علامت ہے۔بائبل کے مطابق خدا نے چوتھے دن سورج اور چاند خلق کئے تھے۔ چار سمتیں ہیں اور چار موسم ہیں۔ہندوازم میں سوستیکا چار اطراف سے خوش قسمتی کے نزول کی علامت ہے۔ اسماعیلی پیر ،شمس سبزواری ( 1278-1200ء) ، پانچواں چراغ ہیں۔ اور دلی میں نظام الدین اولیاء( 1238- 1325) کا چراغ سات سلطانوں کے عہد میں جلتا رہا۔بادشاہ ان کے لنگر کا انتظام کرتے تھے۔مگر اب ایسے عالی مرتبت لوگ غیاب میں ہیں!

تیرھویں صدی میں سندھ پر مقامی سومرا حکمرانوں کی سلطنت تھی۔ سومرا لفظ بہ ظاہر پرانی سمیر تہذیب سے آیا ہے۔ وادئ سندھ کے قدیم تجارتی رشتے Sumerians سے تھے ۔سندھ میں خفیف سومرو نے اقتدار عرب ہباریوں سے حاصل کیا تھا۔ یہ عجب تھا کہ عرب ہباری خاندان سے مقامی سومرا خاندان کو اقتدار قتل و غارت کے بغیر منتقل ہوا تھا۔ سومرا سلطنت 1026 میں قائم ہوئی اور 1356 تک کوئی 330 سال قائم رہی۔پہلے تھری اور پھر ٹھٹھہ ان کا صدر مقام تھا۔سومرا حکمرانوں نے انسانی تاریخ میں یہ تجربہ کیا کہ بادشاہت اور عوامی منشاء کو ایک ادارے میں اکٹھا کر دیا۔ وہ دلی کے سلطانوں کے تابع نہ تھے۔

البتہ نصیر الدین قباچہ کے قتل کے بعد ، بہاءالدین ذکریا کی سفارش پر چنیسر التتمش کا باجگزار رہا۔ سومرا اسماعیلی تھے اور اسماعیلی تعلیمات کے زیر_ اثر مقامی ثقافت اور ہندو مسلم کلچر کی قوس_ قزح بنانے میں مدد کی۔اسماعیلی داعی مقامی زبان کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اترنے کا فن جانتے تھے۔قلندرم مستم ! وہ جو نطشے نے کہا تھا کہ یورپ میں عیسائیت اور شراب دو بڑے نشے ہیں۔ سندھ کے لوگ صدیوں پہلے مذہب کی کی جدلیات سے واقف تھے ۔ سومرا عہد سے سندھی زبان کی آبیاری شروع ہو گئی تھی جبکہ مزہبی زبان عربی اور ثقافتی زبان فارسی تھی۔اچ کا مدرسہ فیروزیہ معاصر تعلیم کا بڑا مرکز تھا۔ملک فیروز ، سومرا بادشاہوں کا لقب تھا اور فیروزیہ اسی سے مشتق ہے۔

قطب الدین کاشانی اور علامہ منہاج سراج اس جامعہ کے جلیل القدر اساتذہ میں سے تھے۔ گویا اسماعیلی سومرا بادشاہ سنی علماء کو مدرسے میں تدریس کے علاوہ انتظام میں شامل کرتے تھے اور تعلیم اور مذہب کے معاملے میں وہ صوفیوں کی طرح سیکولر تھے۔ دلی پر ترک غلام حکمران تھے۔ اور ملتان پر تیرھویں صدی میں ناصرالدین قباچہ، التتمش اور بلبن بیت چکے تھے۔بہاءالدین ذکریا نے منگولوں کو ایک لاکھ ٹنکے دے کر کم از کم ایک مرتبہ ملتان کو قتل_ عام سے بچا لیا تھا۔ پرآشوب تیرھویں صدی میں چار یار ،صوفیوں کے طائفے، اسماعیلی داعی اور پیر شمس سبزواری مقامی آدمی کے دلوں کو تاراج کرتے تھے۔ خراسان سے آئے صوفیوں کی بستیوں کو تاتاریوں نے تاراج کیا تھا۔ سندھ میں سومرا ، دلی میں ترک غلام اور سیہون پر راجہ جسپر کی حکمرانی تھی۔

سومرا سلطانوں کو چھوڑ کر سب چوپٹ راج تھا۔اور سیہون سے ملتان، ملتان سے اجودھن اور اجودھن سے دلی تک قلندروں اور صوفیوں کے آستانوں کی چوکیاں تھیں۔ان کے حسن _ سلوک کی کرامت سے اسلام حملہ آور کی وردی اتار کر درویش کی قبا پہنے مقامی اکثریت کے دل میں اترنے رہا تھا۔ مزاروں پر غریب، ملنگ، موالی اور درماندہ لوگ دھمال ڈالتے تھے۔لنگر کھاتے تھے اور کبھی بادشاہ اور حکمران لنگر میں حصہ ڈال کر ثواب _دارین کے ساتھ شیلٹر اور روٹی کے انتظام میں صوفیوں کے ساتھ شامل ہو جاتےتھے۔لنگر، دربار اور مزار کے توسط سے معدے کے رستے تالیف_ قلب کرتا ہے! لوگ محرومیوں کی قوالی سے موالی ہوتے ہیں اور مقامی آدمی کا وچھوڑا شاعری ، سر ، تال اور دھمال سے چہار آتشہ ہو کر معرفت کی مست شراب میں ڈھلتا ہے۔ زندگی گوارا ہو جاتی ہے ۔ وجود کی وحدت قائم رہتی ہے!

About The Author