مئی 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آنکھوں کا مسیحا ۔۔۔ گلزار احمد

میرا خیال ہے ڈیرہ کے صاحب حیثیت لوگ آگے آئیں اور آنکھوں کے علاج کے فری کیمپ کو کامیاب بنانے میں مفت دوائیوں کے لیے مالی معاونت کریں۔

نیپال کے آنکھوں کے ڈاکٹر سندوق رویت Dr Sanduk Ruit نے ایک لاکھ اپریشن کر کے لوگوں کی بینائی لوٹائی جس کی وجہ سے دنیا انہیں آنکھوں کے مسیحا ۔۔god of the sight.. کے نام سے جانتی ہے۔

آنکھوں کی بینائی سے محروم افراد دنیا کی رنگ برنگی رونقوں سے محروم ہو جاتے ہیں اور پھر ایک تاریک کائینات ان کا مقدر بن جاتی ہے۔دنیا میں اس وقت آنکھوں کی سب سے بڑی بیماری موتیا بند یا cataract کی ہے جس کی وجہ سے 90% آنکھوں کے مریض متاثر ہوتے ہیں۔

عام طور پر 65 سال کی عمر کے بعد بینائی خراب ہونے لگتی ہے اور پھر تاریکی چھا جاتی ہے اور نابینا لوگ نہ تو خود کچھ کھا پی سکتے ہیں نہ چل سکتے ہیں نہ اردگرد کی دنیا کو دیکھ سکتے ہیں اور دنیا سے کٹ کے رہ جاتے ہیں۔

موتیا بند کے اپریشن اور علاج پر دو سو ڈالر خرچہ آتا ہے جو غریب متوسط لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتا ہے ۔ڈاکٹر رویت نے ایسا انتظام کیا کہ وہ یہ اپریشن صرف تین ڈالر پر کر دیتے ہیں

یہی وجہ ہے کہ ایک لاکھ غریب لوگ ان سے استفادہ کر کے صحت یاب ہو چکے ہیں۔اس کے علاوہ غریب لوگ جو تین ڈالر نہیں دے سکتے وہ ان کا اپریشن بالکل فری کر دیتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے وہ جس گاوں یا شھر جاتے ہیں انہیں صرف ایک خالی ہال کمرے کی ضرورت پڑتی ہے جس کو وہ اپریشن تھیٹر میں تبدیل کر کے لوگوں کا علاج کرتے ہیں اور عام طور پر پانچ منٹ میں بینائی سے محروم افراد کی بینائی بحال کر دیتے ہیں۔

ڈاکٹر رویت کہتے ہیں جب میں کلینک میں کرسی پر بیٹھتا ہوں تو یہ سوچتا ہوں کہ میں صرف لوگوں کی بینائی نہیں لوٹا رہا بلکہ ان لوگوں کی زندگی بدل رہا ہوں۔

اور یہ سارا کام میں پانچ منٹ میں سرانجام دیتا ہوں۔جب مریض کی پٹی کھولتا ہوں اور اس کو دنیا نظر آتی ہے اور اس کے چہرے پر جو خوشی اور مسرت کے جذبات امڈ آتے ہیں ان سے میری تھکاوٹ ختم ہو جاتی ہے اور میں خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ بعد میں ڈاکٹر رویت نے سوچا کہ اگر میں نیپال کے لوگوں کا سستا یا مفت علاج کر سکتا ہوں تو دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگوں کو بھی یہ سھولت بہم پہنچائی جائے۔

چنانچہ نیپال کے علاوہ انہوں نے انڈیا۔ چین۔ شمالی کوریا جا کر غریب مریضوں کا علاج کیا اور روحانی خوشی حاصل کی۔ڈاکٹر رویت کہتے ہیں میری ایک پندرہ سال کی چھوٹی بہن تھی جو علاج کی کمی کی وجہ سے فوت ہو گئی اس دن سے میں نے ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا تاکہ دکھی غریب لوگوں کی مدد کر سکوں۔اور پھر جب ہم ڈاکٹر رویت جیسے لوگوں کو دیکھتے ہیں تو دنیا ہمیں بہت خوبصورت نظر آنے لگتی ہے۔

ڈاکٹر رویت کی کہانی مجھے اس لیے یاد آئی کہ ڈیرہ کے الٹرا ساونڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر اعجاز احمد جو بہت ہمدرد انسان ہیں انہوں نے آنکھوں کے علاج کا ایک فری کیمپ ڈیرہ شھر میں لگانے کا انتظام کیا ہے جس میں باہر کے ڈاکٹر علاج کریں گے۔

یہ بات مجھے ہمارے دوست زبیر بلوچ صاحب نے بتائی۔ میں سمجھتا ہوں ڈیرہ میں ہمارے پاس ایسے ڈاکٹروں کی کمی نہیں جو بڑھ چڑھ کر دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہیں ۔

کارڈیالوجی وارڈ میں ڈاکٹر اظہر شیرازی اور ڈاکٹر ریحان۔میڈیکل میں ڈاکٹر شاہ جہان دھپ ۔اس کے علاوہ ڈاکٹر عزیزاللہ کاکڑ۔ڈاکٹر امان اللہ کاکڑ۔ڈاکٹر شاہ جہان بلوچ ۔ڈاکٹر انور علی۔ سرجن وسیم اور دوسرے تمام ڈاکٹر نہایت محنت سے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔

میرا خیال ہے ڈیرہ کے صاحب حیثیت لوگ آگے آئیں اور آنکھوں کے علاج کے فری کیمپ کو کامیاب بنانے میں مفت دوائیوں کے لیے مالی معاونت کریں۔

%d bloggers like this: