جون 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رحیم یار خان کی بلدیاتی سیاست میں متوقع گروپ بندی ۔۔۔جام ایم ڈی گانگا

وطن عزیز میں ہر سطح پر سیاسی بلیک میلنگ بھی تو ایک حقیقت ہے اب سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے ایک نہ ایک دن یہ راز بھی کھل کر سامنے آ ہی جائے گا.

صوبہ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کب ہوتے ہیں. اس کی متوقع تاریخ کے بارے میں بھی یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وطن عزیز میں قانون سے زیادہ حکمرانوں کی مرضی چلتی ہے.

اگر ایسا نہ ہوتا تو سابقہ بلدیاتی الیکشن کے بعد آنے والے عوامی نمائندوں کو ان کا دورانیہ پورا کرنے دیا جاتا. وقت سے پہلے انہیں گھر بھیجنا اور پھر لمبا عرصہ سارے بنیادی جمہوری سسٹم کو ملتوی رکھ کر بیورو کریسی کے ذریعے بلدیاتی اداروں کو چلانا جمہوری حکمرانوں کے لیے بڑا سوالیہ نشان ہے.

حکمران طبقے کی اس سوچ کو جمہوریت کی نفی کا نام دیا جائے اور اس عمل کو جمہوریت کا قتل کہا جائے تو بے جاہ نہ ہو گا. بلدیاتی اداروں کے قتل پر جہموریت کے راگ الاپنے والے بڑے اور نام نہاد نمائندوں کی خاموشی ان کے مجرم ہونے یا پھر ان کے ساتھی ہونے کا ثبوت ہے.

بلدیاتی فنڈز لینے والے ایم این ایز اور ایم پی ایز صاحبان کی غالب اکثریت بھی اس سیاسی ڈاکو راج کو پسند کرتی ہے.

اسی لیے یہ حضرات نہیں بولتے. خیر اس قومی المیے پر پھر تفصیل سے لکھیں گے

نئے الیکشن کمشنر کا انتخاب عمل میں آ چکا ہے. حکمران جماعت کے قائد نے بھی اپنے لوگوں کو بلدیاتی الیکشن کی تیاری کرنے کا کہہ دیا ہے.

دوسری سیاسی پارٹیاں بھی عوام کے ساتھ اپنے رابطے بحال کرنے اور بڑھاتے ہوئے نظر آ رہی ہیں. توقع اور امید یہی ہے کہ اب مارچ اپریل میں کسی وقت بھی بلدیاتی الیکشن کروانے کی تاریخ کا اعلان کیا جا سکتا ہے.

سیاست دانوں کی قومی الیکشن کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں شادی اور غمی کی تقریبات میں شرکت پہلے سے بڑھ گئی ہے.

عوام اور سیاستدانوں میں الیکشن ہی رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ اور ضرورت ہیں. ورنہ رولر کلاس سے تعلق رکھنے والے اور لاہور اسلام آباد میں مقیم یہ دلارے بھتار گودے مخدوم وڈیرے صاحبان کے پاس اپنے پالتو چند طبالچیوں اور خوشامدیوں کو چھوڑ کر باقی عوام کے لیے کوئی ٹائم ہی نہیں ہوتا. عوام کے مسائل کے حل تو خاصی دور کی بات ہے.

رحیم یار خان کی بلدیاتی سیاست اس بار کیا رخ اور شکل و صورت اختیار کرتی ہے. جماعتوں کی سیاست، جماعتوں کے اندر گروپوں کی سیاست کیا رنگ دکھاتی ہے.

نئی سیاسی دھڑے بندیاں کیسے ترتیب پاتی ہیں. الیکشن کا اعلان ہونے کے بعد ہی اس کا پورا پتہ چل سکے گا. ایک سچ اور حقیقت تو بالکل سامنے ہے کہ ضلع کی سیاسی اسٹیٹس کے بڑے گھرانوں میں پارٹی سیاست کے مقابلے میں خاندانی سیاست کا تحفظ ہمیشہ سرفہرست رہا ہے.

کچھ ادوار ایسے بھی گزرے ہیں کہ بالائی طاقتوں کی جانب سے لانچ کیے جانے والے لوگوں کو ایڈجسٹ کرنا اور برداشت کرنا مجبوری بن جاتا ہے. ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ رحیم یار خان میں ایم این اے، ایم پی اے اور چیئرمین شپ کی سیٹیں ٹھیکے پر بھی ملتی رہی ہیں.نئے پاکستان میں ایک نیا تجربہ بھی سامنے آیا ہے کہ اب سیٹ راہکی اور جوڑے پر بھی مل سکتی ہے.

رحیم یار خان کی بلدیاتی سیاست میں حکومتی جماعت کی قیادت کون کرے گا فی الوقت اس بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا غالب امکان تو یہی ہے کہ وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار ہی ضلع کے ہیڈ ہوں گے.

مخدوم خسرو بختیار اور ان کے چھوٹے بھائی صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت پر نیب میں رجسٹرڈ کیس کی پکڑ دھکڑ اور ان کے خلاف فیصلے کی صورت میں سیاسی حالات پلٹا بھی کھا سکتے ہیں.ان کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے رئیس احسن عابد ایڈوؤکیٹ کیس کے مدعی ہیں.

آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس ہے. گوشواروں میں جائیداد چھپائے جانے کا معاملہ بھی ہے.خیر ایک لمبا عرصہ التواء در التواء کا شکار یہ کیس ایک بار پھر نیب نے اٹھا لیا ہے.

اتنے بڑے مگر مچھوں اور طاقت ور لوگوں کے خلاف مدعی بن کر کیس لڑنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے.میں اکثر سوچتا ہوں کہ رئیس احسن یا تو مجاہد ہے یا پھر پاگل. بلیک میلر اور لالچی ہوتا تو کب کی بارگینگ کر کے کروڑوں پتی بن چکا ہوتا.

بہرحال کیس کا فیصلہ میرٹ پر ہونا چاہئیے.مخدوم خسرو بختیار کنگلا تو نہیں تھا وسیع خاندانی جائیداد اور سرمایہ رکھنے والے باپ قبلہ مخدوم رکن الدین رکن عالم کا بیٹا ہے.

ہم وکیل کو بھی جھوٹا نہیں کہہ سکتے اگر ایسا ہوتا تو کیس کب کا ختم ہو چکا ہوتا. پیچ میں کچھ کالا کالا تو ہے. نیب سر اٹھاتا ہے اور اسے غیر مرئی طاقتیں پھر خاموش کرا دیتی ہیں.

وطن عزیز میں ہر سطح پر سیاسی بلیک میلنگ بھی تو ایک حقیقت ہے اب سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے ایک نہ ایک دن یہ راز بھی کھل کر سامنے آ ہی جائے گا.

پیپلز پارٹی کے صدر سرائیکستان سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود رحیم یار خان کی بلدیاتی سیاست کے ماہر اور بڑے فنکار مانے جاتے ہیں. جن کا مقابلہ سابقہ الیکشن میں چودھری محمد منیر ہدایت اللہ نے مخدوم خسرو بختیار جیسے سیاسی اداکار کے ذریعے کیا.

لیکن آخری مراحل میں انہیں بعض اندرونی سیاسی معاملات کی وجہ سے کارنر کر دیا گیا تھا.مخدوم خسرو بختیار کو سیاسی اور معاشی ٹائیگر بنانے میں یقینا چودھری منیر ہدایت اللہ اور چودھری پرویز الہی کا بڑا کردار ہے.

اب کی بار تو مخدوم خسرو کو چودھری محمد منیر کی سیاسی سرپرستی حاصل نہیں ہو گی.چودھری منیر غیر سیاسی شخصیت ہوتے ہوئے بھی رحیم یار خان کی سیاست میں بڑا اہم غیر مرئی مقام رکھتے ہیں.

اس کی ایک جھلک انہوں نے پہلی بار گذشتہ بلدیاتی الیکشن میں وج گج کے دکھا دی تھی. چودھری محمد منیر ایک وسیع اور معاشی طور پر مضبوط طبقے کے لیے روحانی حیثیت کے حامل ہیں. مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ نئے پاکستان میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں وہ خاموش رہ کر پیچھے بیٹھ کر اپنا کردار ادا کریں گے.

مجھے آنے والے بلدیاتی الیکشن میں رحیم یار خان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا سیاسی اشتراک نظر آ رہا ہے.مسلم لیگ ن کے مقامی سیاسی اہم شخصیات کی خواہش اور سوچ بھی یہی ہے. اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یقینا دونوں کے لیے بڑا فائدہ مند ثابت ہوگا.

مسلم لیگ ن کے لوگوں کے ساتھ مخدوم احمد محمود کی پرانی یادیں اور انڈرسٹینڈنگ موجود ہے. میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ دور اور ضلع کے موجودہ سیاسی حالات میں دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں. اس طریقے سے تحصیل کونسلوں اور میونسپل کمیٹیوں کے اندر بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں.

میانوالی قریشیاں کے مخادیم صاحبان کو متحد کرکے اپنے حصے کے حصول کے لیے مخدوم خسرو بختیار اور مخدوم شہاب الدین بھی اندرون خانہ باہم ایک ہو کر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیے بیٹھے ہیں.

ان حالات میں تو ایسا لگ رہا یے کہ بلدیاتی الیکشن میں پارٹی سیاست کی بجائے خاندانی اور گروہی سیاست غالب ہوگی. سابقہ الیکشن میں باہمی رنجشوں ذاتی انا اور اندرونی مخالفتوں کی سیاست کے کئی رخ اور رنگ دیکھے جا چکے ہیں.

توقع ہے کہ میانوالی قریشیاں تحصیل کونسل رحیم یار خان کے لیے اپنا مشترکہ امیدوار میدان میں لائے گی. ایسے لگتا ہے کہ مخدوم احمد محمود کے لیے آمدہ بلدیاتی الیکشن بھی ایک بڑے امتحان سے کم نہ ہوگا.

مخدوم محمد ارتضی ہاشمی مخدوم شہاب الدین اور مخدوم احمد محمود میں سے کوئی ایک گروپ پارٹی کو خیر باد کہہ سکتا ہے. میانوالی قریشیاں کے مسلم لیگی مخدوم اور اُس سائیڈ کے انصافینز مخدوم صاحبان کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا. یا اب کی بار اس اونٹ پر کون سواری کرے گا کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا.

یہ صاحبان خاصے جذباتی ہیں اپنا نفع نقصان بہت کم دیکھتے ہیں.مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی یہ استعمال ہو جاتے ہیں یا سیاسی نیکی سمجھ کر دوسروں کے لیے سیڑھی بن جانا انہیں اچھا لگتا ہے.

کیا مخدوم خسرو بختیار تحریک انصاف پر حق رکھنے والے مخدوم کو اب کی بار برداشت کرکے ایڈجسٹ کر پائے گا یا نہیں?. ویسے سنا تو یہی جا رہا ہے کہ انہوں نے بڑے کزن کے ساتھ مل کر اپنے مشترکہ امیدوار کا انتخاب اور فیصلہ کر لیا ہے.

لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ موصوف دور جدید کا کاروباری سٹے باز سیاستدان ہے.ہمیشہ اپنا نفع نقصان دیکھ کے سودا کرتا ہے. رشتے تعلق نبھا اس کے لیے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں.

ایک بات تو طے ہے وہ کامیاب سیاسی سودا گر ہے. عین حالات اور موقع کو دیکھ کر سیاسی سودے بازی ہی کرے گا. اسے ہر قسم کا مال بیچنا آتا ہے.

%d bloggers like this: