دسمبر 2019 کے آخری ہفتے میں چین کے شہر وہان میں ایک خطرناک وائرس کے شکار مریض کی تشخیص ہوئی ، دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں چینی شہری اس مرض کا شکار ہوکر اسپتال پہنچ گئے اور اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ ہلاکتیں ہوچکی ہیں ،چین سے دوسرے ملکوں کا سفر کرنے والی کچھ افراد کی وجہ سے یہ وائرس امریکہ فرانس اور آسٹریلیا سمیت پندرہ سے زائد ملکوں میں پہنچ چکا ہے،
اس وائرس سے متعلق خبریں دنیا بھر کے میڈیا میں شہہ سرخیاں بنی ہوئی ہیں، خطرناک وائرس کا شکار ہونے والوں میں چار پاکستانی طالب علم بھی شامل ہیں ، متاثرہ طلبہ کو انتہائی نگہداشت یونٹ میں رکھا گیا ہے جہاں ان کا علاج جاری ہے ، اس ساری صورتحال میں باقی پاکستانی طلبہ میں بھی خوف کی لہر دوڑ چکی ہے اور وہان یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے کچھ طلبہ نے تو ایک ویڈیو میں حکومت سے اپیل بھی کردی کہ انہیں پاکستان لانے کیلئے انتظامات کئے جائیں۔
وہان میں صورتحال کی سنگینی سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا لیکن زیادہ تر پاکستانی طلبہ اس صورتحال میں پاکستان واپس جانے کے حق میں نہیں ہیں ، طلبہ کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے بھرپور کوششیں کررہی ہے،
یونیورسٹیوں کے اندر انہیں ہر طرح کی طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں،انتظامیہ کی طرف سے ماسک بھی دئیے گئے ہیں، کھانے پینے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، احتیاط تدابیر کے تحت یونیورسٹی سے باہر جاتے اور واپس آتے وقت ٹمپریچر چیک کیا جاتا ہے ، حکومت نے وہان شہر کو بند کیا ہے تو یہ بھی بہتری کیلئے ہی ہے۔
حال ہی میں WeChat پر بننے والی پاکستانی کمیونٹی کے گروپ میں لوگ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں، زیادہ تر طلبہ اور دیگر شعبہ جات سے منسلک چین میں مقیم پاکستانی شہریوں کو چینی حکومت پر پورا یقین ہے اور ان کا یہ ماننا ہے کہ چین کی حکومت اور ادارے جلد اس مشکل صورتحال سے نکلنے کی راہ نکال لیں گے۔ان کا یہ کہنا کے دنیا بھر اور پاکستانی میڈیا میں خبروں کے باعث سنسنی پھیل چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کچھ طلبہ خوف کا شکار ہوئے ہیں۔
پاکستانی کمیونٹی کے اس گروپ میں طلبہ سپر مارکیٹس اور سٹورز کے باہر سے ویڈیوز بنا کر شیئر کررہے ہیں ،کچھ اپنے کھانے کی تصاویر بھیج کر یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ صورتحال اتنی بھی سنگین نہیں ہے جتنی میڈیا کی سرخیوں میں نظر آرہی ہے۔
پانچ سو کے لگ بھگ ممبران پر مشتمل گروپ میں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کرونا وائرس کی تشخیص اور علاج کیلئے مناسب سہولتیں موجود ہیں ؟
دوسرا سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ اگر حکومت پاکستان طلبہ کو وہان سے نکال بھی لیتی ہے اور خدانخواستہ کوئی طالب علم اس خطرناک وائرس کے ساتھ اپنے گھر پہنچ جاتا ہے تو یہ زیادہ خطرناک نہیں ہوگا؟
ظاہری سی بات ہے کہ پاکستان میں اس سطح کی سہولیات موجود نہیں ہیں جو اس وقت چین کے اسپتالوں میں فراہم کی جارہی ہیں اور اگر طلبہ کو پاکستان لانے کیلئے اقدامات کئے جائیں تو بھی یہ ایک مشکل اور طویل عمل ہوگا کیونکہ وہان کی مختلف یونیورسٹیوں میں پندرہ سو سے دوہزار پاکستانی طلبہ زیر تعلیم ہیں گوکہ زیادہ طلبہ سال نو کی چھٹیوں کے باعث واپس پاکستان آچکے ہیں لیکن پھر بھی ایک بڑی تعداد ہے جو اب بھی وہاں موجود ہے اور ہوبیی کے قریبی صوبوں کی یونیورسٹیوں میں بھی پاکستانی طلبہ کی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم ہے ۔پاکستان واپسی سے پہلے ان سب کی سکریننگ ایک طویل عمل ہوگا۔
وہان میں موجود طلبہ کی اکثریت اس مشکل وقت میں اپنے چینی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونے اور افراتفری کے ماحول کو پر سکون کرنے کیلئے کوشاں نظر آرہی ہے۔ ان کا کہنا ہے بیجنگ اور ارمچی میں پاکستان کیلئے فلائیٹ کے منتظر افراد کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ انتظامیہ ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے انتہائی اقدامات اٹھا رہی ہے،کرونا وائرس جلد ماضی کا حصہ بن جائے گا، اس لئے ہمیں اس آزمائش کی گھڑی میں نہ صرف اپنے چینی بھائیوں کی ہمت بڑھانی چاہیے بلکہ جتنا ہوسکے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی