صحافت کے شعبہ (الیکٹرانک میڈیا اخبارات وجرائد) میں چھاتہ برداروں کی طرح اُتارے گئے جماندرو تجزیہ نگاروں کے فقط دو کام ہیں،
اولاً یہ کہ ریاستی بیانیہ کے ناقدین کی حب الوطنی پر سوالات اُٹھائے جائیں
ثانیاً یہ کہ مخصوص مقاصد کیلئے تواتر کیساتھ اسقدر جھوٹ بولا جائے کہ لوگ جھوٹ کو سچ سمجھ لیں۔
مثال کے طور پر اسلام آباد کی ایک بیکری اور پھر بڑے ہوٹل کی ”بار” سے براستہ شوکت عزیز وہاشوانی سینئر تجزیہ کار کے طور پر لانچ ہوئے سابق بیکری و بار بوائے نے اگلے روز شوگر مافیا کی داستان لوٹ کھسوٹ سناتے لکھتے ہوئے چوتھائی سچ بولا، اپنے تازہ مربی جو اس پر شوکت عزیز کی طرح ہی مہربان ہیں کا دل پشوری کرنے کیلئے لکھ دیا کہ ”پچھلے کچھ عرصہ میں شریف خاندان کی4، اومنی گروپ کی9 اور زرداری خاندان کی 7شوگر ملیں بند ہوئیں،
اب سوال یہ ہے کہ سندھ میں بند ہونے والی 20شوگر ملیں کہاں کہاں قائم تھیں؟
آخر کوئی محل وقوع تو ہوگا، زمین کے اندر، فضاؤں یا قبرستانوں میں تو یہ شوگر ملیں قائم نہیں تھیں۔
شریف خاندان کی بھی چار نہیں دو ملیں بند ہوئیں اور اس کی وجہ غیرقانونی طور پر مقررہ مقام سے دوسرے ضلع میں ان کی منتقلی اور قیام تھا۔
یہ مرحلہ محترمہ مریم نواز کی صاحبزادی کی رحیم یار خان کے ایک بڑے خاندان میں رشتے کے دوران طے ہوا اور اس عمل کیخلاف جہانگیر ترین نے عدالتوں کے دروازہ پر دستک دی تھی۔
اب بنیادی معاملہ یا سوال یہ ہے کہ وہ کونسے شوگر مل مالکان ہیں جنہوں نے سال2015ء سے 2018ء کے درمیان دو مرحلوں پر پہلے 18ارب روپے اور پھر 20ارب روپے کی سبسڈی لے لی
جبکہ یہی مالکان پچھلے سترہ ماہ کے دوران چینی کی قیمت بڑھا کر عوام سے بھی 155ارب روپے ہتھیا چکے تھے؟ انہیں دو حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا۔
اولاً یہ کہ چینی کی قیمت بڑھا کر 155ارب روپے بٹورنے والوں میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سارے شوگر مل مالکان شامل تھے
البتہ دو مرحلوں میں 18اور 20ارب روپے کی سبسڈی لینے والوں میں صرف حکومتی گروپ کے مل مالکان شامل تھے۔
(یاد رہے اپنے اپنے وقت کی حکومتوں میں شامل مالکان )
دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ جب بھی شوگر مافیاں لوٹ کھسوٹ کا ذکر ہو تو نوازے گئے اور نظرانداز کئے گئے مل مالکان کو الگ الگ خانوں میں رکھا جائے۔
حال ہی میں چینی کی قیمت میں پنجاب میں 5روپے اور سندھ میں 6روپے فی کلو کا اضافہ ہوا ہے اگر ہم مان لیتے ہیں کہ اومنی گروپ کی 9 اور زرداری گروپ کی 7شوگر ملیں بند ہو چکیں تو پھر اضافی رقم کمانے والوں میں جناب ترین، ذوالفقارمرزا اور چند دیگر شخصیات شامل ہوسکتی ہیں۔
بات طویل ہوگئی اصل مقصد یہ ہے کہ چھاتہ بردار
دو سطریں حکومت کے حامی سرمایہ داروں کیخلاف لکھ کر 120سطریں حکومت مخالف سرمایہ کار سیاستدانوں کیخلاف لکھ مارتے ہیں۔
اگلے مرحلے پر حکومت کے حامی سوشل میڈیا پر مجاہدین ات اُٹھاتے ہیں،
وہ ابتدائی سطور حذف کر کے باقی ماندہ کہانی سوشل میڈیا پر اُچھالتے ہوئے ہاہاکاری مچا دیتے ہیں۔
یہاں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ پچھلے چند برسوں کے دوران چینی پر ریبیٹ حاصل کرنے والے بھی یہی شوگر مل مالکان تھے۔ 2014سے2017ء کے درمیان ان کا ایکا مثالی تھا،
تب بھی باہمی مفادات میں سب متحد تھے۔
اسی لیے تو پچھلے دور میں خیبر پختونخوا میں تعینات ایک وفاقی محکمے کے افسر کیخلاف 9مقدمات درج ہوئے تھے کیونکہ اس نے رپورٹ لکھ دی تھی کہ
”وسطہ ایشیائی ریاستوں اور افغانستان چینی بھیجی ہی نہیں گئی تو ریبیٹ کس بات پر؟”۔
یہی حالات فلور ملوں کو دی جانے والی سبسڈی کے حوالے سے ہیں۔
ملک کے تین صوبوں، خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ کی فلور ملوں کے مالکان کی سیاسی وفاداریوں کا چارٹ بنا کر دیکھ لیجئے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جب تک قانون کی حاکمیت نہیں ہوگی لوٹ مار جاری رہے گی۔
سرمایہ کار تنہا لوٹ مار نہیں کر سکتا جب تک سرکاری ملازمین اس کے ہمنوا ناہوں۔
کیا ایک وفاقی عدالتی کمیشن کم ازکم پچھلے تین چار سال کے معاملات کی تحقیق کیلئے قائم نہ کیا جائے جو2016 سے 2019ء کے درمیان شوگر ملوں اور فلورملز مالکان کو ملی سبسڈی ریبیٹ اور دوسری مراعات کی تحقیقات کرے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ ان کے کیسے کیسے مہربان اور ہمدرد ہیں؟۔
ہونا تو چاہئے مگر ہوگا کبھی نہیں۔
ہم آگے بڑھتے ہیں، سماج کے مختلف شعبوں میں پھیلی پراگندگی کا دائرہ جس طور وسیع ہورہا ہے اس سے بہت سارے سوالات جنم لے رہے ہیں
مگر اہم ترین سوال یہ ہے کہ معاشرہ جس سمت اندھادھند بھاگ رہا ہے اس کے اختتام پر مقدر بننے والی تباہی سے کیسے بچا جا سکے گا؟۔
وضاحت کیساتھ عرض کئے دیتا ہوں کہ حال ہی میں ختم ہونے والے ایک ٹی وی سیریل کے مرکزی کرداروں والے اشتہار کو لاہور کے طالبات کیلئے قائم ایک قدیم کالج کے مرد پروفیسر نے فوٹو شاپ کر کے مرکزی کرداروں کی جگہ محترمہ مریم نواز اوربلاول بھٹو کی تصویر لگا دی،
یہی نہیں بلکہ اس فوٹوشاپ پوسٹر کو انہوں نے اپنی شاگردوں کیلئے قائم سوشل میڈیا گروپ میں پوسٹ کردیا۔
اسی طرح کچھ منچلوں نے اسی ڈرامے کا ایک پوسٹر بنایا جس میں عمران خان، خاور مانیکا اور خواتین کو کرداروں کے طور پر دیکھا گیا۔
دونوں پوسٹر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے
سوشل میڈیا کی بے لگامی کے ہم سب شاکی ہیں، کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ انور خان کے پیچھے کون ہے اور فرح دیبا کے پیچھے کونسا اکرم پہلوان ہے
لیکن ایک معروف کالج کے پروفیسر نے جو فوٹوشاپ تیار کر کے وائرل کیا اس نے سوالات اُٹھا دیئے۔
کیا ایک استاد کو یہ زیب دیتا تھا؟
اور کیا استاد نے یہ نہیں سوچا کہ اپنی طالبات کے گروپ میں اس فوٹوشاپ پوسڑ کو شیئر کر کے وہ علم و تربیت کی کتنی خدمت کر رہے ہیں؟
اخلاقی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑے سماج کا کچھ نہیں ہوسکتا بدقسمتی یہ ہے کہ تحریک انصاف کے حامی بھی اب اسی راستے پر چل رہے ہیں جو کبھی نون لیگ کیلئے مقدس راستہ تھا۔
اس سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اب اخلاق باختگی میں سبھی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کیلئے بھاگ رہے ہیں،
جیالے، متوالے، نونی، ٹائیگرز اور مذہبی اصلاح پسند سبھی اپنی فہم اور تربیت کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔
یہ صورتحال افسوسناک سے زیادہ شرمناک ہے اس کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر