جس دن پاکستان کی یونیورسٹیاں دنیا کی ٹاپ 50 میں آ جائیں گی اس دن پاکستان سے غربت بھی ختم ہو جائے گی اور بے روزگاری بھی معاشی مصبوطی کے لیے تعلیمی ادارے بہت ضروری ہیں وسائل کا استعمال تعلیم اور صحت پر استعمال کریں۔
ترجیحات تبدیل کریں اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ملک میں اسلحہ اور بارود کو جمع کریں بلکہ اپنی عوام کے لیے اقدامات کریں جس سے وہ خوشحال ہوگے تو ریاست ترقی کرے گی ہم آج بھی بہت پیچھے ہیں دنیا بہت اگے چلی گئی ہے سوئزرلینڈ کی ترقی کا راز کیا ہے ؟ کبھی دیکھا ہے کہ چاپان نے ایٹم بم کا حملہ کھا کر بھی ایٹم بم اور ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
آج جاپان کی معیشت دنیا کے ٹاپ ممالک میں شمار ہوتی ہے۔ چین نے جدید اسلحہ کی فیکٹریاں بنائی ہیں اور اس میں بنائی جانے والی اسلحہ دوسرے ممالک میں فروخت کر کے ذرمبادلہ کما رہے ہیں اس کے باوجود بھی چین کی ترجیحات مصبوط معیشت ہی ہے جس ملک میں بھی چین نے سرمایہ کاری کی ہے وہاں اپنے ملک کی لیبر کو ضرور استمعال کیا ہے۔
ہمارے ملک کی یہ صورت حال ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ہمارے وزیر اعظم صاحب ملائشیا اس لیے نہیں گئے کہ سعودی عرب نے 40 لاکھ پاکستانی مزدوروں کے ملک سے نکالنے کی دھمکی دی تھی ۔
کیا ہمارے ملک کے یہ 40 لاکھ افراد سعودی عرب میں شوق سے رہتے ہیں اپنے گھر سے ہزاروں میل اپنی اولاد سے دور خوشی سے رہتے ہیں؟ کیا ان کو اپنے ملک میں اگر مزدوری مل جاتی تو وہ وہ پردیس میں کیوں رہتے ؟ اگر ایسی دھمکی امریکہ یا برطانیہ ہماری حکومت کو دے کہ فلاں کام کرو ورنہ لاکھوں پاکستانی جو کہ اپنی فیملی سمیت کئی سالوں سے ان دو ممالک میں رہائش پزیر ہیں ان کو نکال دیں گے تو پھر حکومت کیا کرے گی؟ چین جیسا ملک بھی اسلحہ بنا کر اس کو بھی فروخت کرنے کے لیے ہی بنا رہا ہے ناں کہ استعمال کرنے کے لیے۔
ہمارے ملک میں نہ تو انٹرنیشل سٹنڈر کا کوئی ہسپتال ہے نہ ہی تعلیمی ادارہ جو تعلیمی ادارے ہیں یا ہسپتالیں تو ان کے نام سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ کب بنائے گئے ہیں ایچی سن کالج ہو یا کنک ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی یا سرگنگا رام سب کی سب پاکستان سے پہلے کی تعمیر شدہ ادارے ہیں ہم نے پاکستان کے قیام کے بعد کیا کیا کام کیا ہے سوائے سیاست دانوں کو چور کہنے مارشل لاء کے دوران ملٹری ڈکیٹیٹر کے خلاف مہم جوئی کی ہیں جب کہ پچھلے کئی سالوں سے سابقہ حکومتوں کے خلاف باتیں کرنے کے کچھ بھی نہیں کیا۔
ہم نے ماضی کے کیا سبق حاصل کیا ہے ؟ 1971 میں ہم سے ڈھاکہ جدا ہو گیا ہم نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ملک اس وقت اربوں ڈالرز کا مقروض ہو چکا ہے ہرپیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ تیس ہزار کا مقروض ہو کر اس دنیا میں آتا ہے اور یہ سلسلہ روزبروز بڑھ رہا ہے۔ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر لوگ خودکشیاں کررہے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ ابادی میں اضافہ کی شرح سے دیکھیں تو 2030 میں یہ آبادی تقریبا دوگنی ہو جائے گی تو کیا اس آبادی کے سیلاب کو کنٹرول کرنے کا کوئی منصوبہ موجودہ حکومت کے پاس ہے؟ کیا اتنی آبادی کے لیے کتنے ہسپتال ، سکول، کالجز اور یونیورسٹیوں کی ضرورت ہو گی؟ کبھی معاشی منصوبہ ساز اداروں نے اتنی آبادی کی غذائی ضروریات کے لیے ابھی سے کچھ عملی اقدامات اٹھائے ہیں؟ جب کہ اس وقت ملک بھر میں آٹا کا شدید بحران چل رہا ہے جب کہ مستقبل کے بارے میں کوئی پلان نہیں ہے ۔
کب تک ایسا سسٹم چلے گا کب تک ہم ایک دوسرے پر کیچڑے اچھالتے رہیں گے؟ کیا سارے پاکستان کے لوگ غدار ہیں کیا ملک کا کسی کو احساس نہیں ہے یہ منفی پراپگنڈے بند کرنے چائیے۔ ملک کے تمام ادارے مل بیٹھ کر ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دیں کہ ہر ادارہ اپنی اپنی ریاستی ذمہ داریوں پوری کرے ناں کہ دوسرے اداروں کے معاملات میں دخل اندازی کرتا رہے ۔ کب تک غیر ملکی قرض کے ونٹلیڑ پر سانس لیتا رہے گا ملک کی سرحد مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اندرونی مشکلات پر بھی بھرپور توجہ دینی چائیے جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے اقدامات کرنے چائیے۔
برطانیہ کے لوگوں کے پاکستان میں آنے سے کوئی خوشحالی نہیں آئے گی ملکی معیشت سے ہی دنیا کے لوگ آئیں گے آپ پاکستان میں بین الاقوامی لیول کے ہسپتال بنائیں یونیورسٹیاں قائم کریں دنیا یہاں صحت اور تعلیم کی خاطر آئے گی اور ایسے اقدامات سے سرمایہ کاری بھی آئے گی۔
یہاں سوفٹ وئیر اور موبائل کمیونیکیشن کی فیکٹری تعمیر کریں تو بل گیٹس جیسے لوگ بھی ڈالرز کی بارش کردیں گے لیکن اس کے لیے حقیقی اور سچی نیت کی ضرورت ہے مزائیل ٹکنالوجی ہو یا کوئی اور ٹیکنالوجی اس کو معاشی طور پر زرمبادلہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں۔ آبادی کے اس بم کو کنٹرول کرنے کے لیے ملکی معیشت کی مضبوطی نہایت ضروری ورنہ ایسے ہی مقروض اور غیروں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی