فلم، ڈرامہ اور تھیٹر کسی بھی معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں ۔ بدقسمتی سے اس معاملے میں بھی ہمارا بیڑا غرق ہے۔ تھیٹر کا نام سن کر عزت دار انسان کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں. تھیٹر پر معاشرے کی ستائی عورتوں کا مجرا دیکھ کر وحشی جنسی جذبات کی تسکین کرنے کے بعد ہم گھر جا کر بیوی کا فون لازمی چیک کرتے ہیں کہیں وہ کسی کے ساتھ فحش حرکات میں ملوث نا ہو۔
ڈرامہ اور فلم پر بھی فوجی ٹولے کا قبضہ ہے جس میں اسلحہ اور خدا کے فوجی دنیا کے ہر کافر پر بھاری دکھائے جاتے ہیں۔
جو کسر رہ گئی وہ خلیل الرحمن قمر جیسے جماعتی کلین شیو ملا برانڈ ڈرامے پوری کرتے ہیں جس میں عورت کی بے وفائی کا داغ زندگی بھر کے لیے اس کے جسم پر آویزاں کرکے اسے گھٹیا ترین بنایا جاتا ہے۔ جب یہی حرکات مرد کرے تو کوئی بات نہیں وہ تو باہر منہ مارتا ہی رہتا ہے ۔
اس گھٹن زدہ معاشرے میں جہاں روز چائلڈ ریپ کی خبریں سن سن کر ہم جیسے حساس لوگوں کا دماغ سن ہوجاتا ہے۔ جہاں کسی کو بھی گستاخ بنا کر منٹوں میں اس کا قتل جسٹیفائی کردیا جاتا ہے۔ ایسا ماحول جہاں آئے روز گستاخی اور مولوی کے ہاتھوں معصوم بچوں کے ریپ کی خبریں آتی رہتی ہیں وہاں پر سرمد سلطان کھوسٹ نے ہمت کرکے آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو ہم نے اس کا آئینہ ہی توڑنا چاہا۔
چائلڈ ریپ ہوتے رہیں ، گستاخی کے نام پر معصوم لوگ قتل ہوتے رہیں، یہ ملک اقلیتوں کا اجتماعی قبرستان بنتا رہے۔ بوٹوں تلے ہمارے محبوب رہنما کچلے جاتے رہیں ۔ ووٹ کے نام پر ہمارے ہی ساتھ بدترین کھلواڑ کیا جاتا رہے ۔ ہمارے خوبصورت اذہان لاپتہ ہوتے رہیں ۔ مگر ہمیں آئینہ نہیں دیکھنا۔
ہمیں تو اپنی فلموں میں ایک رقص کرتی حسینہ دیکھنی ہے اور اس کے رقص سے پریشان کشمیری مجاہد جو جاکر سرینگر میں 50 ہندوستانی فوجی پھڑکا دے۔
ہمیں دیکھنا ہے تو گاؤں کا ایسا نوجوان جو جاکر چوہدری اور اس کے بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتارے اور پھر سارے تالیاں بجائیں ۔
ہمیں دیکھنا ہے تو ایسا کردار جو جاکر گندے سیاستدانوں کو گھسیٹے ان کو جوتے مارے اور آخر میں ملک دشمنی پر ان کو موت کے گھاٹ اتار دے۔
ہندوستان سمیت ساری دنیا اپنے عوامی رہنماؤں کی زندگی پر فلمیں بناتی ہے ۔ مگر ہم کس طرح بنائیں گے ؟
بھٹو پر ؟ ارے نہیں اس سے تو ہمارا وقار مجروح ہوگا۔ فاطمہ جناح پر ؟ نہیں وہ تو فیلڈ مارشل صاحب کے خلاف الیکشن لڑ کر غدار بن بیٹھیں تھیں. محترمہ شہید پر ؟ نہیں وہ تو سیکیورٹی رسک تھیں ۔
ہمیں بس فلموں میں کشمیر فتح ہوتا دیکھنا ہے۔ بھارت کے ٹکڑے دیکھنے ہیں۔ گاؤں کے چوہدری کا قتل دیکھنا ہے۔ سیاستدانوں کی موت دیکھنی ہے۔ عورت کی بے وفائی کا انجام دیکھنا ہے۔
معاف کرنا سرمد ہم آئینہ نہیں دیکھ سکتے ہم مجرا دیکھنے والی قوم ہیں۔ اپنے مسائل کا مجرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر