جمہوریت میں بلدیاتی نظام کو عوامی راج کا پہلا قدم سمجھا جاتا ہے ۔ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی ایسے بلدیاتی نظام سے محروم ہے جو پانی ، سیوریج اور صفائی جیسے بنیادی مسائل حل کرسکے ۔۔ وجوہات کیا ہیں ۔۔
یوں تو بلدیہ عظمیٰ کراچی کی تاریخ انگریز راج سے شروع ہوتی ہے لیکن دو ہزار ایک سے دو ہزار دس تک کراچی کو نسبتا جدید بلدیاتی نظام کے تحت ترقی دینے کی کوشش کی گئی۔
شہر کو اٹھارہ ٹاؤنز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ناظم کراچی کے ایم سی ،کے ڈی اے، واٹر بورڈ کے عملی سربراہ تھے اور ٹاؤن ناظمین کو اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام سے صفائی تک کرانے کے اختیارات حاصل تھے ۔
یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کو وقت کی اہم ضرورت سمجھتے ہیں
موجودہ بلدیاتی نظام میں واٹر بورڈ ، کے ڈی اے ، ایس بی سی اے اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ جیسے بلدیاتی ادارے سندھ حکومت کے ماتحت ہیں ۔۔ پیپلز پارٹی کے رہنماء سعید غنی ماضی کے بلدیاتی نظام کو کرپشن کی وجہ سے رد کرتے ہیں ۔۔
موجودہ بلدیاتی نظام میں شہر کوضلعی حکومت اور کے ایم سی میں تقسیم کیا گیا ہے۔۔ سندھ حکومت ضلعی ٹیکس سے ضلعی حکومت اور کے ایم سی کو فنڈز فراہم کرتی ہے ۔۔
سیاسی مفادات کے حصول اور اختیارت کی کھینچا تانی نے کراچی جیسے شہر کو مسائل کے دلدل میں دکھیل دیا ہے رہی ووٹ دینے والی عوام تو ان کے لئے ماضی میں دعویٰ تھے اور حال میں وعدے ہیں ۔
اے وی پڑھو
ضلع کورنگی میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو مشکلات کا سامنا ہے،مرتضی وہاب
کراچی میں مرغی کا گوشت گائے کے گوشت سے مہنگا ہو گیا
سمندری طوفان نے بھارت میں تباہی مچا دی، پاکستان میں شدت میں کمی