جون 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تشہیر کی ذلت ، نظامِ زر کا تعفن ،انسانیت کی توہین ، یہ سب نہیں رہیگا

اسی طرح سرمایہ داری جب اپنے کلاسیکل کردار / مشین اور ایجادات کے عروج پر تھی تو تشہیر بھی کسی بڑے کارنامے کی ہوتی تھی

تشہیر کی ذلت ۔۔۔۔ نظامِ زر کا تعفن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسانیت کی توہین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب نہیں رہیگا ۔۔۔۔۔۔۔

ہم آج کے عہد میں جس نظام میں رہ رہے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کا عہد ہے۔ بلکہ اس نظام کی اپنے ہاتھوں خود کشی کا عہد ہے۔۔۔ انسان نے اپنی زندگی کے مدارج اور سفر میں اب تک جتنے بھی ادوار دیکھے ہیں ان میں سب سے بہترین دور قدیم اشتراکیت کا دور رہا ہے۔ جب انسان ابھی طبقوں میں نہیں بٹا تھا۔ انسانی آبادی محدود تھی تو انسانی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے وسائل لا محدود۔ سو میری تیری کا نہ کوئی خیال تھا اور نہ کوئی لڑائی جھگڑا۔ سینکڑوں ہزاروں سالوں کے بعد انسانی زندگی طبقات میں تقسیم ہوئی۔ جسے غلام داری، جاگیرداری اور اب سرمایہ داری کہا جاتا ہے۔۔۔

انسانی سماج کے ہر عہد نے اس وقت کے مرتے عہد کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ اس طور انسانی تاریخ کا مرتا ہوا سماج تھا یا ابھرتا ہوا سماج، اس کی اپنی اپنی قدریں رہی ہیں۔ جنہیں عروج و زوال کی قدریں کہا جاتا ہے۔ آج ہم سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کے گل سڑ کر تعفن دیتے ہوئے سماج میں رہ رہے ہیں۔ نتیجۃً اس کی ہر قدر، ہر رِیت ،رسم و رواج، ہر تعلق، ہر رشتہ ، ہر نیکی اور ہر جذبہ تعفن زدہ ہو کر رہ گیا ہے۔ یہاں تک کہ تشہیر کے ذرائع بھی۔ تشہیر/ مشہوری نظامِ سرمایہ کی بنیادی ضرورت رہی ہے۔ کیونکہ سرمایہ داری کی سادہ تعریف اور نام منڈی کی معیشت ہے۔ منڈی میں ہر چیز بکنے کو جاتی ہے تو سرمایہ داری میں کوئی بھی چیز ہو وہ انسان کی ضرورت کیلئے نہیں ہوتی۔ بلکہ اس ضرورت کے دام وصول کرنے کیلئے تیار کی جاتی ہے۔ سو اس نظام میں تیار اور ایجاد ہونیوالی ہر چیز کا زیادہ سے زیادہ منافع بلکہ منافع در منافع کمانے کیلئے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔ تشہیر یا مشہوری اسی ضرورت کی تکمیل کا نام اور اوزار ہے۔۔۔۔۔

اس نظامِ سرمایہ میں جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ ہر جذبہ ہر احساس اور ہر نیکی بِکاؤ ہوتی ہے تو اس جذبے اس احساس اور اس نیکی کی تشہیر ضروری ہو جاتی ہے۔۔۔۔ جب تک انسانی سماج کو سرمائے کی خباثت کے خونی پنجوں نے اپنی گرفت میں نہیں لیا تھا۔ تب کسی بھلائی کرنے پر کہا جاتا تھا کہ "نیکی کر دریا میں ڈال”۔۔ ا”یک ہاتھ دے تو دوسرے کو پتہ نہ چلے”۔ ضرورت مند ضرورت رات کے اندھیرے میں پوری کرو تاکہ ضرورت مند کو شرمندگی نہ ہو”۔ یا پھر کنگن کو آر سی کیا؟ (کنگن جو دکھائی دے رہے ہیں کسی شیشے کے محتاج نہیں) ۔۔۔۔۔

اسی طرح سرمایہ داری جب اپنے کلاسیکل کردار / مشین اور ایجادات کے عروج پر تھی تو تشہیر بھی کسی بڑے کارنامے کی ہوتی تھی۔ جیسے کسی بڑے دریا پر بہت بڑے ڈیم اور بیراج کی تعمیر۔ کسی صحرا کی سیرابی کیلئے نہر کی کھدائی۔ ریلوے گذارنے کیلئے کسی پہاڑ میں لمبی سرنگ۔ فضا میں جانے کیلئے کسی جہاز یا سمندروں کی تہہ کھنگالنے کیلئے آبدوزوں کی ایجاد۔ زمینوں پہ فصلیں اگانے یا سڑکیں بنانے کیلئے مشینری کی تیاری وغیرہ۔ تب شاید ان کے نزدیک منصوبوں کے افتتاح کرنے اور اپنے نام کی تختیاں نصب کرنے کوئی جواز بھی بنتے تھے۔۔۔۔۔
اور آج جب یہ نظام اس نظام کے گماشتے، اس نظام کے تحت حکمرانی کرنے والے خود اور ان کی قدریں گراوٹ کا شکار ہیں تو ان کی نیکیاں اور بھلائیاں سبھی متعفن ہی نہیں بلکہ ان کی قدریں بھی انتہائی گھٹیا، بیہودہ اور بھونڈی ہیں۔۔۔۔۔

جیسے ہسپتال میں داخل مریض کی عیادت کرتے ہوئے یا چند دوائیوں کا شاپر دیتے ہوئے، بھوکے اور ضرورت مند کو آٹے کا تھیلا دان کرتے ہوئے، کسی دیہات میں پانی کا نلکا نصب کرتے ہوئے، شہر کے کسی وارڈ میں بجلی کا مرمت شدہ ٹرانسفارمر لگاتے ہوئے، کسی ٹوٹے ہوئے پُل پر لوہے کے سرئیے کا جنگلہ لگاتے ہوئے، سالہا سال سے ادھڑی منہ چڑاتی کسی رابطہ سڑک کا اخبار میں لگا ٹینڈر دکھاتے ہوئے ، کسی سڑک کے کنارے لیٹرین تعمیر کراکے، کسی شہر میں بند گٹر لائن کھلواتے ہوئے، یا کسی ابلتے گٹر کے مین ہول پر ڈھکن لگاتے ہوئے یا پھر انڈے مرغی کے ذریعہ سدھار کے کسی منصوبے کی مرغیاں عنایت کرتے ہوئے اور وہ بھی سہرے سجا کر پھولوں کے ہار پہن کر اور اپنے جیسے پست و کِرم زدہ ذہنیت کے حامل لوگوں کے ہجوم اور جھرمٹ میں تصاویر بنوا کر فخریہ تشہیر کی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظامِ زر کے ان سب خبیثوں کی یہ خباثتیں اور ذلتیں انسانوں ، انسانیت کے اعلیٰ میعار اور معتبر قدروں کی توہین ہیں۔ انسانی توہین و ذلت کے ایسے ہر اظہار ، ایسے اظہار کی ان قدروں، ان قدروں کے تمام مالکان اس طبقاتی نظامِ زر کے گماشتہ حکمران طبقے کا مٹ جانا اور ان سب کو مٹا دیا جانا آج کے وقت کا تقاضا ہے۔۔۔۔

عظیم انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی کی اس آس کے ساتھ کہ "یہ صبح کبھی تو آئیگی "۔۔۔۔ اور پھر ساحر کے ہی اس یقین کیساتھ کہ ” یہ صبح ہمیں سے آئیگی”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا یہ عزم رہا کہ
کالی رات جاوے ای جاوے
سرخ سویرا آوے ای آوے ۔۔۔۔

%d bloggers like this: