پاکستان ایک دلچسپ ملک ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک کابینہ کی کمیٹی برائے اقتصادی امور میں سمریاں لائی جارہی تھیں کہ ہمارے پاس بہت زیادہ گندم ہوگئی ہے‘ لہٰذا ہمیں ایکسپورٹ کرنے دیں اور سبسڈی بھی دی جائے۔ اب اچانک بتایا جارہا ہے کہ گندم کی قلت ہوگئی ہے‘ لہٰذا تین لاکھ ٹن گندم اب کروڑوں ڈالرز خرچ کر کے باہر سے منگوائی جائے گی۔
شوکت عزیز وزیراعظم تھے تو اس وقت وزارتِ زراعت ایک سمری لے کر کابینہ گئی کہ کسانوں کا برا حال ہے‘ دیہاتوں میں غربت ناچ رہی ہے‘ کسان کا خرچہ پورا نہیں ہورہا ‘لہٰذا گندم کی سرکاری قیمت میں پچیس روپے فی من اضافہ کر دیا جائے‘ ورنہ اگلے سال گندم کی کاشت کم ہوگی۔ اس وقت شیخ رشید بھی وزیر تھے‘ انہوں نے رولا ڈال دیا کہ اس سے شہروں میں آٹے کی قیمت بڑھ جائے گی اور ہمارے ووٹ خراب ہوں گے۔ شوکت عزیز اور ان کی کابینہ نے پچیس روپے قیمت نہ بڑھائی‘ اگلے سال کم قیمت کا سن کرکسانوں نے گندم کم کاشت کی اور اگلے سال ایک ارب ڈالرز سے زیادہ کی گندم آسٹریلیا‘ کینیڈا اور امریکہ کے کسانوں سے نقد پر منگوائی گئی۔ اندازہ کریں اپنے کسان کو پچیس روپے نہیں دئیے‘ لیکن فارن کسانوں کو اربوں روپے ادا کیے۔ ہمیں اچھا لگے یا برُا 2008ء میں پیپلز پارٹی جب اقتدار میں آئی تو زرداری اور گیلانی نے گندم کی قیمت بڑھا دی‘ جس کے بعد اتنی گندم پیدا ہوئی کہ پاکستان کے پاس گندم رکھنے کو جگہ نہ تھی۔ اب وہی ہوا ہے کہ گندم کی سرکاری قیمت زیادہ نہیں بڑھائی گئی‘ جس سے کسان بددل ہورہا ہے‘ لیکن اب گندم شارٹ ہونے کی وجہ سے تین لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوائی جائے گی ۔اپنے کسان کو زیادہ روپے نہیں دینے‘ لیکن آسٹریلیااور کینیڈا وغیرہ کے کسانوں کو ڈالروں میں ادائیگی کریں گے۔
کسان کے پاس کیش کراپس دو تین ہیں‘ جن میں کاٹن‘ گنا اور گندم شامل ہیں۔ وہ اپنے سارے اخراجات سارا سال ان پر محنت کر کے پورے کرتے ہیں۔ ان کو پٹرول‘ ڈیزل اور کھاد پر جی ایس ٹی بھی دینا پڑتا ہے اور ہر شے کی قیمت ہرہفتے بڑھ جاتی ہے ‘لیکن سبزی یا گندم کی قیمت بڑھ جائے تو پورا میڈیا چیخ اٹھتا ہے‘ میڈیا کبھی کسانوں کی بات نہیں کرتا‘ کیونکہ کسان ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ۔ ابھی سن لیں کسانوں کے ساتھ کیا کھلواڑ کھیلا جارہا ہے۔
14 جنوری کو کابینہ کا جو اجلاس ہوا اس میں چند وزرا نے حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی‘ اور تو اور وزیراعظم عمران خان بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ شوگر ملز والے مافیا بن چکے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ شوگر ملز والے دراصل ایک Capture Elite کا حصہ بن چکے ہیں۔ جن وزیروں نے کاٹن کے کسانوں کی آواز اٹھائی اور وزیراعظم کو اجلاس میں بتایا کہ جناب اس طرح کا ظلم مت ہونے دیں ان میں فواد چوہدری‘ اسد عمر‘ فخر امام‘ خسرو بختیار اور ندیم افضل چن شامل تھے۔ یہ معاملہ کابینہ تک کیسے پہنچا؟ دراصل تیس دسمبر کو حفیظ شیخ نے ای سی سی کا اجلاس بلایا‘جس میں وزارت ِکامرس نے ایک سمری پیش کی‘ جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان کو زیرو ڈیوٹی پر کاٹن سینٹرل ایشیا سے افغانستان کے راستے امپورٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس پر وزارت ِزراعت نے اعتراض کیا کہ اس سے مقامی کاٹن کسان مارا جائے گا‘ کیونکہ ابھی ان کی کاٹن بیلز جنرز کے پاس آنی باقی ہیں‘ اگر زیرو ڈیوٹی پر کاٹن امپورٹ کی اجازت دی گئی تو کاٹن کی قیمتیں گر جائیں گی اور کسان کو نقصان ہوگا۔ ایف بی آر نے بھی اجلاس کو بتایا کہ زیرو ڈیوٹی سے چار ارب روپے کا نقصان ہوگا‘ تاہم وزارتِ کامرس کا کہنا تھا کہ ہر سال کاٹن کی پیداوار کم ہورہی ہے اور 2007ء سے ہر سال کاٹن باہر سے منگوائی جارہی ہے۔ وزارتِ کامرس کا کہنا تھا کہ کاٹن کی جو کوالٹی ایکسپورٹر کو چاہیے ‘وہ مقامی طور پر دستیاب نہیں‘ اس پر وزارتِ زراعت کے افسران کا کہنا تھا کہ یہ ساری کاٹن ایکسپورٹ کے لیے نہیں منگوائی جاتی‘ بلکہ بہت سے ایسے یونٹس بھی ہیں ‘جو مقامی طور پر پیداوار بیچتے ہیں۔ ذرائع کہتے ہیں کہ اس اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان کی کاٹن پیداور2007-8 ء میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ بیلز تھیں جو 2018ء میں صرف ایک کروڑ رہ گئی ہیں‘ لہٰذا ہر سال اب آپ کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے باہر سے کاٹن منگوانی پڑے گی‘ ورنہ لوکل انڈسٹری کو نقصان ہوگا اور ایکسپورٹ کم ہوگی۔ یوں حفیظ شیخ نے وزارتِ زراعت اور ایف بی آر کے اعتراضات کے باوجود کسانوں کے مفادات کے خلاف زیرو ڈیوٹی پر کاٹن طورخم سے امپورٹ کرنے کی اجازت دے دی۔ اس اجلاس میں وفاقی وزیرخسرو بختیار نے رولا ڈالاکہ یہ مت کریں ‘اس سے کسان کو نقصان ہوگا‘ تاہم خسرو بختیار کی آواز نہ سنی گی۔ جیسے شوکت عزیز نے گندم کی پچیس روپے قیمت بڑھانے سے انکار کر دیا تھا اور بعد میں ایک ارب ڈالرز سے زائد گندم آسٹریلیا کے کسانوں سے منگوالی تھی ‘اس طرح حفیظ شیخ نے بھی کسانوں کا فائدہ نہ سوچا ۔ اب جب 14 جنوری کو کابینہ اجلاس میں ای سی سی کے منٹس منظوری کیلئے پیش ہوئے تو اس پر چند وزرا نے رولا ڈال دیا۔ ذرائع کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ رولا ندیم افضل چن نے ڈالا ‘جو ہمیشہ کسانوں کے لیے لڑتے رہتے ہیں۔ ان کا ساتھ فواد چوہدری نے دیا اور پھر فخر امام اور اسد عمر نے بھی حمایت کی۔ اب سوال یہ ہے کہ کاٹن کا رقبہ کیسے کم ہوگیا اور پاکستان جو دنیا بھر کو کاٹن بیچ کر ڈالرز کماتا تھا‘ و ہ اب کیسے خود ایک ارب ڈالرز سے زائد کی کاٹن غیر ملکی کسانوں سے منگوا رہا ہے؟
پاکستان میں پیسہ کمانے کا سب سے بڑا طریقہ ایلیٹ نے یہ نکالا کہ شوگر ملز لگا کر مال کمایا جائے‘ اگر اس مائنڈ سیٹ کو سمجھنا ہے تو عابدہ حسین کی کتاب Power Failure پڑھیں‘ جس میں وہ لکھتی ہیں کہ نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو وہ جھنگ آئے اور انہیں کہا کہ آپ یہاں ایک شوگر مل کیوں نہیں لگا لیتیں؟ بعد میں خود اپنے خاندان کی مل وہاں لگا لی۔ اب ہوا یہ کہ کاٹن ایریاز میں شوگر ملز لگنا شروع ہوگئیں۔ پہلے کاٹن زوننگ کے تحت سرائیکی علاقوں میں شوگر ملز نہیں لگ سکتی تھیں‘ تاہم شریفوں نے ان قوانین کو بدل دیا اور دھڑا دھڑ وہاں ملیں لگنا شروع ہوگئیں۔ کسانوں کو گنے کی کاشت کی طرف لانے کے لیے ملوںنے ایڈوانس پیسے دینے شروع کردیے اور یوں کاٹن کا رقبہ کم ہونا شروع ہوگیا اور کاٹن کی پیداوار کم ہونے لگی۔ اب پاکستانی شوگر ملز‘ جو مہنگی شوگر پیدا کررہی تھیں‘ انہوں نے حکومت پر دبائو ڈالا کہ ہمیں چینی باہر بھیجنے کے لیے سبسڈی دی جائے۔ پہلی بڑی سبسڈی جو چار ارب روپے کے قریب تھی ‘ نواز شریف کے دوسرے دور میں دی گئی جب بھارت چینی بھیجی گئی۔ اس کے بعد شوگر ملز مالکان کے منہ کو لہو لگ گیا ‘ وہ ہر دفعہ کسانوں کا پیسہ روک کر حکومت کے پاس پہنچ جاتے کہ ہم سے چینی خریدو‘ ورنہ ہم ادائیگیاں نہیں کریں گے۔ آپ پچھلے بیس برس سے دیکھ لیں ان شوگر ملز مالکان نے ہر دفعہ اربوں روپے کی سبسڈی جیب میں ڈال لی اور کسانوں کو پیسے بھی نہیں دئیے۔ ہر حکومت نے شوگر ملز کو اربوں کھلائے ‘کیونکہ سب کی اپنی اپنی ملیں تھیں۔تمام سیاسی پارٹیاں اس معاملے پر اکٹھی ہیں کہ کسانوں کو شوگر کین پر لوٹا جائے‘ شروع میں یہ کام نواز شریف نے کیا‘ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کی بھی اپنی ملیں ہیں ۔ بعد میں یہ کام چوہدریوں نے شروع کیا اور جب زرداری نے دیکھا کہ اس کھیل میں بہت پیسہ ہے تو اس نے سندھ کی ملیں اپنی جیب میں ڈال لیں اور پولیس کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ کسانوں سے زبردستی گنا لے کر ان کی ملوں کو فراہم کریں۔ یوں پنجاب سے سندھ اور خیبرپختونخوا تک سب سیاستدانوں نے شوگر ملز لگالیں اور کسی نے نہ سوچا کہ کاٹن ایریاز ختم ہوتے جائیں گے۔
اب عمران خان کابینہ اجلاس میں خسرو بختیار کے منہ پر کہہ رہے تھے کہ شوگر ملز ایک مافیا بن چکے ہیں اور یہ ایلیٹ کا کھیل ہے ‘جس میں پیسہ کمایا جارہا ہے۔ اب حالت یہ ہوچکی ہے ‘جس ایلیٹ کی وجہ سے کسان برباد ہورہا ہے‘ وہی اب اقتدار میں بیٹھ کر انہیں تسلیاں دے رہے ہیں۔ کسان لٹ رہا ہے اور ٹیکسٹائل اور شوگر ملز مالکان اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ کوئی بھی فیصلہ کرالیں۔
چلیں‘ زرداری صاحب اور شریف برادران کی تو اپنی شوگر ملز ہیں‘ لیکن وزیر اعظم عمران خان کیوں اتنے کمزور پڑ رہے ہیں؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ