نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی ادبی اکیڈمی کے زیر اہتمام نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں "خواجہ فرید سرائیکی کانفرنس” کا انعقاد

دھرتی سے جڑت انسانوں کو قریب کرتی ہے اور یہ رویہ تعصب اور پست ذہنیت کو جڑ سے اکھیڑ دیتا ہےسرائی

کیا حال سُناواں دل دا

محمد شاہد دھریجہ

دھرتی سے جڑت انسانوں کو قریب کرتی ہے اور یہ رویہ تعصب اور پست ذہنیت کو جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کے اس عہد میں نہ صرف ہمیں بلکہ نفرت اور خوف میں لتھڑی اس پوری کائنات کو ایسی ہی فکر کی ضرورت ہے جو احترام آدمیت کو مستحکم بنیا د فراہم کرے گی۔

ثقافتی اور تہذیبی حوالے اور تخلیقی رنگ جب تک قوموں کی شناخت کے حوالے سے رہتے ہیں تب تک قومیں باوقار اور پر امن رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں جس تخلیقیت اور اجتماعیت کا خلا پیدا ہوا ہے وہ بنیادی طور پر نظریاتی بانجھ پن کی وجہ سے ہوا ہے۔

ہر دور کی مہذب دینا ہمیشہ اپنے تہذیبی ورثے سے جڑی ہوتی ہے ہمارے ہاں المیہ یہ ہوا ہے کہ ہم نے کبھی اپنے تہذیبی ورثے کو اپنے من میں سمویا ہی نہیں ، خواجہ سئیں یا ان کے قبیل کی دیگر شخصیات کے ہاں جگہ جگہ تحفظ اور پیار کے درس موجو د ہیں

مگر ہم نے کسی اور جہاں میں اپنی پناہ ڈھونڈی ہے۔ آج تہذیبوں کے تصادم کے فلسفے کے پیچھے جو عفریت چھپا بیٹھا ہے اس کا فکر فرید سے قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔

برصغیر کے عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید کی فکر کو عام کرنے کے سلسلے میں سرائیکی ادبی اکیڈمی کی طرف سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں "خواجہ فرید سرائیکی کانفرنس”(فکرِ فرید تے اجوکے تقاضے) کا انعقاد کیا گیا۔

اس پروقار تقریب کی صدارت سرائیکی کے نامور ادیب، دانشور اور محقق حفیظ خاں نے کی۔مہمان خصوصی سرائیکی نیشنل پارٹی کے رہنما عبدالمجید کانجو تھے

جبکہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدر شکیل قرار نے خصوصی طور پر شرکت کی۔اظہارِ خیال کرنے والوں میں ورلڈ سرائیکی کانگریس کے چیئرمین ڈاکٹر غضنفر مہدی، معرف ادیب اور سینئر صحافی مظہر عارف،

کریسنٹ کلب کے رہنما سبطین رضا لودھی، معروف شاعر و ادیب ضیاءالدین نعیم ،معروف ماہر تعلیم پروفیسر خورشید سعیدی، نامور فکشن رائٹر فرحین چوھدری، پی ٹی آئی رہنما دعا زبیر،

ڈاکٹر عبدالواجد تبسم اور نامور شاعر و ادیب وفا چشتی شامل تھے جبکہ تقریب کی روح رواں سرائیکی ادبی اکیڈمی کی صدر ڈاکٹر سعدیہ کمال تھیں۔

صدرِ مجلس حفیظ خاں نے خواجہ غلام فرید کے حالاتِ زندگی اور ا ±ن کے عہد میں لسانی و معاشرتی پہلوﺅں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ خواجہ فرید نے اپنے سرائیکی کلام میں امن و آتشی ، اخوت و یگانگت اور فروغِ انسانیت کا پیغام دیا۔ انھوں نے کہا کہ

خواجہ فرید تمام عمر متحرک رہے اور اپنے معروضی حالات کا بغور مشاہدہ کیا۔ مہمانِ خصوصی عبدالمجید کانجورہنما سرائیکی نیشنل پارٹی نے کہا کہ خواجہ فرید کا شیرینی سے لبریز سرائیکی ہر دل اور اہلِ درد کے در پر دستک دیتا ہے۔

خواجہ غلام فرید اور برصغیر کے دیگر صوفی شعرائ کے ہاں عشق ، محبت، باہمی رواداری ، فطرت کی روشنی دیکھائی دیتی ہے۔ تقریب کی نظامت نامور براڈ کاسٹر نذیر تبسم نے انجام دیئے۔

نامور دانش ور ڈاکٹر غضنفر مہدی نے نیشنل پریس کلب میں منعقدہ اس کانفرنس کو بارش کا خوشگوار قطرہ کہا اور خواجہ فرید کی فکر پر سیر حاصل گفتگو کی۔ سبطین رضا لودھی نے خواجہ فریدکی روہی کے فلسفے کو پیش کیا۔

نامور ادیب وسینئر صحافی مظہر عارف نے کہا کہ ہ خواجہ غلام فرید نے وحدت الوجود کے فلسفے کے ذریعے پوری کائنات کو ہم آہنگ کر دیا ہے۔ صوفی وحدتِ انسانی کی بات کر کے معاشرے میں مساوات، محبت اور رواداری کو فروغ دیتا ہے۔

پروفیسر خورشید سعیدی نے جدید دور میں سرائیکی ڈیجیٹل کے قیام کی تجویز پیش کی اور خواجہ فرید کے ہاں عشق رسول پر گفتگو کی۔

سید ضیاءالدین نعیم نے خواجہ فرید کی سرائیکی کافی کا خوبصورت انگریزی میں ترجمہ پیش کیا۔ صدر این پی سی شکیل قرار نے ڈاکٹر سعدیہ کمال کو اس خوبصورت محفل کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔

نامور فکشن رائٹر فرحین چودھری نے خوبصورت الفاظ میں خواجہ غلام فرید کی شخصیت اور ا ±ن کے آفاقی کلام پر خراجِ تحسین پیش کیا اور ایسی نشستوں کو آئندہ بھی منعقد کرنے پر زور دیا۔ معروف شاعر وفا چشتی نے خوبصورت لہجے میں خواجہ فرید کی کافیاں پیش کیں۔

ڈاکٹر عبدالواجد تبسم نے خواجہ غلام فرید کی انسانیت دوستی پر روشنی ڈالی۔ محترمہ دعا زبیر نے ڈاکٹر سعدیہ کمال کو اس کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔

مقررین نے عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کی شخصیت، فن اور کلام کے حوالے سے مدلّل گفتگو کی جسے حاضرین نے بہت سراہا۔سرائیکی ادبی اکیڈمی طرف سے معزز مہمانوں اور شرکاءکو نیلی اجرک پہنائی گئی۔

تقریب کا دوسرا حصہ محفل موسیقی کی شکل میں تھا جس کی نظامت راقم الحروف شاہد دھریجہ نے کی اور خواجہ فریدکے شعرسنا کر محفل میں رنگ بھرتے رہے۔

اس حصے میں بہاولپور کی محترمہ شیزا بلوچ نے خواجہ فرید کا کلام پیش کر کے سماں باندھ دیا جبکہ ٹیکسلا کے نزاکت علی فریدی اور نوجوان سنگر جمیل رحمان قرار نے خواجہ فرید کا کلام سنا کر حاضرین سے بھرپور داد وصول کی۔

تقریب میں پروفیسر عرفان جمیل، ایم اے دوشی،احتشام کیانی، ریاض تھہیم ، شاہزاد انور فاروقی،ڈاکٹر نذیر احمدسانگی، اظہار الحق، ڈاکٹر ناظر محمود،ڈاکٹر منظور ویسریو، مختار تالپور، نیازندیم، کاشف علی، شبیہہ نقوی، قمر اقبال ، اقبال حسین افکار، صابر ملک ،نثار احمد ، ڈاکٹر اقبال افکار،

نسیم سحر، ڈاکٹر فرحت عباس، رانا محمد افتخار، سید اسرار شاہ، فوزیہ شاہد، رقیہ نعیم، صدف صدیق، محمد عسکری نقوی، شاہین بلوچ، راجہ کامران علی، اصغر عابد، طیب دھریجہ، ملک ایم عاقل، محمود شائق، مقبول خان، عبدالرزاق چشتی کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

اس موقع پر سرائیکی ادبی اکیڈمی کی صدر ڈاکٹر سعدیہ کمال نے کہا کہ خواجہ فرید برصغیر پاک ہند کی ایک نامور ہستی ہیں۔

انہوں نے اپنی شاعری میں معاشرے کی صیح معنوں میں عکاسی کی۔ان کی شاعری آج بھی دلوں میں رس گولتی ہے۔

اس میلے کا بھی مقصد یہی ہے کہ خوجہ غلام فرید کے پیغام اور تعلیمات کو عام کیا جائے۔

انھوں نے شرکائ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئندہ بھی اسی طرح کی سرگرمیوں کا انعقاد کرتے رہیں گے۔

About The Author