سال 1996 ء کے جاڑے سے سرد جنوری کی ایک شام کی طرف بڑھتی ہوئی سپہر کے وقت اردو اور سرائیکی کے بلند پایہ شاعر و خطیب اور ترقی پسند سیاستدان سید محسن نقوی مون مارکیٹ اقبال ٹاؤن میں دہشت گردی کا شکار ہوئے تو علم و ادب کا شائد ہی کوئی محب ایسا ہو جس کی آنکھ اشک بار نہ ہوئی ہو۔
1990ء کی وہ تاریک ترین دہائی تھی جس میں سینکڑوں اہلِ علم زمین زاد محض اپنے عقیدوں کی بدولت موت کا رزق ہوئے
اللہ کرے پھر سے اس ملک کے لوگوں کو ویسے ماہ و سال دیکھنا نصیب نہ ہوں۔
کیسے کیسے صاحبان علم وکمال فرقہ پرستی کی کوکھ سے برآمد ہوئی دہشت گردی کا شکار ہو گئے۔
شہید محسن نقوی سے ایک احترام بھرا تعلق خاطر تھا۔ میں انہیں چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز تھا تو وہ بھی مجھے اپنے بھیا ابو پیرزادہ سید فاروق حسین ایڈووکیٹ کی طرح محبوب و محترم رہے۔ وہ بڑے بھائی تھے، استاد، رہنما، بزرگ اور اتالیق۔ ہر آڑے وقت میں مدد کے لئے فرشتوں کی طرح پہنچے۔
یہ وہی تھے جنہوں نے دیگر مصروفیات ترک کر کے محض لکھنے پڑھنے کا مشورہ نما حکم دیا۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم کی اسیری کے دوران ایک عزیز از جان دوست کے نام لکھے گئے خطوط پر مشتمل کتاب
"دل و جاں کی بستیاں – قیدی کے خطوط” شائع ہوئی تو انہیں پیش کرنے کے لئے حاضر ہوا۔ بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیتے ہوئے کہا "راجی پیارے! (وہ مجھے ہمیشہ میرے نک نیم سے ہی بلاتے تھے) میری دعا ہے کہ تم درجنوں کتابیں لکھو، علم و ادب کی خدمت کرو۔
خوش لباس و خوش گفتار، وسیع المطالعہ بذلہ سنج محسن نقوی کو دیگر شعراء کے سینکڑوں اشعار ازبر تھے۔ کسی بھی محفل میں ان کی موجودگی محفل کے حُسن کو دوبالا کر دیتی اور محبانِ علم کے لئے نصیب والی بات ہوتی۔ باتیں کرتے اور جملے اچھالتے ہوئے وہ اسی مناسبت سے شعر بھی پڑھ دیتے۔
ہمیشہ میر محفل ہوئے۔
سرائیکی وسیب کے شہر ڈیرہ غازی خان میں جنم لینے والے سید غلام عباس شاہ نقوی کی ساری زندگی انتھک جدوجہد اور علم وانسانیت دوستی سے عبارت ہے۔ گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے انہوں نے اردو ادب میں ایم اے کیا۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ "بندِ قبا” زمانہ طالب علمی میں ہی ان کی شہرت کو چار چاند لگانے کا ذریعہ بنا۔ فکری طور پر وہ ایک روشن خیال اور ترقی پسند زمین زادے تھے۔ محسن نقوی اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی محبت کے اسیر ہوئےا ور آخری سانس تک انہوں نے بھٹو سے اپنی محبت اور پیپلز پارٹی سے تعلق کو شاندار انداز میں نبھایا۔
سیاسی و علمی تعلق ہوں یا مجلسی یا پھر رشتے، انہیں نبھانے میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں پیپلز پارٹی سے تعلق کی بنا پر ان کے لئے سنگین مسائل پیدا ہوئے مگر انہوں نے بہادری کے ساتھ ان مسائل و مشکلات کا سامنا کیا۔
جنرل راجہ سروپ خان ملتان کے ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔ مختلف خفیہ اداروں کی رپورٹ پر ایک بار انہوں نے محسن نقوی کو بلایا اور کہنے لگے
"شاہ جی! کیا کمال کے شاعر اور خطیب ہیں آپ۔ بس پیپلز پارٹی سے تعلق آپ کی شخصیت سے لگا نہیں کھاتا”۔
محسن بھائی نے برجستہ کہا
"راجہ صاحب ! ہمارے خون میں غداری، احسان فراموشی اور پارٹی بدلنے کے جراثیم نہیں ہوتے”۔
راجہ سروپ نے کہا
” پیپلز پارٹی نے کیا دیا اس ملک کو”؟
محسن بھائی نے جواب دیا
” ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی نے اس ملک کے کچلے ہوئے طبقات کو اپنے حق حکمرانی کا شعور دیا یہی بہت ہے”۔
بعد ازاں ایک موقع پر انہیں جنرل ضیاء الحق کی قائم کردہ مجلس شوریٰ میں شمولیت کے لئے کہا گیا تو ان کا جواب تھا
"ہم تو حریت پسندوں کی مجلس شوریٰ کے نسل در نسل رکن رہتے ہیں، غاصب حکومتوں کی مجلس شوریٰ میں شمولیت کا داغ قبر میں لے جانے کا کوئی شوق نہیں”۔
یہ وہ وقت تھا جب فوجی حکومت کا طوطی بولتا تھا۔ بڑے بڑے سورما اور خطیب ، آمریت کی چوکھٹ پر ڈھیر ہوچکے تھے مگر ہمارے محبوب شاعر، خطیب، ادیب اور انسان دوست محسن نقوی پوری استقامت کے ساتھ اپنی فہم پر ڈٹے رہے۔
ان کی شہادت سے ایک دن قبل ہی ان سے بات ہوئی تھی۔ میں مشرق پشاور کے سنڈے میگزین کے لئے ان کا خصوصی انٹرویو کرنا چاہتا تھا۔
اپنی آمادگی ظاہر کرتے ہوئے محبت سے بولے
” راجی پیارے! تم کل ، اچھا ایسا کرو پرسوں دوپہر کو گھر پر چلے آؤ۔ دونوں بھائی کھانا کھائیں گے۔ تمہاری پسند کی بلیک کافی اور تمہارے سوالات ہوں گے۔ چلو میں بھی دیکھوں گا ایک چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی کا انٹرویو کرتا ہوا کیسے لگے گا”۔
افسوس کہ پرسوں کی وہ دوپہر زندگی میں نہ آ پائی۔
اُس پرسوں سے پہلی شام کی طرف بڑھتی سپہر کے آخری لمحوں میں وہ ایک سفاک قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن کر اپنے خالقِ حقیقی سے ملاقات کے لئے روانہ ہو گئے۔
ان کا نامزد قاتل اکرم لاہوری قتل کے مختلف سترہ مقدمات میں سزائے موت پانے کے باوجود سکھر جیل میں وی آئی پی قیدی کے طور پر زندگی بسر کر رہا ہے۔ کمانڈو صدر مشرف تھے یا دوسرے دوست نوازی میں شہرت رکھنے والے صدر آصف علی زرداری، دونوں کے ادوار کی طرح وہ اب بھی تیسرے چوتھے دور میں بھی پھانسی کے تختے پر نہیں لٹکا۔
دروغ بہ گردن راوی ، قاتل نے جو پیغام جنرل مشرف اور صدر زرداری کوبھجوایا تھا وہی شریف برادران کے لئے بھی جھنگ کا ایک باسی لے کر گیا تھا۔
پنجابی کے ایک قدیم محاورے کو اگر الٹ کر لکھا جائے تو وہ یوں ہوگا
"لمبے ہتھ قاتل دے” (قاتل کے لمبے ہاتھ)۔ آج ہمارے محبوب بھائی ، شاعر، خطیب، ترقی پسند سیاسی رہنما اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے منہ بولے بھائی شہید سید محسن نقوی کی برسی ہے۔ 15 جنوری 1996ء سے لے کر 15 جنوری 2020ء تک کے درمیانی 24 سالوں میں وہ ہمیشہ یاد آئے۔
آخری سانسوں تک ان کی یادیں سرمایہ حیات کے طور پر عزیز از جاں رہیں گی۔
محسن نقوی بھولنے والی شخصیت ہی نہیں۔ ان سے تعلق خاطر سے بندھے ہر شخص کو وہ ہر وقت یاد آتے ہیں۔
کیوں نہ آئیں وہ ایسے ہی سجیلے اور تعقل نواز شخص تھے۔ ایک بار میں نے ان سے کہا
” محسن بھائی اللہ کا دیا ہوا بہت زیادہ ہے پھر آپ مجلسوں میں خطابت کا نذرانہ کیوں لیتے ہیں”؟
خاموشی سے اٹھ کر اپنے بیڈروم میں گئے ، واپسی پر ایک ڈائری مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگے
” لو راجی پیارے دیکھ لو تمہارا بھائی مجلسوں سے ملے خطابت کے نذرانے اپنے شکم میں نہیں ٹھونستا بلکہ اس رقم سے حقدار بہن بھائیوں اور پڑھنے والے بچوں کی مدد کرتا ہے”۔
ڈائری میں ان خاندانوں اور طلباء و طالبات کے نام درج تھے جنہیں وہ ماہوار وظیفہ دیتے تھے۔
نوٹ ۔ شہید سید محسن نقوی کی برسی کی مناسبت سے یہ تحریر دوسال قبل ملک قمر عباس اعوان ۔ محمد عامر حسینی اور برادرم نوردرویش کے مسلسل تقاضوں پر
"قلم کار ” کے لیے لکھی تھی آج شہید کی چوبیسویں برسی پر قند مکرر کے طور پر حاضر ہے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ