مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پارلیمنٹ نے خود اپنی کیا توقیر کی؟۔۔۔ نذیر لغاری

دوسرے روز بادشاہ کو وہاں سے ہٹا دیا گیا اورسماعت کے دوران عدالت میں بادشاہ کے خلاف تیس گواہوں نے گواہی دی۔

ہم نے تو ایسی پارلیمنٹ کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ہم نے 17ویں صدی کی شارٹ برطانوی پارلیمنٹ کا ذکرسنا تھا، جس کا اجلاس شاہ چارلس اول نے 20 فروری 1640ء کو بلایا تھا۔ اس پارلیمنٹ نے 13اپریل 1640ء کو اپنی زندگی کا آغاز کیااور 26 روز بعد 5مئی 1640ء کو شرمناک ناکامی کے بعد تحلیل ہوگئی۔ ضیاءالحق کی نامزدمجلس شوری کے چیئرمین خواجہ صفدر کے بیٹے خواجہ آصف آج سے پانچ سال پہلے استعفوں کے بعد پی ٹی آئی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کی ایوان میں واپسی کے بعد بڑے جوش وخروش سے کہہ رہے تھے “کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے” آج ووٹ کو عزت دو کا نعرہ سننے والا ہر ووٹر خواجہ آصف سے وہی بات پوچھ رہا ہے “کوئی شرم ہوتی ہے؟ کوئی حیا ہوتی ہے”۔

مختصر برطانوی پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد طویل پارلیمنٹ وجود میں آئی۔ اس پارلیمنٹ کا شاہ چارلس اول نے نومبر 1640ء کو اجلاس بلایا اور اسےمالی بل( بجٹ) منظور کرنے کیلئے کہا جس میں بحری جہازوں کیلئے مختص رقوم کے حصول کیلئے متنازع ٹیکس لگانے کی بات کی گئی تھی۔ شاہ چارلس اسکاٹ لینڈ میں لڑی جانے والی پادری کی جنگوں میں کنگال ہوچکاتھا اور وہ پارلیمنٹ سے ٹیکسوں کی منظوری لے کر ان جنگوں کو جاری رکھنا چاہتا تھا۔ پارلیمنٹ نے بادشاہ کے بل کو ایک طرف رکھ کر پادرئ اعظم (آرچ بشپ) آف کنٹربری ولیم لاؤڈ کے خلاف غداری کاالزام لگا کر مؤاخذہ کی کارروائی شروع کردی۔ اگلے روز مہرِ شہنشاہیت کے چابی بردار جان فنچ کا مؤاخذہ ہوا اور وہ اس کارروائی سے بچنے کیلئے شاہ چارلس کی اجازت سے ہالینڈ بھاگ گیا۔

میں نے “ووٹ کو عزت دو”اور “جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے” کےنعرے مارنے والوں کے گھٹنے ٹیکنے کی خبر برطانوی شہر کوونٹری میں سنی۔

مہرِ شہنشاہیت کے کنجی بردار جان فنچ نے اس منصب کا چارج لارڈ آف کوونٹری سے لیا تھا مگر اب نہ یہاں وہ لارڈ آف کوونٹری ہے، نہ ہی اس کا جانشین جان فنچ ہے، نہ وہ عظیم مہرِ بادشاہت ہے اور نہ ہی شاہ چارلس اول کے آثار ہیں۔ یہاں ان ارکانِ پارلیمنٹ کے آثار بھی نہیں جو عوام کے منتخب ادارے دارالعوام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے بادشاہ، بادشاہت، مذہب کی آڑ میں مذہب کا نام لے کر لڑی جانے والی قبضہ گیری کی جنگ پر اکسانے والے مذہبی ٹھیکیدار پادری بھی نہیں۔ یہاں “جمہوریت بہترین انتقام ہے “اور” ووٹ کو عزت دو “کے نعرے میرا پیچھا کررہے ہیں۔ میں نعرہ زنوں کی نفرت انگیز سمجھوتے بازیاں اور طرح داریاں دیکھ رہا ہوں۔ میں وارکشائر سے کوونٹری آیا تھا جہاں وارک کیسل میں ، میں نے شاہ چارلس اول، شاہ چارلس دوئم اور اولیور کرامویل کی قدِ آدم تصویریں دیکھی تھیں، جہاں میں نے پارلیمنٹ کے وقار، اعتبار اور عوام کے منتخب ادارے کی حرمت کیلئے لڑی گئی برطانوی خانہ جنگی کے کرداروں کے مجسمے دیکھے تھے۔

برطانوی خانہ جنگی ،امریکی جنگِ آزادی اور فرانسیسی انقلاب اور امریکی خانہ جنگی سے سوا ایک صدی بعد پہلے لڑی گئی۔ برطانوی عوام اور ان کے نمائندہ ادارے پارلیمنٹ نے اپنی اختیارات کی حتمی جنگ لڑنے کے ابتدائی مرحلے میں ہی مطلق العنان بادشاہ سے اس بل پر دستخط کرا لئے تھے کہ پارلیمنٹ کی اپنی مرضی، رضامندی اور منشا کے بغیر اسے کوئی بھی تحلیل نہیں کرسکے گا۔ ادھر ہم ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ اور ہمارے ووٹوں سے منتخب ہونے والے لوگ آئے روز ملک سے، عوام سے، آئین سے نت نیا کھلواڑ کرتے ہیں اور ہم اپنی مرضی، منشا اور اپنے ارادوں کے کچلے جانے کا تماشہ دیکھتے ہیں۔ شاہ چارلس اول تو 1625ء نے اپنی تخت نشینی کے روز یہ سوچ کر اقتدار سنبھالا تھا کہ وہ ظل اللہ ہے، بادشاہت اسے خدا سے ودیعت ہوئی ہے اور وہ لامحدود اقتدارواختیار کا مالک ہے۔ اس کا تو یہ خیال تھا کہ وہ صرف اپنی مرضی کا مالک اور خود اپنے آپ کو جوابدہ ہے، وہ اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ مقدس جنگیں پھیلانا چاہتا تھا اور ان جنگوں کی آڑ میں اپنی بادشاہت کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ وہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ٹیکسوں کا نفاذ چاہتا تھا۔ وہ باشاہت کے ادارے کو اپنے ہر طرح کے ظلم وستم کیلئے استعمال کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا۔

پارلیمنٹ بادشاہ کے متعصبانہ اقدامات کے آگے بند باندھنا چاہتی تھی مگر بادشاہ کو اپنے مطلق العنان ہونے کاگھمنڈ تھا۔ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر پارلیمنٹ کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں تھا۔ برطانوی خانہ جنگی کے دوران اس کی کلیسائے اسکاٹ لینڈ کوبرطانوی چرچ کی جنگوں کا حامی بنانے کی کوششیں خود اس کے زوال کا سبب بنیں۔ 1642ء میں چارلس نے انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹوں کی فوجوں سے جنگ لڑی۔ 1645ء میں بادشاہ نے اسکاٹ لینڈ کی فوج کے آگے ہتھیار ڈال دیئے جس نے اسے انگلینڈ کی پارلیمنٹ کے حوالے کردیا۔ یہاں چارلس نے اپنے گرفتار کرنے والوں کی طرف سے آئینی بادشاہت کا منصب قبول کرنے سے انکار کردیا اور حراست سے فرار ہوگیا۔ اس نے اسکاٹ لینڈ سے اتحاد کا ڈھونگ رچایا مگر پھر 1648ء کے اواخر میں اسے اولیور کرامویل کی نیو ماڈل آرمی نے دوبارہ گرفتار کر لیا۔

قیامِ پاکستان کیلئے ہمارے آباؤاجداد کی جدوجہد دلیل، منطق اورخطہ کے جغرافیائی اثبات کی جدوجہد تھی۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقاءنے آئینی، قانونی، سیاسی اور پارلیمانی جدوجہد کے ذریعے ملک حاصل کیا۔ اس ملک کے حصول کیلئے نہ خانہ جنگی ہوئی اور نہ ہی پارلیمنٹ کی حامی فوجوں نے ملک کی آزادی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کسی جنگی مہم میں حصہ لیا۔ ہمیں نوآبادیاتی سروسز اور نوآبادیاتی ڈھانچہ نوآبادیاتی حکمرانوں سے ورثہ میں ملا۔ ہم نے ازخود تو کوئی ایک ادارہ بھی تشکیل نہیں دیا۔ ابتدائی طور پر ہماری آئین ساز اسمبلی بھی نوآبادیاتی دور کی یادگار تھی۔ ہماری حکمران اشرافیہ تو ہمیشہ عوام کی رائے سے خوفزدہ رہی، اسی لئے یہاں آزادانہ انتخابات سے پہلو تہی کی جاتی رہی۔ اس ملک کے عوام کی اصل ملکیت بلتستان سے بلوچستان اور واخان سے سر کریک تک ہمارا جغرافیہ اور 1973ء کا وفاقی پارلیمانی اور اسلامی آئین ہے۔ ہمارے تمام قومی اور نوآبادیاتی دور کی یادگار اداروں کیلئے بھی آخری پناہ گاہ یہی جغرافیہ اور یہی آئین ہے۔ ہم نے تو اب تک پارلیمنٹ کو ہی اپنی آخری پناہ گاہ سمجھ رکھا تھا، مگر وہ تو آن کی آن میں سجدہ ریز ہوگئی۔ ووٹ کوعزت دو کی دہائیاں دینے والوں اور جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دینے والوں نے ووٹ اور جمہوریت کو رسوا سرِبازار کیا اورہمیں یعنی پارلیمنٹ کی بالادستی کا راگ الاپنے والوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔

پارلیمنٹ کی حمایت کرنے والی کرامویل کی ماڈل آرمی کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد برطانیہ کے بادشاہ چارلس اول پر غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ چند سال قبل شاہ چارلس نے دارالامراء سے خطاب کے دوران اپنی تقریر میں مداخلت کرنے والے دارالعوام کے دو ارکان کی گرفتاری کا حکم دیا تھا، مگر دارالعوام کی لابی میں آجانے کے باعث ان ارکان کو گرفتار نہ کیا جا سکا تھا۔ اب شاہ چارلس کے خلاف پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم نہ کرنے پرغداری کے الزام میں فردِ جرم عائد کی گئی۔ شاہ چارلس کے خلاف مقدمہ چلا اور عدالت نے اُسے سزائے موت سنا دی۔ پارلیمنٹ نے شاہ چارلس کے حجام کو معطل کردیا تو اس نے کسی اور حجام کی خدمات لینے اور اپنے بالوں اور داڑھی کی تراش خراش کرانے سے انکار کردیا۔ پارلیمنٹ کے 68 ارکان نے شاہ چارلس کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کے دوران موجود رہے۔ استغاثہ کا الزام تھا کہ چارلس نے برطانیہ کے مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دی، بادشاہ نے بدنیتی سے غداری کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے خلاف جنگ چھیڑ دی، بادشاہ نے عوامی مفاد، شہریوں کی آزادی، انصاف اور امنِ عامہ کے خلاف کام کیا۔ لہذا اسے غداری، قتل، جلاؤگھیراؤ اور دیگرسنگین الزامات میں ملوث قرار دیا گیا۔ خانہ جنگی کے دوران تین لاکھ اموات کا بھی بادشاہ کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔ بادشاہ پر تین روز مقدمہ چلا۔ بادشاہ نے تمام الزامات کی صحت سے انکار قرار کرتے ہوئے یہ جملہ کہا “مجھے کس قانون کے تحت غدار کہا جارہا ہے اور مجھے کون سا قانونی ادارہ غدار قرار دے رہا ہے” اس نے یہ دعوی بھی کیا کہ “بادشاہ کے خلاف کسی بھی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔مجھے اقتدار خدا نے عطا کیا تھا اور میں نےاسی اختیار کے تخت امورِ مملکت چلائے۔ خدا نے بادشاہ کو ہر طرح کے مؤاخذہ سے استثنی دیا ہے” عدالت نے بادشاہ کی اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے مطلق استثنی کے تصور کی نفی کی اور کہا کہ برطانیہ کا قانون ہر منصب اور ہرمنصب دار سے بالاتر دھرتی کا قانون ہے۔

دوسرے روز بادشاہ کو وہاں سے ہٹا دیا گیا اورسماعت کے دوران عدالت میں بادشاہ کے خلاف تیس گواہوں نے گواہی دی۔ تیسرے روز بادشاہ کو پھر عدالت میں پیش کیا گیا، عدالت نے 26 جنوری 1649ء کو بادشاہ کے خلاف لگائے گئے الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے شاہ چارلس اول کو سزائے موت سنادی۔ اگلے روز بادشاہ کو کمیشن کے روبرو پیش کیا گیا، جہاں 59 کمشنر موجودتھے اور وہاں پر بادشاہ کو مجرم قرار دیا گیا اور بادشاہ کی موت کے وارنٹ جاری کئے گئے۔ پھر 30 جنوری 1649ء کو ٹریفالگر اسکوائر سے چیلیسی جاتے ہوئے وہائٹ ہال روڈ پر واقع بنکوئیٹنگ ہاؤس نامی محل میں تیز دھار آلہ سے شاہ چارلس کی گردن اُڑا دی گئی اور یوں برطانیہ میں یہ طے ہوگیا کہ امور مملکت چلانے کیلئے پارلیمنٹ تمام اداروں سے برتر اور بالاتر ادارہ ہے۔

میں وارک کیسل میں چارلس اول کے خاندان کی یادگاریں دیکھ کر اس قلعہ سے باہر نکل آیا۔میں لندن میں پارلیمنٹ کے سامنے شاہ چارلس اول کا گھوڑے کی سواری کرتا مجسمہ اوراس سے کچھ دور اولیور کرامویل کا مجسمہ دیکھتا ہوں۔ یہاں تاریخی تنازعات کی راکھ نہیں اُڑ رہی۔ یہاں پر یہ طے ہوچکا ہے کہ اقتدار اور طاقت کا سرچشمہ عوام اور عوام کی منتخب پارلیمنٹ ہے اور ریاست کی آئینی سربراہی بادشاہ یا ملکہ کے پاس ہے۔ ملکہ یا بادشاہ ریاستی امور میں کسی قسم کی دخل اندازی نہیں کریں گے۔

%d bloggers like this: