محترم قارئین کرام،،وطن عزیز میں ایڈہاک ازم کے نظریے اور سوچ تک محدود سیاسی جماعتوں اور حکومتوں نے زمینی حقائق، حال و مستقبل کی قومی ضروریات اوراور لانگ ٹرم مستقبل کے حوالے حقیقی پالیسیاں بنانے اور عمل کرنے کی جانب استقامت کے ساتھ ابھی تک چلنا ہی شروع نہیں کیا.
ہماری زرعی معاشی اور تجارتی پالیسیاں متوازن عوامی ترقی و خوشحالی کی بجائے کمیشن خوری کک بیکس عالمی ساہو کاروں اور مختلف مافیاز کے زیر اثر مافیاء ہی ترتیب پاتی نظر آتی ہیں.
یہی وجہ ہی کہ متوازن ترقی و خوشحالی کا سفر درست سمت میں آگے نہیں بڑھ پا رہا. امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں ملک کارآمد مڈل کلاس مفلوج ہو کر تیزی سے ختم ہونے کی جانب بڑھنے لگی ہے. مختلف ناموں سے مافیاز کا وجود بڑھتا اور طاقت ور ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے.
میں اپنے کالموں میں کسانوں کے حوالے سے کافی کچھ لکھ چکا ہوں.شوگر ملز کے ماضی اور حال، شوگر ملز مالکان کی کل کی اور آج کی سوچ کے فرق کے حوالے سے موضع ٹب چوہان کے ایک زمیندار سمیع اللہ چوہان نے جمال دین والی شوگر ملز ضلع رحیم یار خان کی ایک سی پی آر کی کاپی اس تحریر کے ساتھ اپنی فیس بک پر پوسٹ کی ہے.
دوستوں چیک کرنے پڑھنے سمجھنے اور اس کے بعد اس تحریر کے علاوہ کچھ چانچنے، بولنے اور کچھ کرنے کا ایک خاموش پیغام دیا ہے. آئیے پہلے چوہان صاحب کی تحریر پڑھتے ہیں
ُ ُ چیک کریں جب 2011میں جے ڈی ڈبلیو شوگر مل والے گنا 210روپے فی من خرید کر کے چینی 55روپے فی کلو دیتے تھے اور حکومت سے بھی کسی قسم کی سبسڈی نہیں لیتے تھے
کھاد بھی بغیر پرافٹ کے دیتے تھے اور سپرے بھی مارکیٹ سے کم نرخوں پر بغیر سود کے دیتے تھے ساتھ میں زمینداروں کو سبسڈی پر ٹربائن اور زرعی آلات بھی مہیا کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ مل ملازمین کو بھی بونس پے بونس ملتے تھے پھر اچانک سے مل مالکان کو ہوس زر نے آن لیا اور پورے ملک کو اقتدار کے ذریعے سے قبضہ کر نے کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے کسانوں کو لوٹنا شروع کردیا اور اب حالات یہ ہوگئے ہیں کہ یہ لوگ زمینداروں کو اپنا غلام سمجھنے لگ گئے ہیں
کہ تم صرفِ محنت کرو اور یہ لوگ اس محنت پر ناصرف عیش و عشرت کر رہے ہیں بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی مزے کرا رہے ہیں لیکن کب تک آخر ہر عروج کو زوال ہے ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے
انکی بھی پکڑ ہو گی اور ضرور ہوگی اور بہت جلد ہو گی
زیر نظر تصویر میں سی پی آر کی نقل ہے جو کہ 2011کاہے اس میں 430من29کلوٹرالی کاصافی وزن ہے اور اسوقت سرکاری ریٹ 125روپے فی من کے حساب سے درج ہے
اور85روپے فی من پریمیم کی مد میں دیا گیا ہے اس طرح کل رقم 90022روپے دی گئی تھی
لیکن اب 70روپے چینی بیچ کر بھی زمیندار کو اس کا حق ہوئے دیتے ہوے موت پڑتی ہے. ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، پہلے تو میں آپ کو یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ مذکورہ بالا شوگر ملز تحریک انصاف کے مرکزی رہنما و سابق وفاقی وزیر جہانگیر خان ترین اور سابق گورنر پنجاب وسابق صوبائی و وفاقی وزیر مخدوم احمد محمود کی ہیں. بلاشبہ جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز کا ضلع میں گنے کی کاشت کروانے بڑھوانے بڑا اہم کردار ہے. صاف ستھرے کاروباری لین دین کے حوالے سے بھی اس کی شہرت صاف ستھری چلی آ رہی ہے.
ابتدا میں شوگر ملز نے طلب و رسد، اپنی ضروریات اور مستقبل کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں بنا کر لانچ کیں. اس کے ثمرات سے نہ صرف شوگر ملز کو بلکہ علاقے کے کسانوں کو بھی خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے.
زمیندار بھائی شوگرز ملز کی ابتدائی پالیسیوں کو دیکھ کر یہ حقیقت بھول چکے ہیں کہ شوگر مل ایک کاروباری ادارہ ہے نہ کہ سماجی و فلاحی ادارہ. انہوں نےاپنی ضروریات کے مطابق زمینداروں کواس وقت فسیلیٹیٹ کیا اور ریلیف فراہم کیا.
انہوں نے بہت سارے اپنے دیگر متبادل انتظامات بھی کر لیے ہیں. ضروریات اور تقاضے بدل جانے سے پالیسیاں بدل لینا ان کا حق اور مرضی ہے. زمینداروں نے بدلے ہوئے حالات کے مطابق خود کو بدلنے کے لیے اب تک کیا کیا ہے یا انہیں کیا کرنے کی ضرورت ہے اسکا فیصلہ کسانوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کرنا ہے.
شوگر ملز مالکان نے مل کر شوگر ایسوسی ایشن کو کتنا طاقت ور اور مضبوط بنا لیا ہے. سرکاری اداروں اور حکومتوں سے اپنے حق میں پالیسیاں بنوانے اور فیصلے کروانے تک اثر انداز ہو چکے ہیں. دوسری طرف کسانوں کا کیا ہے.
انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر بے حسی نمایاں ہے. جو لوگ کسان تنظیمیں بنا کر کسان کاز کے لیے کام کر رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ گویا وہ استحصالی قوتوں کے خلاف مظلوموں کسانوں کے لیے جہاد کر رہے ہیں.گھر میں بیٹھے زمیندار اور خاص طور پر کسان تنظیموں پر اعتراضات اٹھانے والے کبھی اپنا بھی محاسبہ کر لیں کہ انہوں نے کن کن ایشوز پر کب اور کہاں کتنی بار ان کا ساتھ دیا ہے.
اپنی کسانوں ایسوسی ایشنز کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں.کسان کاز کے لیے مشاورتی یا احتجاجی پروگراموں میں کتنا وقت دیتے ہیں. کسان تنظیموں کے لائحہ عمل اور فیصلوں پر کتنا عمل کرتے ہیں. گھر بیٹھے ثمرات صرف اس وقت تک ہی مل سکتے ہیں جب دوسرے فریق کو آپ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے.
کسان اپنی انفرادی اور اجتماعی سوچ میں یکسوئی پیدا کریں. جس ملک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت اور کسانوں پر ہو وہاں کا کسان ہرگز کمزور نہیں ہو سکتا.کسانوں کو ان کی فصلات کے جائز ریٹس کا نا ملنا، استحصال اور زیادتیوں کا نہ رکنا کسانوں کی صرف اپنی نا اہـلی بے حسی کی سزا ہے.فصلات کی کاشت کے حوالے سے کسانوں کو بھیڑ چال سے بچنا ہوگا.
مختلف فصلات کی کاشت کرنی ہوگی، برداشت کے وقت لوٹ مار سے بچنے کے لیے اپنی فصلات کی سٹوریجز کا انتظام کرنا ہوگا. چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی طرح ہر ضلع میں اپنے اپنے چیمبر آف ایگریکلچر قائم کرنا ہوں گے. کسان کمیونٹی کے اجتماعی مفاد کے لیے دامے درمے سخنے جو بھی کسان ایسوسی ایشن مناسب لگتی ہے اس کا ساتھ دینا ہوگا. مضبوط پـلیٹ فارم کے بغیر مضبوط اور موثر آواز کے بغیر دفاع کرنا اور جدوجہد کو جاری رکھنا خاصا مشکل کام ہے.
اب ذرا سوچیں گنے کی فصل کی بے قدری اورمناسب قیمت نہ ملنے کے باوجود اگر کسان اس کی کاشت میں کمی نہیں کرتا اور اگلے سال وہ مزید استحصال اور بے توقیری کا شکار ہوتا ہے تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہے.میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر کسانوں کو حالات اور ضروریات کے مطابق خود کو سب سے پہلے منیج کرنا ہو گا. پھر اپنی کمیونٹی اور ایسوسی ایشنز کا ساتھ دینا اور انہیں مضبوط کرنا ہو گا.اگلے سال جے کیے ہر کسان اپنی گنے کی کاشت کو 30فءصد کم کرنے کا عہد کرے پھر رزلٹ دیکھے. جن شوگر ملز نے لوٹ مار اور کسانوں کو تنگ کرنے کے لیے شوگر ملیں بند کی کی ہیں ان اضلاع کے زمیندار اور کسان دو سال کے لیے گنے کی کاشت ختم کر دیں پھر دیکھیں اپنی عزت اور وقار. اپنے بچاؤ اور اپنی عزت کی خاطر اگر کسان خود کچھ نہیں کریں گے تو کوئی حکومتی ادارہ، حکمران بھی ان کے لیے کچھ نہیں کریں گے. کسی شاعر نے کیا خوب کیا ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جسے اپنی حالت کے آپ بدلنے کا
شوگر مافیا کی کارستانیاں،لوٹ نار، ہٹ دھرمی،اجارہ داری کا اژادھا حکمرانوں کی نالائقیاں طرفداریاں اور کسانوں کی اپنی بے حسی، اجتماعیت کی کمزوریوں نے زراعت اور کسانوں کو موجودہ کسان کش حالات اورمعاشی نقصانات سے دوچار کیا ہے. بلاشبہ ہمارے حکمران شوگر مافیا اور ٹیکسٹائل مافیا کی خوشنودی کے لیے زراعت اور کسانوں کو نہ صرف نظر انداز کیے ہوئے ہیں بلکہ ان کے حقوق پر پڑھنے والی معاشی ڈکیتیوں میں معاون نظر آتے ہیں.اس ظلم و زیادتی اور نا انصافیوں پر کسانوں کو چیخ و پکار تو خود ہی کرنی پڑے گی. جن حضرات کو کسان ووٹ دیتے ہیں اگر وہ بھی اسمبلیوں کے اندر یا باہر ان کی آواز نہیں اٹھاتے، کسانوں کا کھل کر ساتھ نہیں دیتے تو ان کا محاسبہ فرشتوں نے آکر نہیں کرنا،
کسانوں کو خود ہی بلدیاتی اور قومی الیکشن میں ان کا محاسبہ کرنے کی ریت ڈالنی ہوگی.تب جا کر یہ اشرافیہ مظلوموں کسانوں کی چیخوں کو سنے اور سمجھے گا. بصورت دیگر یہ استحصال اور ظلم یونہی بڑھتا رہے گا.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ