پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ کے دارالحکومت کراچی میں
بندر روڈ پر قائم پرانے ریڈیو پاکستان کی عمارت آج بھی تاریخی اعتبار سے کئی روشن باب اپنے اندر محفوظ کیے ہوئے ہے۔
اس عمارت کے احاطے میں چھوٹی سی فنکار گلی اپنے وقتوں میں کافی شہرت رکھتی تھی۔
پرانا وقت نا سہی نئے ٹرینڈز سے ہم آہنگ نوجوان اس ورثے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد سن انیس سو اٹھاون میں بندر روڈ پر قائم پرانے ریڈیو پاکستان کی عمارت کے احاطے میں محمد سلیم نے موسیقی کے آلات مرمت کرنے کے لیے چھوٹی سی دکان خریدی۔
ریڈیو پاکستان کے عروج کے دنوں میں یہاں کئی معروف فنکاروں اور موسیقاروں کی چہل پہل ہوا کرتی تھی۔ اس گلی کا نام فنکار گلی پڑ گیا۔
سلیم اینڈ سنز نامی اس دکان کو محمد سلیم کے تینوں بیٹے چلاتے ہیں۔
بیٹوں کا ماننا ہے کہ موسیقی میں جدت آجانے کے بعد ہارمونیم سے زیادہ اسٹرنگز کے آلات کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ کانگو کی جگہ دربوکے اور کیون نے لے لی ہے۔
موسیقار احمد چھاگلہ نے قومی ترانے کی دھن جس ہارمونیم پر ترتیب دی اس کی مرمت کا کام بھی اسی دکان سے ہوا تھا۔
دکان پر اب اس تعداد میں فنکار تو نہیں آتے مگر ہارمونیم اور طبلے سے لیکر موسیقی کے تمام آلات اسی طرح فروخت کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
نیشنل پریس کلب کے انتخابات، جرنلسٹ پینل نے میدان مارلیا، اظہر جتوئی صدر منتخب
ملتان یونین آف جرنلسٹس کے سالانہ انتخابات میں "پروفیشنل جرنلسٹس گروپ” نے میدان مار لیا،
متوازن وفاق اور وسائل پر اختیار کےلئے سرائیکی سرگرم کارکنوں اور طلبہ تنظیموں کی’ سرائیکی صوبہ ریلی کا انعقاد