دِ لّی میں تیسرا دن
گزشتہ رات اِندر پوری کالونی سے پک کرکے مجھے پرنس ہوٹل قرول باغ کے عین سامنے اتارتے وقت وِجے کمار نے گاڑی کا شیشہ کھولتے ہوئے خصوصی تاکید کی تھی کہ صبح سویرے اٹھ کر تیار ہو جانا، کل دیوالی ہے اور دیوالی کی دھوم دھام شروع ہونے سے پہلے ہی میں آپ کو ڈیرہ اسماعیل خان ہائی سکول دکھانے لے چلوں گا ۔
ہوٹل میں جا کرہاتھ منہ دھونے کے بعد میں قریبی گلی میں حیدرآبادی بریانی کھانے کے لئے نکل پڑا۔بریانی کھا کر واپس ہوٹل کی سیڑھیوں پر جیسے ہی قدم رکھا پینٹ کی بائیں جانب تھر تھراہٹ سی محسوس ہوئی۔ میں موبائل وائبریشن پر رکھ کر اس کی رنگ ٹون لگانا بھول گیا تھا۔
جیب کے اندر برپا ہونے والی گدگدی سے چھٹکارا پانے کیلئے جیسے ہی موبائل فون باہر نکالا ،اسکرین پرانکل وِجے کمار تنیجا کا نمبر جگمگا رہا تھا۔ خیرخیریت دریافت کرنے کے بعد وہ فوراً مقصد کی بات پر آگئے اور بتایا کہ اُن کی ماسی کی بڑی بیٹی ریکھا کینیڈا سے دیوالی منانے اپنے پتی کے ساتھ دلی آئی ہوئی ہیں، ابھی اُن کے سامنے آپ کا تذکرہ کیا تو انہوں نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ کیا خیال ہے کل صبح اُن سے ملنے چلیں؟ ۔
انکل تنیجا اپنی بات ختم کرنے کے بعد میرا جواب سننے کیلئے خاموش ہو گئے۔ ہاںبالکل ضرور چلیں گے، تو بس پھر میں صبح سویرے آ جاﺅں گا، تم تیار رہنا۔میں صبح سات بجے کا الارم لگاکر سوگیا ۔الارم اپنے وقت پر بجا مگر میں نے سوچا تھوڑی دیر اور آرام کر لیتے ہیں۔ابھی چند منٹ گزرے ہوں گے کہ بیڈ کے ساتھ لگی چھوٹی میز پر رکھا فون بجنے لگا۔
ہوٹل کے استقبالیہ سے اطلاع دی گئی کہ وجے کمار نیچے لابی میں انتظار کر رہے ہیں۔یہ جانتے ہی میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔آنے والے دس پندرہ منٹ میں کیا کچھ نہیں کیا۔ بسترسے چھلانگ لگاکر واش روم میں گھس کر شیوکی ، جلدی جلدی شاور لیا اورکیمرہ لٹکائے بذریعہ لفٹ ہوٹل کی لابی میں جا اُترا ۔
لابی میں رکھے ایک صوفے پر تنیجا صاحب انگریزی کا اخبار ہاتھوں میں پکڑے خبریں پڑھنے میں منہمک تھے۔مجھے اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر ہلکی سی مسکان دیتے ہوئے پوچھا۔ناشتہ کیتا وِی ؟جواب نفی میں ملتے ہی انہوں نے اخبار سمیٹا اور اٹھ کھڑ ے ہوئے ۔”چل پہلے تیکوں ناشتہ کرواﺅں، وت سکول ویسوں“۔یہ کہتے ہی انہوں نے موبائل پر اپنی پتنی کو چائے بنانے کیلئے کہا اور ہوٹل کے خارجی دروازے کی طرف قدم بڑھا دئیے ،مجبوراً مجھے کمرے کی چابی استقبالیہ ڈیسک پر بیٹھے لڑکے کے ہاتھوں میں تھما کر چپ چاپ اُن کے پیچھے چلنا پڑا ۔
پروگرام کے تحت ہمیں سب سے پہلے سکول دیکھنے جانا تھا ،مگر ناشتہ بھی ضروری تھا۔پرنس ہوٹل سے کوئی پانچ منٹ کی پیدل مسافت پرپُوسا روڈ پر اُن کی رہائش گاہ واقع تھی۔ہوٹل کے بالکل سامنے بنے مندر کے آگے کافی رش تھا، لوگ پوجا پاٹ کیلئے قطاروں میں کھڑے اپنی باری کاانتظار کر رہے تھے۔
چلتے چلتے تنیجا صاحب نے میرے علم میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ دہلی کاقرول باغ ، نکلسن روڈ ، ٹو نک روڈاور اس سے ملحقہ دیو نگر علاقوں کا شمار تقسیم سے قبل مسلم اکثریتی علاقوں میں ہوتا تھا مگر اب یہاں ہر طرف مراٹھی، تامل،بنگالی اورپاکستانی علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والی (پنجابی، سرائیکی) آبادی مقیم ہے ۔
علاقے کی ڈیموگرافی مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ انگریز دور کا قائم کردہ حکیم اجمل خان طیبہ یونانی کالج جو کبھی اس علاقے کی پہچان تھا مگر اب جا بجا نت نئی مارکیٹوں اور گارمنٹس شاپس کی وجہ سے یہ علاقہ پہچانا جاتا ہے۔قرول باغ،پہاڑ گنج،صدر،لاجپت نگر، کیلاش ، سروجنی نگر،روپ نگر اوردیو نگر کے ہندو اکثریتی علاقوں میں دیوالی کا جوش و خروش بھی دیدنی ہوتا ہے جہاں دیوالی کی صبح پو پھوٹتے ہی مندروں میں لوگوں کا تانتا بندھ جاتاہے۔
دِیوالی: یہ 23اکتوبر 2014ئ، جمعرات کا دن تھا۔ ہندوستان بھر میں دیوالی کا تہوار منایا جا رہا تھا اور آج سرکاری تعطیل تھی۔ دیوالی کی تاریخ ہزارہا سال پرانی ہے۔ مغل حکمرانوں سمیت مسلم سلاطین بھی نہ صرف اسے اہتمام سے منایا کرتے تھے بلکہ دیوالی کا جشن منانے کیلئے مہینوں پہلے تیاریاں کی جاتی تھیں۔دِلی کے پہلے مسلمان حکمران محمد بن تغلق جنہوں نے 1324 سے 1351 تک دلی پر حکومت کی، سب سے پہلے شاہی محل کے اندر دیوالی کا جشن منانے کی ابتداءکی تھی اور یہ سلسلہ مغلوں تک چلتا رہا۔اس موقع پرشہر کے مختلف حصوں میں چراغاں ہوتا ، دریائے جمنا کے کنارے دیے روشن کیے جاتے تھے ۔
آگرہ، متھرا، بھوپال اور لکھنو سے مشہور و معروف حلوائیوں کو دِلی بلایا جاتا اور اس موقع پر منوں مٹھائیاں بناکر ہر خاص و عام میں تقسیم کی جاتی تھیں۔۔شہنشاہ اکبر نے اپنے دور میںدیوالی کو شاہی جشن کی صورت آگرہ اور فتح پور سیکری میں منا کر بھائی چارے کی مثال قائم کی تھی۔اکبر کے بعد جہانگیر بھی دیوالی کے جشن کو تزک و احتشام سے مناتے تھے ۔ اُن دنوںبادام کا سفید شربت مٹی کے کٹوروں میں ہر خاص و عام کو مفت پلایا جاتا تھا، شاید یہیں سے ہندوستان میں ٹھنڈائی کی ابتداءہوئی تھی اور اُسی عہد میںبڑے پیمانے پرمٹی کے دیے بنانے کا رواج پڑا تھا۔
شاہجہان کے دور میں جب صلح و آشتی، عیش و عشرت کی جلوہ گریاں عام تھیں تب دیوالی کے موقع پر شاہی حلوائی پستہ، بادام،عرق گلاب اور زعفران و شہد سے مٹھائیاں تیارکیا کرتے تھے جو بڑے بڑے تھالوں میں سجا کر عوام و خواص کو کھلائی جاتی تھیں۔اُس وقت دِلی کے شاہی محل سمیت امراءکی حو یلیاں چراغوں کی روشنی سے دمکتی تھیں یہاں تک کہ چاندنی چوک سے گزرنے والی نہر کے دونوں اطراف دِیوں کی قطاریں روشن کی جاتی تھیں۔دِلی میں شاہی دیوالی کے جشن کا یہ سلسلہ بہادر شاہ ظفر کے عہد تک جاری رہا، جب شاہی محل میں لکشمی پوجا کا انتظام ہوتا تھا۔مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد نوابین اودھ نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا۔
وِجے کمار تنیجا کے پریوار سے ملاقات: وِجے کمار تنیجاکا مختصر تعارف یہی ہے کہ اُن کی والدہ شریمتی گوبندی دیوی کا تعلق ٹانک سے جبکہ والد رائے نا رائن داس تنیجا کا تعلق کلاچی سے تھا جو پی ڈبلیو ڈی ڈیپارٹمنٹ میں ایگزیکٹیو انجینئر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد گورنر صوبہ سرحد کے چیف انچارج بنائے گئے تھے ۔ انگریز حکومت نے انہیں رائے بہادر کے خطاب سے بھی نوازا تھا ۔
وجے کمار تنیجا کے نانا تیج بھن جمنداس ٹانک کی معروف کاروباری شخصیت تھے جن کا ٹانک میں پٹرول پمپ تھا ۔وجے کمار کا جنم 1946ءمیں پشاور میں ہوا، بٹوارے کے دوران ان کا گھرانا دلی آگیا اور پھر یہ لوگ دلی سے بہار چلے گئے۔گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انہوں نے 1970ءمیں اپنے کیرئیر کی ابتداءمنسٹری آف لیبر ڈیپارٹمنٹ سے کی اور پپلانی خاندان میں ان کی شادی ہوئی۔ پتنی کا نام راجن تنیجا ہے اور اُن کے دو بیٹے ہیں ۔
بڑا بیٹا انوج کمار تنیجا گڑگاﺅں میں ایچ ڈی ایف سی بینک کاڈپٹی وائس پریزیڈنٹ ہے جبکہ چھوٹا بیٹا امیت کمار تنیجا مدر ڈیری فروٹ میں ڈپٹی جنرل منیجر کے عہدے پر فائز ہے۔وجے کمار تنیجا نے 2006ءمیں لیبر ویلفیئر منسٹری آف لیبرگورنمنٹ آف انڈیاسے بطور چیف ایڈوائزر ریٹائرمنٹ لینے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان سیکنڈری سکول کی انتظامی ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں اوروہ اپنی پتنی راجن تنیجا اور دونوں بیٹوں کے ساتھ پُوساروڈ پر ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔پُوسہ روڈ پر بنے بنگلے کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بسکٹوں کے ساتھ گرما گرم چائے کا مزہ لینے کے ساتھ ساتھ مسز راجن تنیجا کی میٹھی سرائیکی نے لطف دوبالا کر دیا تھا۔اُن کی پتنی کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کے پپلانی خاندان سے ہے اور میاں بیوی آپس میں سرائیکی بولتے ہیں۔
دلی یاترا کے دوران چونکہ میرا ٹھکانہ پرنس ہوٹل تھا جو اُن کی رہائش گاہ کے نزدیک تھا ،اسی لئے تقریباً ہر روز ملاقات ہو تی رہتی،خصوصاً دیوالی کی چھٹیاں انہوں نے میرے نام کر دیں بلکہ میرا ہاتھ پکڑ پکڑ کر مجھے ساری دلی دکھائی ۔بوہڑیاںوالاتھلہ ،قرول باغ کا گردو نواحی علاقہ، قطب مینار، ہمایوں و غالب کامقبرہ،درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء، آل انڈیابہاولپور پنچائیت ، ملتانی محلہ اورڈاکٹر جگدیش بترا کی رہائش گاہ وغیرہ ۔
انہوں نے سوائے آگرہ کے مجھے کہیں اکیلا نہیں چھوڑا اور میری ہر چھوٹی بڑی کھوج کا خیال رکھا۔میں نے انہیں نہ صرف متحرک و منظم پایابلکہ ان تمام ملاقاتوں کے دوران ا ندازہ لگایا کہ وہ اپنی کمیونٹی کی معروف ہستی ہونے کے ساتھ ساتھ اندر سے ایک ملنگ، قلندر ، انتہائی سوشل، نفیس اور اعلیٰ ظرف انسان ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان سینئر سیکنڈری سکول ، راجندر نگر، دہلی :فطری طور پر اگرچہ میں ایک ایسی سرزمین پر تھا جسے دشمن ملک کہا جاتا ہے اور اس نام کے علاوہ اس کی دوسری پہچان نہیں مگر پتہ نہیں کیوں مجھ جیسے نحیف و نزار،ڈرپوک شخص کے اندر چھپا انسان اپنے آپ کو مضبوط اور توانا محسوس کر رہا تھا ۔مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں اپنے بزرگوں سے ملنے آیا ہوں۔ڈاکٹر جگدیش بترا،ڈاکٹر ملک راجکمار،مکیش اسیجا اوروِجے تنیجا سمیت ہر ایک نے پہلی ملاقات میں اپنے اپنے وزیٹنگ کارڈز تھماتے ہوئے صرف ایک ہی فقرہ بولا تھا: ”اِتھاں چنتا کرن دی کوئی لوڑ کونیں ، کھلا ڈُلا تھی کے پھر ،بس آپنا پاسپورٹ جیب وِچ رکھ تے کوئی وِی مسئلہ ہووے تاں فوراً فون کر“۔گپتا روڈ سے وَندے ماترم سڑک پر موڑ کاٹتے ہوئے جب انکل وجے کمار سے کہا: ”اگر اساں ذرا سوچو ں تاں کتنا ڈر لگدے کہ ڈُوں دشمن ملکاں تے ڈُوں مخا لف دھرماں دے بندے ہکی کار اِچ بیٹھن“۔ میری بات سنتے ہی انکل نے ایک بھرپور قہقہہ مارا اور کہا: ”جیوے ساڈی سرائیکی،جیوے ساڈا کلاچی تے جیوے ساڈا سندھ دریا “ ۔
پتہ نہیں یہ ان کی ایک پردیسی سے محبت تھی یا ان کے لہجے کی سچائی اورخلوص یا پھر اُن کا اپنے پُرکھوں کی سرزمین سے جذباتی لگاﺅ۔ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ جیسے میں اپنوں کے بیچ بالکل مامون و محفوظ ہوں اور اس احساس نے میرے اندر کے خوف اور دلی کی اجنبیت کو دور بھگا دیا تھا۔
میں گاڑی کا شیشہ نیچا کئے باہر کی سڑک اور اطراف کے مناظر کا جائزہ لینے لگا ۔ پُوسہ روڈ سے مغربی دہلی کے راجندر نگر تک پہنچنے میں ہمیں بیس پچیس منٹ لگے ، بالآخر آر بلاک میں ایک سرخ رنگی وسیع عمارت کے سامنے پہنچ کر انکل وجے کمار نے گاڑی روک دی ۔ سرخ رنگ سے پینٹ کی گئی پکی اینٹوں کی مستطیل خدوخال والی عمارت ہمارے سامنے تھی ۔ یہی ڈیرہ اسماعیل خان سکول تھا ، دیوالی کی سرکاری تعطیلات کے باعث سکول کا مرکزی آ ہنی گیٹ بند تھا اور گیٹ کے اوپر ”ڈی آ ئی خان سینئر سیکنڈری سکول “کا بورڈ آویزاں تھا۔ گیٹ سے ملحقہ گارڈ روم کے کھلے در سے ہم عمارت کے اندر داخل ہوگئے۔
جابجا سفیدے کے درختوں کے بیچ لپٹی ایک عالیشان عمارت ہمارے سامنے تھی،جس کے درمیانی حصے پر ڈی آئی خان بھر اتری سبھا سینئر سیکنڈری سکول 1956ءکندہ تھا۔عمارت کے وسط میں نیلی ٹائیلوں سے بنے فوارے میں تھوڑا سا پانی موجود تھا جس کے اردگرد پھیلے سبزے اور صاف ستھرے لان کے اوپر چڑیاں چہچہا رہی تھیں ۔اندرچند قدم کی دوری پر عمارت کے پہلو میں فاﺅنڈیشن سٹون (سنگ بنیاد)دکھائی دیا، جس پر ہندی اور انگریزی زبانوں میں سکول کے سنگِ بنیاد کی تفصیل مورخہ 13اپریل 1958ءبروزِ اتوار بدست شری مہر چند کھنہ یونین منسٹروزیرِ مہاجرین و بحالی جات درج تھی ۔سنگی پتھر کے قریب ہی کمپیو ٹر روم، لائبریری، لیبارٹری ،کلاس روم اور ورکشاپس کی جانب کھلنے والے دروازے تھے جو سارے مقفل تھے۔عمارت کے آگے کا جائزہ لینے کے بعد اب ہم اس کے عقب میں آن کھڑے ہوئے ۔
عقبی جانب اسٹاف ممبران اور سکول انتظامیہ کے دفاتر تھے۔ہر دفتر کے دروازے کی بائیں جانب دیوار میں انتظامی امور سرانجام دینے والی شخصیات کے ناموں کی تختیاں لگی ہوئی تھیں جس میں وائس چیئرمین وِجے پہوجا،وائس پرنسپل مسز ریکھا،سپر نٹنڈ نٹ انورادھا تنوار، منیجر وی کے تنیجا اور خوبصورت سرخ تختی کے اوپر سنہری حرفوں سے کندہ دیوی دیال چیئرمین ڈیرہ اسماعیل خان نمایاں تھے۔دیوار پر ڈیرے وال برادری کے عطیات کنندگان کی سنگ مرمر کی سلیٹیں بھی نصب تھیں،جن میںسیٹھ ہیر اچند بھاٹیہ ،ڈاکٹر گھنیش دتہ ، نارائن داس مٹا ،سیٹھ وَشان داس،گنیش داس،کنہیا لال،روپ چند،تلسی داس گاندھی اور پرمیش واری دیوی گاندھی جیسے مخیر ڈیرے والوں کے نام درج تھے۔
عقبی عمارت کے سامنے ایک وسیع و عریض سبزہ زار تھا جس کے اندر والی بال، ٹینس کورٹ، کرکٹ گراﺅنڈ بنائے گئے تھے۔ ٹینس کورٹ میں کچھ نوجوان ماہر کوچ کی زیر نگرانی پریکٹس کر رہے تھے۔ سکول کے عقبی سبزہ زار میں بیٹھ کر انکل تنیجا دھیرے دھیرے تاریخ کی گرہیں کھولنے لگے۔
یہ بھی پڑھیے: دلی دل والوں کی (قسط6)۔۔۔ عباس سیال
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ