رحیم یار خان
پاکستان کسان اتحاد کے ڈسٹرکٹ آرگنائزر جام ایم ڈی گانگا اور خواجہ سلطان محمود کوریجہ نے کہا ہے کہ اب تک کے تلخ حقائق یہ ہیں کہ حکمران طاقت ور گروہوں اور مافیاز کی بات سنتے سمجھتے اور فیصلے کرتےہیں.کسان اور زراعت ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں.
یہی وجہ ہے کہ کسانوں کو گنے کا سرکاری طور پر مناسب ریٹ نہیں مل سکا.نزید لوٹ مار اور کسانوں کا ادتحصال کرنے کی غرض سے شوگر ملز کی بندش قانون اور حکمرانوں کے منہ پر طمانچے مارنے کے مترادف ہے.ایسی شوگر ملز کے خلاف حکمرانوں اور انتظامیہ کا اتنے دن گزرنے کے باوجود کاروائی نہ کرنا معاشی ڈکیتوں کا ساتھ دینے والی بات ہے.
حکمرانوں اور شوگر ملز مالکان سے کسی بھلے، اچھائی اور خیر کی امید رکھنے کی بجائے کسانوں کو اپنے بچاؤ اور مناسب ریٹس کے حصول کے لیے خود کچھ کرنا پڑے گا.
گنے کے کاشتکار صرف دو کام کرکے اگلے سال گنے کا اپنا مرضی کا ریٹ حاصل کر سکتے ہیں. پہلا کام ہر کسان اپنی گنے کی کاشت 30فیصد کم کر دے. دوسرا اہم کام یہ ہے کہ کوئی کسان کسی شوگر ملز سے کسی شکل و صورت میں قرضہ ہرگز نہ لے.
ضلع رحیم یار خان میں آجکل گنے کے ریٹ میں اضافہ نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ شوگر ملوں کی جانب سے جاری کیا جانے والا اربوں روپے کا قرضہ ہے.شوگر ملیں اپنے قرضوں کی واپسی میں ابھی گنا وصول کر رہی ہیں.
اگر کسانوں نے اتنی زیادہ تعداد میں قرض نہ لیا ہوتا تو آج ایل پی کی شکل میں انہیں 250 سے اوپر گنے کا ریٹ مل رہا ہوتا.سال کا اختتام کم و بیش 300روپے من پر ضرور ہوتا.
کسان بھائی پہلے اپنی اپنی اصلاح اور سمت درست کر لیں. انشاء اللہ کسان حقوق کی جدوجہد بھی جاری رہے گی.جام ایم ڈی گانگا نے مزید کہا کہ ضلع رحیم یار خان میں کسانوں کو بلاتفریق ہر خاص و عام کو گنے کا اضافی ریٹ صرف اور صرف اس وقت ملے گا.
جب جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز گروپ نے اپنا ریٹ بڑھایا.ضلع رحیم یار خان میں تقریبا شوگر ملز تھری ان ون ہیں. وہ صرف گنے کی کرشنگ کرکے چینی نہیں بنا رہی اپنی دیگر ذیلی پراڈکٹ کے ساتھ ساتھ دو اور بڑے بڑے کام بھی کر رہی ہیں.
پاور پلانٹ چلا کر بجلی بنا جر بیچ رہی ہیں. اربوں روپے کے قرضے کا لین دین کرکے ایک بڑے بنک کا کام بھی سر انجام دے رہی ہیں.
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون