دِلّی میں دوسرا دن
یہ بائیس اکتوبر کی ایک روشن صبح تھی ، بدھ وار تھی اور مجھے پروگرام کے مطابق اکیلے پرانی دِلی دیکھنے کیلئے نکل جانا تھا، چنانچہ رات کو سونے سے پہلے ہوٹل انچارج پالے رام سے پرانی دلی جانے کا راستہ بخوبی سمجھنے کے بعد اپنی سفری ڈائری میں نوٹ کر لیا تھا ۔پالے رام کا مشورہ تھا کہ میٹرو ٹرین سے چاندنی چوک اُتر کر اگر کسی سائیکل رکشے والے سے کرایہ طے کرنے کے بعد رکشے پر بیٹھ کر پرانی دِلی کے رنگ ڈھنگ د یکھو گے تو زندگی بھر یاد رکھو گے۔ پالے رام سے چائے کی پیالی پینے کے بعد میں پیدل مارچ کرتا قرول باغ کے میٹرو اسٹیشن جا پہنچا ۔قرول باغ کی میٹرو نے جھنڈے والا، راما کرشنا آشرم اسٹیشنوں کے بعد راجیو چوک تک پہنچا تھا، جہاں سے اُتر کر مجھے پرانی دلی جانے والی میٹرو پکڑنی تھی جو چھاﺅڑی بازار سے ہوتی چاندنی چوک پہنچتی ہے۔میرے سامنے والے بنچ پر نو بیاہتا جوڑے کے ساتھ ایک سندر سی لڑکی بیٹھی تھی ۔میٹرو کے دروازے ابھی تک کھلے تھے اورروانگی کا اعلان ختم ہوا چاہتا تھا کہ ا چانک ایک نوجوان لڑکا ہاتھ میں موبائل پکڑے بڑی تیزی سے اندر داخل ہوا اور بے اختیاری میں اُس سندر لڑکی کے ساتھ والی خالی جگہ پر بیٹھ گیا ۔اگرچہ دلی کی میٹرو ٹرین میں خواتین کے لئے مخصوص کمپارٹمنٹس بنائے گئے ہیں جہاں مردوں کا داخلہ ممنوع ہے مگر خواتین مردوں والے کمپارٹمنٹس میں بھی سفر کر سکتی ہیں۔کسی جوان لڑکے کا اکیلی انجان لڑکی کے ساتھ بیٹھ جانے سے میرے دل و دماغ کے اندر غیر ارادی طور پر یہی خیال کوندا کہ آج ذرا دِلی کے جوانوں کو جانچ پرکھ کر دیکھ لیا جائے کہ وہ یہاں کی لڑکیوں کو کیسے گھورتے ہیں اور کس کس انداز سے انہیں تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے 1997سے 2000تک کا درمیانی عرصہ لاہور میں گزارنے کا موقع ملا جب صبح سویرے چوبرجی چوک سے سمن آباد گول چکر کی ویگن پکڑنا پڑتی تھی اور کئی بار ویگنوں میں خواتین کے ساتھ چھیڑخانی کے واقعات دیکھنے کو ملا کرتے تھے خصوصاً ویگن کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی خواتین کے ساتھ ڈرائیوروں کی نازیبا حرکات وسکنات اور اندر بیٹھی خواتین کے ساتھ کنڈیکٹروں کی بدسلوکیاں اور بدتمیزیاں روز مرہ کا معمول ہیں اور تو اورچادروں میں لپٹی راہ چلتی خواتین کاایکس رے کرنے اور انہیں دیکھ کر اونچے لہجے میںذومعنی جملے اور فقرے کسنا ہماری عادت ہے، لہٰذا میں پاکستانی ویگنوں اور بسوں کا دلی کی میٹرو ٹرین میں سفر کرنے والے مسافروں کے ساتھ موازنہ کرکے یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ہندوستان میں لڑکیوں کو گھورنے،ہراساں کرنے، آوازیں کسنے، ذومعنی جملے بولنے ، ستانے اور ٹھرک مارنے کی شرح کتنے فیصد ہے؟ اپنی تحقیق کی خاطرمجھے قرول باغ اسٹیشن سے چڑھے اُس نوجوان لڑکے کو مسلسل اَنڈر آبزرویشن رکھنا تھا۔پچیس منٹ کے سفر کے بعد میٹرو ٹرین کی شفاف کھڑکی کے پار ہندوﺅں کے دیوتا ہنومان کا بلند و بالا مجسمہ د کھائی دیا جو اِس بات کی نشانی تھی کہ جھنڈے والا اسٹیشن قریب آن پہنچا ہے لہٰذاسواریاں اترنے کیلئے تیار ہو جائیں ۔میرے سامنے بیٹھی سواریوں میں کوئی خاص کھلبلی نہ مچی جو اس بات کی علامت تھی کہ شاید انہیں جھنڈے والے اسٹیشن پر نہیں اترنا۔ہنومان کے دیوقامت مجسمے نے اگرچہ میری توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مگر میں اپنے سامنے والے بنچ پر بیٹھے لڑکے کو بھی برابر فوکس کئے ہوئے تھا ۔چھیڑ خانی تو دور کی بات مجال ہے جو اُس لڑکے نے آنکھ اٹھا کر بھی ساتھ بیٹھی لڑکی کو دیکھنے کی کوشش کی ہو۔ وہ سارا راستہ اپنے موبائل میں مشغول رہا جبکہ لڑکی اپنے کانوں میں ائیر فون ٹھونسے موبائل سے میوزک سننے کے ساتھ ساتھ اردگرد کے مسافروں کو غیر ارادی طور پر دیکھتی رہی ۔ راجیو چوک آتے ہی وہ لڑکا بھی میرے سا تھ وہیں اُتر گیااور میری تحقیق اس نتیجے پر پہنچی کہ دِلی کے نوجوان صرف اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں،اگر کسی نے گرل فرینڈپال رکھی ہے تو وہ اسی کے ساتھ ہی جڑا نظر آئے گا اور جو اکیلا ہے اس کے اپنے شغل میلے ہیں۔لڑکوں کاٹولیاں بنا کر سکوٹر چلاتی لڑکیوں کا پیچھا کرنا ، سیٹیاں، جملے بازی ، نامناسب اشارے وغیرہ مجھے پچھلے تین چار دنوں سے ابھی تک کہیں بھی ایسا کوئی واقعہ دیکھنے کو نہ مل سکا تھا ۔شایداس مہذبانہ پن میں قوانین کی بالادستی انہیں اس بات کی اجازت نہ دیتی ہو،یا مہذب ہونے پہ مجبور کرتی ہو،بہر کیف راجیو چوک اسٹیشن سے انڈر گراﺅنڈ اتر کر چاندنی چوک کی میٹرو پکڑی جس نے مجھے پرانی دِلی کے چاندنی چوک پر اتار دیا۔
چاندنی چوک: لو جی میں پرانی دِلی کے فصیل بند علاقے چاندنی چوک پر آن کھڑا ہوں ۔ مشہور ہے کہ دلی شہر کی اصل روح یہیں بستی ہے ۔اس چوک کی تاریخ بھی کافی دلچسپ ہے، کہا جاتا ہے کہ جب شاہجہان سترہویں صدی عیسوی میں تخت پر رونق افروز ہوا تو دارالحکومت کو آگرہ سے دِلی منتقل کروادیا ۔ اُن دنوں دِلی کا مہر ولی کا قدیمی علاقہ پہلے سے آباد تھا جسے بادشاہ نے پرانی دلی کہا اور ایک خاص ترتیب کے ساتھ شاہجہان آباد کے نام سے نیا شہر بسایا جہاں پر نئے مندر، مساجد، گردوارے اور شاندار لال قلعہ تعمیر کیا گیا۔ شاہجہان نے اپنے دور کی دلی کو د لئی نو (نئی دلی)کہا مگر یہ شاہجہان آباد کے نام سے زیادہ مقبول ہوئی۔ چنانچہ انگریزوں نے شاہجہان آباد سے باہر انڈیا گیٹ بنا کر نئے شہر کو نئی دِلی کا نام دیااور اس طرح شاہجہان آباد پرانی دِلی بن گیا۔
میں پرانی دِلی کے دھڑکتے دل (چاندنی چوک) کی فٹ پاتھ پر سوئی ایک لاغر بڑھیا کے سامنے کھڑا سوچ رہا ہوں کہ یہاں تو ہر طرف چاندنی ہی چاندنی بکھری ہونی چاہیے تھی کیونکہ شاہی خاندان کی خواتین یہاں پر خریداری کے لیے آیاکرتی تھیں اور یہ چوک کسی زمانے میں صاف ستھرا ہوتا ہو گا لیکن یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ، میرے چاروں جانب رش، گندگی، غلاظتوں کی بھرمار اور گردوغبار۔ آگے پیچھے سائیکل رکشے ،سکوٹر،ریڑھے، ہتھ ریڑھیاں، ٹھیلے اور کندھے سے کندھا ملائے چلتے پھرتے انسانوں کے سر دکھائی دیتے ہیں جو یہاں کے پر ہجوم چوک میں پیدل چلنے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔ کیا یہ وہی چاندنی چوک کا شاہی بازار ہے کہ جس کا نقشہ شاہجہان کی خوبرو بیٹی جہاں آراءنے اپنے ہاتھوں سے ترتیب دیا تھا ؟ اورجو فتح پوری مسجد سے شروع ہو کر دِلی کے لال قلعے تک پھیلا ہوا بازار تھا ، جس کے وسط میں تالاب بنائے گئے تھے۔شہزادی کے حکم پر تجارتی کاروبار رات گئے تک چلتا رہتا ، سرِ شام مٹی کے دیے جلا دئیے جاتے ، شہر فانوسوں اور چراغ دانوں کی روشنیوں سے منور ہو جاتا ، لال قلعے میں نصب آکاش دِیا روشن کر دیا جاتا جو دراصل ایک بہت بڑا چراغ تھا جسے کئی مضبوط رسیوں کے ساتھ قلعے کے چالیس فٹ اونچے ستون پر لٹکایا گیا تھا۔ آکاش دِیے کی روشنی کے ساتھ ساتھ جب تالابوں کی سطح پرچاند کا منور عکس پڑتا تو چاندنی چوک سمیت اردگرد کا سارا علاقہ روشنیوں سے جھلملا اٹھتا تھا۔
موجودہ چاندنی چوک کے چاروں اطراف تنگ و تاریک مارکیٹیں ہیں اور دکانوں کے آگے فٹ پاتھوں پر سجی دکانیں،اردگرد اِکا دُکا چلتے پھرتے گورے سیاح ، قلفیاں،چائے کے ہوٹل، چپلوں، مونگ پھلیوں کے ٹھیلے،چھولے بھٹورے اور بھیل پوری بیچنے والے، کھونٹے سے بندھی بکریاں ، چلتی پھرتی جگالی کرتی گائیں اور فٹ پاتھ کے ساتھ لگی سکوٹروں کی بھرمار۔ یہ اکیسویں صدی کے چاندنی چوک کا منظر نامہ تھا کہ جہاں پرشہزادی کی پالکی کی بجائے ایک بندہ ہتھ ریڑھی پر فروٹ سبزیاںبیچنے کی بجائے کھلے عام گائے کا سوکھا گوبر(اوپلے ) بیچ رہا تھا جس کے اوپر موٹی موٹی مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں ۔ جہاں آراءکا چاندنی چوک تو کب کا قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔
فٹ پاتھ پر ایک لڑکا پیتل کی دیگ ریڑھی پر رکھے چھولے بھٹورے بیچ رہا تھا۔ میری فرمائش پر اُس نے جھٹ سے دو بھٹورے(چھوٹی روٹیاں) پلاسٹک کے بیگ سے نکال کر دونوں جانب گھی لگا کر اسے توے پر سینکا ، ساتھ ہی ایک ڈسپوزیبل پیالی کے اندر کچھ چھولے ڈال کر اُوپر کٹے ٹماٹر اورپیاز ڈالے، مسالہ چھڑکا اور گرم بھٹورے توے سے اتار کر ایک اخبار ی کاغذپر رکھتے ہوئے چھولوں کی پیالی سمیت میری جانب بڑھا دئیے ۔ مزے سے بنچ پر بیٹھ کر چھولے بھٹورے کھانے کے بعد اُس لڑکے سے پوچھا۔ یہاں اچھی چائے کہاں سے ملے گی؟۔ صاحب چندقدم کی دوری پر گُردوارہ ہے وہاں آپ کو فری چائے مل جائے گی۔لڑکے کا شکریہ ادا کرکے میں ابھی چند قدم چلا تھا کہ سامنے ایک اونچی چوکو ر قسم کی عمارت دکھائی دی جس کے سنہری گنبد اس بات کی چغلی کھا رہے تھے کہ یہی گردوارہ ہو سکتا ہے۔
گردوارہ سیس گنج : گردوارے میں داخل ہونے کے بعد ایک کھڑکی کے سامنے کھڑ ے ہو کر جوتے اتارے، جرابیں جوتے کے اندر سمیٹیں اور ڈیوٹی پر کھڑی ایک بوڑھی سکھ رضاکارسے ٹوکن لیا، جس نے سر پر لپیٹنے کیلئے ایک ریشمی رومال تھما دیا کیونکہ گردوارے کے اندر ننگے سر پھرنا منع تھا، یہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا جب کسی سکھ گردوارے جانے کا موقع ملا تھا ۔ ایک دوسرے سکھ رضاکار سے چائے کا پوچھا جس نے مجھے شہید بھائی جیون سنگھ لنگر ہال کی طرف جانے کا راستہ سمجھایا ۔گردوارے کی بائیں جانب بنے ایک وسیع لنگر خانے میں سکھ رضاکاروں نے ڈیوٹیاں سنبھال رکھی تھیں۔ ایک بڑے سے ہال میں گیس کے چولہوں پر دیگیں چڑھی ہوئی تھیں جہاں دوپہر کا کھانا تیار ہو رہا تھا، ساتھ میں کچھ سکھ عورتیں صبح کی چائے بانٹ رہی تھیں۔گردوارہ سیس گنج میں دو وقتوں کیلئے کل ملا کر تقریباً دس ہزار ذائرین کیلئے روزانہ لنگر کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے سلور کے پتیلوں اور دیگوں میں بھوجن تیار کرکے بھوکوں کو کھلایا جاتاہے۔ مجھے ایک ڈسپوزیبل کپ میں چائے پیش کی گئی اور وہیں لنگر خانے میں بیٹھے ایک سکھ بزرگ رمن سنگھ سے بات چیت ہوئی۔ رمن سنگھ کا تعلق لائل پور سے تھا، جب اسے پتہ چلا کہ میں پاکستانی ہوں تو اُس نے حیرت کے مارے اپنی موٹی آنکھیں باہر نکال کرساتھ بیٹھی سکھ عورت کو بتایا :” اے منڈا پاکستان وچوں کسی تھاں دا ہے گا“۔رمن سنگھ کے ساتھ بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لینے کے ساتھ ساتھ پنجابی سننے اور سرائیکی میں جواب دینے پر رمن سنگھ بولا : تسی میرے نل ا پڑیں بھاشا وچ گل کری جاﺅ، ساﺅں گرو دی، مینوں سواد آ رہا ہے۔رمن سنگھ کی زبانی گردوارے کے بارے میں کافی معلومات ملیں۔
کہا جاتاہے کہ سکھ دھرم کے نویں گرو تیغ بہادر نے اورنگزیب عالمگیر کے جبری تبدیلی مذہب کے حکم نامے کو چیلنج کیا تھا اور اُس کے دربار میں پہنچ کردرخواست کی تھی کہ بادشاہ سلامت ہندوستان میں ہر دھرم کے ماننے والوں کو ان کے دھرموں کے مطابق زندہ رہنے کا حق دیں اور کسی کو بزورِ طاقت کلمہ نہ پڑھائیں ۔دِلی کے دربار میں پہنچتے ہی اورنگزیب نے تیغ بہادر کو قید کر لیاتھا اور اس شرط پر اس کی رہائی رکھی گئی تھی کہ وہ سکھ دھرم سے تائب ہو کر کلمہ پڑھ لے اور مسلمان ہونے کا اعلان کر دے ، جسے اُس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور چاندنی چوک کے اسی مقام پر سر کٹو کر امر ہو گیاتھا ۔بہرحال یہ سکھوں کی اتہاسی روایت ہے اور ایسے کئی حوالے ہیں جو اورنگزیب کے حکم پر گرو تیغ بہادر کے قتل کے متعلق مختلف کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ایک دوسری روایت کے مطابق گرو تیغ بہادر کو اورنگزیب نے قتل نہیں کروایا تھابلکہ وہ کشمیری پنڈتوں کے حقوق کیلئے کھڑے ہوئے تھے جنہوں نے ان سے مدد طلب کی تھی کہ وہ شہنشاہ ِ ہند سے ان کی طرف سے مصالحت کا کردار ادا کریں اور ان پر حالیہ نافذ کردہ جزیے کے فیصلے کو واپس لینے کیلئے کہیں۔گرو تیغ بہادر نے کشمیری پنڈتوں کے تحفظات کو جب اورنگزیب کے سامنے پیش کیا تھا تو اس کا خوب مذاق اڑایا گیا تھا اور اُن سے اپنے گرو ہونے کے ثبوت کے طور پر کوئی معجزہ پیش کرنے کو کہا گیاتھا۔انہوں نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر کوئی منتر لکھ کراُسے دھاگے کی مدد سے گلے میں لٹکا نے کے بعد مغل حکام سے کہا تھا کہ جب تک یہ منتر ان کے گلے میں بندھا رہے گا ان کا سر تن سے جدا نہیں ہو سکتا، چاہے جلاد تلوار سے ان کی گردن پر وار ہی کیوں نہ کرے۔یہ کہنے کے بعد گرو نے اپنے کسی سیوک کو حکم دیا تھا کہ اس کے سر پر تلوار سے ضرب لگائی جائے۔ سیوک نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے گرو کی گردن پر تلوار سے وارکرکے سر تن سے جدا کر دیا تھا، بعد میں جب مغل حکام نے گرو کے ہاتھ سے لکھے منتر کو کھول کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا، ” میں نے اپنا سر تو دیا مگر اپنا راز نہ دیا”۔ سر قلم ہونے کے بعد سکھ اپنے گرو کی آخری رسومات ادا کرنے کی خاطر میت لے جانا چاہتے تھے مگر مغلیہ فوج لاش دینے سے انکاری تھی۔ کہتے ہیںجس دن تیغ بہادر قتل ہوا، اُس دن دِلی میں کالی آندھی چلی تھی اور ریت کے طوفان نے ہر چیز کو دھندلا دیا تھا۔ سکھوں نے اس دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے گرو کا دھڑ اٹھا کر ایک ٹھیلے پر ڈالا اور اُسے رکاب گنج میں کسی سکھ سیوک کے گھر لے گئے تھے جبکہ سر کو آنند پور لے جا کروہاں اُس کی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں۔ شاہی فوج کے خوف سے رکاب گنج کے اس پورے مکان کو آگ لگا دی گئی تھی جہاں گرو کا دھڑ رکھا گیا تھا۔اس واقعے کے بعد رکاب گنج، آنند پور سمیت چاندنی چوک پر بھی گردوارے بنائے گئے تھے، سکھ یاتری گولڈن ٹمپل کے بعد ان تینوں گردواروں کی یاترا فرض سمجھتے ہیں۔ تیغ بہادر مغل شہنشاہوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے دوسرے سکھ گرو تھے، اس سے پہلے قریب ستر سال قبل 1606 میں پانچویں سکھ گرو، اَرجن کو جہانگیر بادشاہ کے حکم پر قلعہ لاہور کے سامنے دریائے راوی کے کنارے قتل کیا گیا تھا۔گُرو ارجن کے قتل سے پہلے تک سکھ فرقہ سادھوﺅں پر مشتمل ایک پرامن ٹولی ہوا کرتا تھا،یہ ٹولی جوگیوں کی مانند گلی محلوں میں گھوم پھر کر بابا گرونانک کے اشلوک گایا کرتی تھی ،مگر جہانگیر کے حکم پر گُرو اَرجن ، اورنگزیب کے حکم پر تیغ بہادر کے قتل کے رد عمل میں یہی پر امن سکھ سادھو انتقامی جذبے کے تحت ایک خوفناک مسلح جنگجو جتھے میں تبدیل ہوئے تھے اور پھر اس دور میں خون آشام بندہ بیراگی سنگھ اور ہری سنگھ نلوہ جیسے سفاک کرداروںنے جنم لیا تھا ، جنہوں نے مسلمانوں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دی تھیں۔
گردوارہ سیس گنج کے لنگر خانے میں جہاں بیٹھا میں چائے کی چسکیاں لے رہا تھا یہ وہی مقام تھا جہاں پر سکھوں کے اتہاس کے مطابق تیغ بہادر کا سر قلم کیا گیا تھا یا گرو نے بخوشی اپنا سر قلم کروایا تھا۔چائے ختم کرنے کے بعد رمن سنگھ سے اجازت طلب کی اور گردوارے کے اندر داخل ہو نے کیلئے بالائی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ گردوارے کی داخلی سیڑھی ہر وقت شفاف پانی سے بھری رہتی ہے جس کے اندر پاﺅں ڈبونا متبرک سمجھا جاتا ہے۔میں اپنے پاﺅں ڈبونے کے بعد اوپر چڑھ گیا۔گردوارے کے عین داخلی دروازے پر ایک سکھ نیزہ پکڑے سیکورٹی کا فریضہ سرانجام دے رہا تھا۔عمارت کے اندر ایک سرخ مخملی قالین بچھا تھا جس کے اوپر بیٹھے لوگ بھجن سن رہے تھے جبکہ عین وسط میںایک سنہری گرِل کے اندر کوئی قبر نما اُبھری چیز بنائی گئی تھی جس پر چادریں چڑھائی گئی تھیں اوراس کے سامنے ایک سکھ سفید ریشمی پروں کا دستی پنکھا جھل رہا تھا۔کوئی اس کے سامنے دعا ئیں مانگ رہا تھا تو کوئی سجدے کر رہا تھا ۔کچھ وقت دبیز قالین پر سستانے کے بعد میں گردوارے کی عمارت سے منسلک ایک تہہ خانے میں اتر گیا ۔ سکھ روایت کے مطابق یہی وہ مقام تھا جہاں گرو تیغ کا سر قلم کیا گیا تھا،ساتھ ہی ایک قریبی کنواں بھی تھا جس کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ قتل سے پہلے گرو نے اسی کنوئیں سے اشنان کیا تھا۔ سیس گنج گردوارے کا معائنہ کرنے کے بعد جب مطلوبہ مقام پر اپنے جوتے واپس لینے کیلئے ٹوکن دکھایا تو مجھے خوشگوار حیرت کا جھٹکا لگا جب مجھے میرے جوتے پالش شدہ حالت میں واپس ملے، اندر رکھی جرابوں کو بھی جھاڑ کر ترتیب سے رکھا گیا تھا۔ میرے جیسے مسلمان جو اکثر جمعہ نماز کے وقت نئی چپل پہن کر واپسی پر پرانی چپل پہن کر گھر آتے ہوں ، انہیں واپسی پر پالش شدہ جوتے ملیں گے تو واقعی انہیں حیرت کا جھٹکا ضرور لگے گا۔ سکھوں کے گردوارے کو زندگی میں پہلی بار دیکھنے کے بعد جب میں سیڑھیاں اُتر رہا تھا تو میرے ذہن میں صرف ایک چیز گردش کر رہی تھی کہ سکھوں کے گرو نے سارے دھرموں کی آزادی کیلئے چاہے خود کو قتل کروایا ہو ، چاہے اسے جان بوجھ کر قتل کیا گیا ہو، ایک چیز بہرحال طے ہے کہ کوئی بھی دھرم جبری تبدیلی مذہب کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کیونکہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ میرے دھرم کو جاننے کے بعد جب رمن سنگھ کو پتہ چلا کہ میں پاکستانی مسلمان ہوں تو اُس نے نفرت سے دھتکار کرمجھے گردوارے سے باہر نکل جانے کی بجائے مسرت کا اظہار کیا اور عزت دیتے ہوئے یہ تک کہا کہ ہمارے گردوارے میں کوئی بھی مسافر قیام کر سکتا ہے چاہے اُس کا کوئی بھی دھرم کیوں نہ ہو۔
مجھے زندگی میں دو عبادت گاہیں کبھی نہیں بھول سکتیں ۔ ایک ڈیرہ میں اہل تشیع مسلمانوں کی مسجد لاٹو فقیر اور دوسرا چاندنی چوک دِلی میں سکھوں کا گردوارہ سیس گنج۔ ان دونوں مقامات پر مجھے میرا مخالف مسلک اور مخالف دھرم ہونے کے باوجود اپنائیت ملی ۔ مسجد لاٹو فقیر میں کسی شیعہ مسلمان نے مجھے میری مسلک کے مطابق نماز پڑھنے سے نہ روکا اور سیس گنج گردوارے میں میرے مسلمان ہونے کے باوجود کسی سکھ نے اورنگزیب کے ظلم کا بدلہ مجھ سے لینے کی کوشش نہ کی ۔رَمن سنگھ نے کیا خوب کہا تھا کہ دھرم کوئی سا بھی ہو، ہمیشہ پریت اور ایکتا کادرس دیتا ہے۔دھرم حیوانوں کوانسان بنانے کیلئے آیا ہے اور ہر انسان کو زندہ رہنے کا پورا حق دیتا ہے۔ واقعی محبت سے بڑا دھرم اور انسانیت سے بڑی سچائی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی ۔
سکھوں کے گردوارے کے سامنے جہاں فوارہ بنایا گیا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں انگریز آزادی کے متوالوں کو سرِ عام پھانسیوں پر لٹکایا کرتے تھے۔کسی زمانے میںاسی چوک پرمحرم اور عید میلاد کے جلوس نکلا کرتے تھے، امام کے ماتم داروں اور زنجیر زنوں کے حلقے جمتے تھے ۔ چاندنی چوک کے فٹ پاتھوں پر رواں دواں زندگی کو دیکھنے کے بعد مجھے یہ لاہور کی انارکلی جیسا لگا کہ جہاں پر ہر قسم کی اشیاءمل جاتی ہیں مثلاًملبوسات، چپل،الیکٹرانکس،مٹھائیاں وغیرہ۔دلی میں صبح شام سب سے زیادہ کھایا جانے والا سستا اورذائقے دار کھانا دہی بڑے، پانی پوریاں (گول گپے)، چھولے بھٹورے اور سموسے ہیں ۔
دِلی کی دل والی
منہ چکنا پیٹ خالی
دلی والے ہمیشہ لذیذ کھانوں کے شو قین رہے ہیں۔ایک زمانہ تھا جب چاندنی چوک پر استاد گنجے کی نہاری، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے چچا کبابی کے سیخ کباب اورلال کنوئیں کے قریب حاجی نان بائی کے کھانوں کی مہک نے دلی کو مہکا رکھا تھا۔چاندنی چوک کی جلیبیاں، پراٹھوں والی گلی اور گھنٹے والا شاہی حلوائی کی دکان کا بنا سوہن حلوہ مغلوں کے دور سے مشہور چلا آرہا تھا۔ باوجود کوشش کے مجھے سوا دو سو سال پرانی گھنٹے والا حلوائی کی دکان کا سراغ نہ مل سکا۔میںچلتے چلتے چاندنی چوک کے آخری کونے تک آپہنچا۔ چوک کے طویل بازار سے گلے ملتی شاہراہ کے پارایک وسیع و عریض رقبے پر مغلوں کا تعمیر کردہ لال قلعہ سینہ تانے کھڑا دکھائی دیا جس کے اوپر بھارتی ترنگا لہرا رہا تھا۔
لال قلعہ دہلی: سڑ ک پار کرنے کے بعد میں قلعے کے مرکزی گیٹ کے اندر داخل ہو گیا۔سرخ اینٹوں سے مزین ایک خوبصورت قلعہ میرے سامنے تھا،جس کے سامنے کھڑے لوگ گروپوں کی صورت میں تصاویر کھنچوا رہے تھے ۔ میں قلعے کے باہر کھڑا اُس کی شان دیکھ رہا تھا ، یہی قلعہ مغلوں کے کرّوفر کے بعد ان کا آخری دفاعی مورچہ ثابت ہوا تھا اور سلطنت کا آخری جنازہ بہادر شاہ ظفر نامی شہنشاہ کی زندہ لاش کی صورت اسی قلعے کی فصیلوں سے باہر نکالا گیاتھا۔اب اس قلعے کی فصیلیں پندرہ اگست کے موقع پر لمبی لمبی ہانکنے کے کام آتی ہیں جہاں بھارت کا پردھان منتری قوم سے خطاب کرتا ہے ۔ ایک بھارتی جوڑے کی گروپ تصویر کھینچنے کے بعد انہوں نے قلعے کے سامنے میری تصویر کھینچ کر کیمرہ واپس لوٹایا اوربائیں طرف ٹکٹ گیلری کا راستہ بھی سمجھا دیا۔میںٹکٹ لینے کی غرض سے ایک طویل قطار میں کھڑا ہو گیا۔ٹکٹ گیلری کے سامنے بنی دو طویل قطاریں نہ صرف بھارت کی سیاحتی پالیسی کی کامیابی کی دلیل تھیںبلکہ ان قطاروں کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاتھا کہ بھارتی حکومت مسلمانوں کے تاریخی ورثے سے کس قدر زر ِمبادلہ کما رہی ہے۔افسوس کہ ہمارا خطہ (وادی سندھ) جو گنگا جمنی تہذیب سے بھی زیادہ قدیم ہے اور ہمارے خطے کے شہر، قلعے اور عمارات ہندوستانی علاقوں سے زیادہ تاریخی ہیں مگر ایک بااثر تہذیبی ورثے کے امین ہونے کے باوجود غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے میں مکمل ناکام رہے ہیں ۔جتنے خوبصورت مناظر،سمندر ،پہاڑ، دریا،جھیلیں اوروادیاں ہندوستان کے پاس ہیں اس سے زیادہ ہمارے پاس ہیں مگر فرق سہولیات، مار کیٹنگ اور اعلیٰ قیادت کا ہے۔بھارت میں سیاحت کو انڈسٹری کا درجہ حاصل ہے اسی لئے بھارتی سرکار سیاحو ں کو ہر قسم کی سہولیات بہم پہنچاتی ہے مگر ہماری حکومت کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ اس بارے میں کبھی سوچے اور غیر ملکی سیاحوں کو اپنے تہذیبی ورثے کے بارے میں آگاہی دے کر اپنے ورثے کی پروجیکشن کرے ۔ ہماراسیاسی ، ثقافتی اور سیاحتی بنیادوں کا شعبہ اِتنا کمزور ہے کہ ہمارے بارے میں مثل مشہور ہے کہ” پاکستانی اپنا سونا تک نہیں بیچ سکتے، بھارتی اپنا مٹی گارا ،کیچڑتک بیچ آتے ہیں“۔
شاہی قلعہ لاہور تو دور کی بات روہی کا قدیمی قلعہ ڈیراول ہم سے نہیں سنبھالا جاسکا۔ اپنے وقتوں کا شاہکار قلعہ ڈیراول ہماری آنکھوں کے سامنے روہی کی تپتی ریت میں دھیرے دھیرے فنا ہوتا جا رہا ہے۔ملتان میںپرہلاد کا قدیمی مندر، ڈیرہ اسماعیل خان کے پہاڑی سلسلے کوہِ سلیمان پر پتھروں سے بنائے گئے ساتویں ، آٹھویںصدی عیسوی کے قلعہ بل اوٹ اور تل اوٹ وغیرہ اگر یہ شاہکار عمارتیں آج بھارت کے پاس ہوتیں تو نہ جانے وہ ان سب کی تذئین آرائش کرکے مزید کتنا زرمبادلہ کماتا ۔کچھ عرصہ قبل سڈنی میں مجھے خالد نامی عربی سے ملنے کا اتفاق ہوا، جو خرطوم کالج میں شعبہ تاریخ کے لیکچرر رہ چکے تھے ۔ جب اسے اُس کا نام اردو میں لکھ کر دکھایا تو یہ جان کر انتہائی افسوس ہوا کہ عربی تاریخ کے اتنے پڑھے لکھے جہاندیدہ انسان کو پتہ تک نہیں تھا کہ جو لفظ میں اس کے سامنے لکھ رہا ہوں وہ عربی نہیں بلکہ اُردو ہے۔اسے بٹھا کر سمجھایا کہ عرب سے محمد بن قاسم جب ہند آئے تھے تب عربی، ہندی، فارسی اور دیگر مقامی زبانوں کے ملاپ سے ایک نئی زبان وجود میں آئی تھی جسے اُردو کہتے ہیں اتنا سمجھنے کے بعد اُن کا دوسرا سوال واقعی حیران کن تھا۔شُو بن قاسم( کون بن قاسم)؟۔
میرا دل چاہا ابھی زلزلہ آجائے، زمین پھٹ پڑے اور میں اس میں سما جاﺅںکہ جن لوگوں کو ہم نے مدتوں اپنا ہیرو بنائے رکھا ، انہیں اُن کی اپنی تاریخ پڑھانے والے جانتے تک نہیں ۔یہ ظلم ہم پر ریاست نے کیا یا نصاب تیار کرنے والوں نے؟۔ ہم گلہ پالیسی سازوں سے کریں یا پھر گریبان ریاست کا پکڑیں جو آج بھی ہماری پانچ ہزار سالہ تاریخ کی منکر ہے اور ہمارے جغرافیائی، لسانی، ثقافتی وجود سے یکسر انکاری ہے۔ اگر ہمارے ارباب اختیار چاہتے تو تقسیم کے بعد پیچھے چھوڑ جانے والے قدیمی مندروں اور گردواروں کو مسمار کروانے کی بجائے دماغ سے کام لے کر اُن سب تاریخی مقامات کو اصل شکل وصورت میں بحال کرتے ہوئے وہی کچھ کرتے جیسا ہندو بنیا بھارت میں مسلمانوںکی تاریخی عمارات کو چمکا دمکا کر ہماری محنتوں کو اپنی تاریخ کے نام سے بیچ کر مزے سے پیسے بٹور رہا ہے۔ افسوس ستر سال گزرجانے کے باوجود بھی ہمیں شعور نہیں آیا، اگر ہمیں ذرا سی بھی عقل ہوتی تو آج ہمارے تاریخی مقامات یوں ویران و سنسان نہ پڑے ہوتے بلکہ بھارت کے تاریخی مقامات کی طرح ا ٓج ہمارے ہاں بھی لمبی قطاریں ہوتیں اور وہاں پر بھی دو قسم کی ٹکٹیں بک رہی ہوتیں ، غیر ملکیوں کیلئے دو سے اڑھائی سو روپے ، مقامی افراد کیلئے پندرہ سے بیس روپے کی ٹکٹ۔کچھ ہندوستانی دوستوں نے مجھے پہلے سے تاکید کر دی تھی کہ دلی میں جہاں کہیں بھی کسی تاریخی عمارت دیکھنے جاﺅ ، چپ چاپ کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو جانا ۔ اگر اپنی شناخت بطورِ پاکستانی کروائی تو خوامخواہ میں دو اڑھائی سو روپوں کی غیرملکی ٹکٹ لینا پڑے گی، لہٰذا چپ چاپ مقامی ٹکٹ پکڑو اور مزے کرو۔ ملک راجکمار کا بھی یہی کہنا تھا کہ تم شکل و صورت سے دراوڑ لگتے ہو اور کہیں سے بھی شائبہ نہیں پڑتا کہ تم پاکستانی ہو، لہٰذا اِس ظاہری خوبی کو کیش کرواﺅ اور پیسے بچاﺅ۔چنانچہ یہ نصیحت پہلے دن گرہ میں باندھ لی تھی کہ شلوار قمیص نہیں پہننا اور چپ چاپ ہندوستانی معاشرت میں گھل مل کر اہلیان دلی کی زندگیوں کو قریب سے دیکھنا ہے۔اپنی باری آنے پر بیس روپے کا مقامی ٹکٹ خریدا اور پولیس کی رکاوٹیں عبور کرنے کے بعد قلعہ کے لاہوری گیٹ سے اندر داخل ہو گیا، جہاں سے سینکڑوں سیاح اندر باہر آ جا رہے تھے۔
جمنا کنارے کھڑا لال قلعہ اپنے اندر ایک الف لیلوی داستان لئے ہوئے ہے، جس کا تعمیراتی حسن شاہجہانی دور کا کرشمہ ہے۔لال قلعہ دہلی اندر سے مجھے شاہی محل جیسا لگا ۔ اس قلعے کے کئی حصے اورباغات ہیں۔ دیوان ِعام، دیوانِ خاص، رنگ محل، شیش محل اور غلام گردشیں وغیرہ ایک سے ایک جاذب نظر ہیں۔ دیوانِ عام میں ماربل کا بنا خوبصورت چبوترا ، کہا جاتاہے کہ بادشاہ سلامت دربار عام آراستہ کرتے تو اسی چبوترے پر جلوہ افروز ہو کر عوام الناس کو شرف دیدار سے نوازاکرتے تھے جبکہ قلعے کا رنگ محل جشن چراغاں کیلئے مخصوص تھا جہاں بادشاہ اور مصاحبین ایک ساتھ مل بیٹھ کر زندگی کا لطف اٹھاتے تھے۔دیوانِ خاص کی سیدھی جانب اورنگزیب نے اپنے دور میں موتی مسجد بنوائی تھی ، خوبصورت سنگِ مر مر سے بنی اِس مسجد کا دروازہ اندر سے بند تھا ۔قلعے کے درو دیوار سے لپٹی اُداسی اس کے ساتھ جڑی تباہیوں اور کہانیوں کی داستان چیخ چیخ کر بیان کر رہی تھی۔دیوانِ خاص میں سنگِ مر مر کا تخت ابھی تک موجود ہے مگر اس پر جو شہرہ آفاق تخت ِ طا ¶س رکھا جاتا تھا وہ غائب تھا۔ تخت طاﺅس کہاں گیا؟ دیوان خاص اور شیش محل کی دیواروں پر اتنے ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے کہ ان کی چمک سے لال قلعہ شام سے ہی بقعہ ¿ نور بن جاتا اور کبھی کسی قندیل کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ شیش محل کی دیواروں پر جڑے آئینوں اور قیمتی پتھروں کو جوڑنے والی لکیروں میں چاندی بھری گئی تھی ۔دیواروں پر جڑے ہیرے جواہرات اور دیگر قیمتی سامان نوچ کر نادر شاہ سینکڑوں اونٹوں اور گھوڑوں پر لاد کر ایران لے گیا تھا،باقی کی کسر انگریزوں نے پوری کی تھی۔کہتے ہیں کہ 1739ءکے موسم بہار میں جب ناد رشا ہی فوجوں کی صرف چھ سات گھنٹوں کی وحشیانہ قتل و غارت گری کے بعد تیس ہزار کے قریب بے گناہ بچوں، عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں کی لاشوں سے دلی کے گلی کوچے اٹ گئے تھے اور شہر میں مسلی کچلی لاشوں کو دیکھ کر گمان ہوتا تھا جیسے باغ میں خزاں آجائے اور تاحدِ نگاہ خشک پتے بکھرے پڑے ہوں۔ یہ محمدشاہ ر نگیلے کا دور تھا جس کی عیاشی اور نا اہلی کی سزا دلی کی مظلوم عوام نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر بھگتی تھی۔نادر شاہ آندھی اور طوفان کی طرح آیا اور قتل و غارت گری کرکے تخت طاﺅس، کوہ ِ نور ہیرا اور شاہی خزانہ لوٹ کر ایران لوٹ گیا۔ نادر شاہ نے ہندوستان سے اتنی دولت لوٹی کہ واپس جا کر ایران میں کئی مہینوں تک عوام کو ٹیکس کی چھوٹ دے دی تھی۔
لال قلعے کے اندر ایک میوزیم بھی بنایا گیا ہے جس میں سامان حرب و ضرب اور دیگرنوادرات (تیر ،کمان، تلواریں، بندوقوں) کے علاوہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کا اس دور کے شاہی لباس میں ملبوس ایک خوبصورت قد آدم مجسمہ بھی نصب ہے۔ بدنصیب شہنشاہ کے سامنے کھڑا میں تصور کی آنکھ سے دیکھتا ہوں کہ لال قلعے کے جنوب مشرقی کونے میں واقع شاہی محل سے راگ و نشاط کی آوازیں آرہی ہیں،رقّاصہ کی پازیب کی چھن چھن کے زیرِسایہ وقت کا شہنشاہ محمد شاہ رنگیلا بادہ نوشی کررہا ہے۔ یکایک محازِ جنگ سے ہانپتا کانپتا ایک قاصد شاہِ وقت کی طرف بڑھتاہے۔رقص روک دیاجاتاہے، پازیب کی چھن چھن تھم جاتی ہے، شاہ کو یہ سب انتہائی ناگوار گزرتا ہے، وہ قہر آلود نظروں سے قاصد کو گھور کر دیکھتا ہے۔ قاصد پہلے پہل فرشی سلام بجا لاتا ہے اور جان کی امان پانے کے بعد ایک رقعہ محمد شاہ ر نگیلے کی طرف بڑھا کر دونوں ہاتھ باندھ کر سر نیچا کئے چپ چاپ کھڑا ہوجاتا ہے۔ رقعے میں درج ہے کہ نادر شاہی لشکر پانی پت سے آگے بڑھ آیا ہے اور دلی کی طرف گامزن ہے ۔ رنگیلا شاہ رقعہ پڑھنے کے بعد اسے شراب کے جام میں ڈبو دیتا ہے اور قاصد کی طرف دیکھتے ہوئے انتہائی مخمور کن انداز میں قہقہہ مار کر تکبرانہ انداز میں بولتا ہے:” ہنوز دِلّی دُور اَست “ ،قاصد نامراد واپس لوٹتا ہے اور شاہی محل میں بزم رقص و سرور دوبارہ شباب پر آجاتی ہے۔منظر بدلتا ہے پس منظر بدلتا ہے ، نادر شاہ تختِ طا ¶س پر براجمان ہے اور ہنوز دلی دور است کا ورد کرنے والا شہنشاہ اُس کے قدموں میں پڑا ہے۔ایک شام لال قلعے پر قابض نادر شاہ کو کسی مخبر کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے کہ رنگیلا شاہی خزانے کی جانب گیا ہے۔ نادر شاہ اس کاپیچھا کرتے ہوئے شاہی خزانے پہنچتا ہے اور کیا دیکھتا ہے کہ رنگیلا اپنی پگڑی میں کچھ چھپا رہا ہے۔نادر شاہ ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھتا ہے ، رنگیلے کو گلے لگاتا ہے اور اُسے اپنا پگڑی بدل بھائی قرار دیتے ہوئے اس سے اپنی پگڑی بدل لیتا ہے ۔رنگیلے کی پگڑی میں چھپا کوہِ نور ہیرا مغلوں کی آبرومندانہ پگڑی سمیت نادر شاہ کے سر پر سجا دیا جاتا ہے۔صدیوں کا فاصلہ سیکنڈوں میں طے ہوتا ہے، لال قلعے کی سطوتِ شاہی پر پھر حزنِ تازہ کی یلغار ہوتی ہے۔ نادر شاہی لوٹ مار کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی آ جاتی ہے۔ گوری چمڑی والا حریص تاجر ہندوستان کی دولت دیکھ کر ریجھ جاتا ہے۔انگریز کی وحشت و بربریت اور غیر انسانی رویوں کی داستان سن کر لوگ نادر شاہی مظالم بھول جاتے ہیں۔ 1857ءکی ناکام بغاوت کے بعد ہندوستانیوں کو بلاامتیاز مارا جاتا ہے ۔ دلی کی گلیاں انسانی خون سے ایک بار پھر تر بترکر دی جاتی ہیں، ہزاروں بے گورو کفن لاشے اجتماعی قبروں میں اتاردئیے جاتے ہیں۔چاندنی چوک کو سر عام پھانسی گھاٹ بنادیا جاتا ہے۔لوگوں کو توپوں کے گولوں کے آگے باندھ کر زندہ اڑا دیاجاتا ہے۔ لال قلعے کا تقریباً تین چوتھائی حصہ تباہ کرنے کے بعد جنگ آزادی کے باغیوں کو خصوصی بیرکوں میں بیڑیاں ڈال کر قید کر دیا جاتا ہے، جہاں ریڈ فورٹ نامی فوجی ٹرائلزکے نام سے آزادی کے متوالوں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ اقتدار کی خواہش اور محلات کی ریشہ دوانیاں آخری مغل بادشاہ کو لے ڈوبی تھیں ،بہادرشاہ کی حیثیت شطرنج کے پیادے سے زیادہ نہیں رہ گئی تھی اورتیموری دبدبہ لال قلعہ میں محصور ہو چکا تھا۔ملک ملکہ کا تھا، حکم کمپنی بہادر کا چلتا تھا۔گھر کے بھیدی لنکا ڈھا رہے تھے۔بادشاہ کی چہیتی بیگم زینت مرزا جواں بخت کو ولی عہد بنوانا چاہتی تھیں اور اس سلسلے میں فرنگی سے ساز باز کر رکھا تھا۔بادشاہ کے سمدھی مرزا اِلٰہی بخش انگریزوں سے جا ملے تھے ، یہاں تک کہ شاہی طبیب حکیم احسن خان بھی انگریزوں کے گماشتے تھے۔بوڑھے مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو آہنی پنجرے میں بند کر کے سر عام لوگوں کے سامنے چوک میں نمائش کیلئے رکھ دیا گیا تھا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ پنجرے میں دبکا بوڑھا، لاغر قیدی بادشاہ خالی آنکھوں سے اپنی رعایا کو ٹکر ٹکر دیکھنے کے ساتھ ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کیا وہ کبھی اتنی بڑی بغاوت کا سرغنہ بھی ہو سکتا ہے؟۔میں تصور کی آنکھ سے قیدی بادشاہ کو چاندنی چوک میں کھڑا دیکھ رہا ہوں، یکایک رش سے بننے والی جھٹکے کی ایک لہر مجھے واپس لال قلعہ میوزیم میں بہادر شاہ کے مجسمے کے سامنے لا کر کھڑا کردیتی ہے اور میں حال میں واپس لوٹ آتا ہوں۔
انگریزوں نے چاندی کے آبگینے اور نادر شاہ کی لوٹ مار سے بچ جانے والے باقی ماندہ قیمتی پتھر نوچ نوچ کر اپنی ملکہ کو ولایت بھجوائے تھے جو برٹش میوزیم، برٹش لائبریری اور وکٹوریا اینڈ البرٹ میوزیم کے سرد شوکیسوں میں رکھ دئیے گئے۔ دنیا کا قیمتی ترین کوہ ِنور ہیرا ملکہ وکٹوریہ سے لے کر موجودہ ملکہ الزبتھ دوئم کے تاج میں کافی عرصے تک ضو فشانی کرتا رہا، جسے بعدمیں ٹاور آف لندن میں رکھ دیاگیا۔
لال قلعہ کے خارجی دہلی گیٹ سے باہر نکلتے وقت میں یہی سوچ رہا تھا کہ سونے کی چڑیا(ہندوستان) کی تباہی میں جہاں نادر شاہ سمیت گوری چمڑی والی قوم نے اپنا حصہ ڈالا تھا وہیں ہندوستان کے تخت و تاج پر بیٹھے نا اہل و ناکارہ حکمرانوں کی بے حسی و لاپرواہی بھی شاملِ حال تھی ۔ اسے غیروں نے بھی لُوٹا اور اپنوں نے بھی تاراج کیا ،خصوصاً اپنوں کی توجہ نہ ہو تو گھر تو کیا معاشرے اور ملک تک اجڑ جایاکرتے ہیں۔
لال قلعہ کے بیرونی گیٹ کے سامنے ایک پاپڑ بیچنے والے سے پاپڑ خریدنے کے بعد اُس سے جامع مسجد کا پتہ پوچھا ۔پاپڑ والے نے بتایا کہ جامع مسجد یہاں سے بمشکل آدھے گھنٹے کی پیدل مسافت پر واقع ہے، مگرمیں کافی تھک چکا تھا ، اسی لئے مجھے کسی رکشے والے کی تلاش تھی۔ ایک سائیکل رکشہ والے جوان سے بھاﺅ تاﺅ کے بعد میں اس کے رکشے پر بیٹھ گیا،جس نے دس پندرہ منٹ کے اندر مجھے جامع مسجد کے داخلی گیٹ نمبر2 (باب شاہجہان) کے سامنے اُتار دیا۔
جامع مسجد دِلی: ایک بلند وبالا ٹیلے پر دہلی کی مرکزی جامع مسجد کے بارعب مینار اپنا سر اٹھائے نیچے چلنے والوں کو جھانک رہے تھے۔مسجد کے صحن تک مشرقی، شمالی اور جنوبی راستوں سے بذریعہ سیڑھی رسائی ممکن ہے۔ کہتے ہیں کہ مشرقی دروازہ شاہی گزر گاہ تھی جہاں سے شاہِ وقت مسجد میں داخل ہوتا تھا۔ میری نظریں جامع مسجد کے باب شاہجہان کی سیڑھیوں پر تھیں جہاں بہت سے لوگ د نیا مافیہا سے بے خبر چادریں اوڑھے سو رہے تھے ،کہیں کہیں آوارہ کتے بھی اکتوبر کی گلابی دھوپ کا مزہ لے رہے تھے۔ مسجد کی پہلی سیڑھی سے آخرتک لمبی قطار بنائے بیٹھی غریب اورمحتاج خلقت جھولی پھیلائے سیاحوں کوتک رہی تھی ۔مسجد کی سیڑھیوں کی خستہ حالی کا یہ عالم تھا کہ سنگ سرخ کی ا ینٹیں جگہ جگہ سے شکست و ریخت کا شکار ہو چکی تھیں، جن کی مرمت کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا۔کوئی پینتیس سے چالیس سیڑھیاں چڑھنے کے بعد میں داخلی دروازے تک پہنچ گیا۔مسجد میں داخلہ مفت تھا البتہ سیکورٹی پر مامور ایک نوجوان ویڈیو کیمرہ اندر لے جانے والے سیاحوں سے پیسوں کا تقاضا کر رہا تھا ۔ کافی تگ و دو کے بعد فقط اس شرط پر کہ میں کیمرے سے کوئی ویڈیو نہیں بناﺅں گا اور صرف نمازِ ظہر پڑھ کر واپس نکل آﺅں گا، اندر داخلے کی اجازت مل گئی ۔
جامع مسجد کے کھلے صحن میںداخل ہونے کے بعد چاروں جانب نظر دوڑائی۔ شاہجہان نے اپنے دور حکومت میں دِلی، آگرہ، اجمیر اور لاہور میں بڑی بڑی مساجد تعمیر کرائیں جن میں دلی کی جامع مسجد اور لاہور کی بادشاہی مسجد کا طرز تعمیر تقریباً ایک جیسا تھا، مگر شاہی مسجد لاہور رقبے میں جامع مسجد دلی سے زیادہ وسیع لگتی ہے ۔ جامع مسجد شاہجہان کی آخری عمارت تھی جس کے بعد اسے مزید کچھ تعمیر کرنے کا موقع نہ مل سکا۔سرخ پتھروںسے مزین جامع مسجد کے چوکور چبوترے، دیواروں پر بیل بوٹے، نقاشی،اردگرد کشادہ محرابیں، خالص سفید سنگ مرمر کے تین شاندار ڈھول نما گنبد اور چاروں اطراف جھروکے تعمیر کروائے گئے تھے۔ مسجدکی تکمیل میں تقریباً آدھے سال کا عرصہ صرف ہواا ور یہاں بیک وقت پچیس ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں، مگر مجھے مسجد کی وہ شان و شوکت دیکھنے میں نظر نہ آئی جو کتابوں میں سن رکھی تھی۔ سیڑھیوں کی طرح صحن کا فرش بھی جگہ جگہ سے ادھڑ چکا تھا ، وسط میں بنے وضو کے تالاب کا پانی بھی آلودہ تھا۔میںمسجد کے صحن میں وضو کیلئے بنائے گئے آلودہ تالاب کے کنارے کھڑا سوچ رہا تھا کہ یہ مسجد ہماری ملی تاریخ میں کس قدر اہمیت کی حامل ہے، مگر مسجد کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جا رہی۔دیواروں پر جگہ جگہ اکھڑا پلستر،صحن کافرش، اندرونی گنبد ، وضو کے تالاب کا پانی اور سیڑھیوں سمیت مسجد کے اردگرد پھیلی گندگی اور تعفن وغیرہ ہندوستانی حکومت اور دہلی وقف بورڈ اس ضمن میں جان بوجھ کر مسلمانوں سے لاپرواہی برت رہے ہےں۔یہ وہی تاریخی مسجد ہے جہاں شاہجہان سے لے کر آخری بدنصیب بادشاہ بہادر شاہ ظفر تک سجدہ ریز رہے۔نہ جانے اس مسجد نے کتنے شاہوں کا عروج و زوال دیکھا۔یہی مسجد انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کی جدوجہد کا مرکز بنی۔اسی مسجد کے منبر سے انگریزوںکے خلاف فتوے جاری ہوئے ، جن کی پاداش میں علمائے حق کو چن چن کر آہنی سلاخوں کے پیچھے د ھکیلا گیا۔کئی ایک کو پھانسیاں دی گئیں،کئی ہندوستان بدر ہوئے ، کئی اسیر مالٹا اور رنگون سمیت کالے پانیوں کے سزاوار ٹھہرے ۔ اسی جامع مسجد کے منبر پر مولانا محمد علی جوہر خطاب کیا کرتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے دوران جب دلی کی گلیاں خاک و خون سے تربتر تھیں تب اسی عظیم مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر امام الہندمولانا ابوالکلام آزادنے پاکستان کی جانب ہجرت کرتے مسلمانوں کو للکارا تھا” اے مسلمانان ِہند ! ہندوستان تمہارا ہے،خدارا یہاں سے ہجرت نہ کرنا“۔ مولاناکی درخواست پربےشمار مسلمانوں نے ہجرت کا ارادہ ترک کر دیا تھا ۔ آج بھی دنیا بھر میں جہاں کہیں مسلم اُمہ پر ظلم ہوتاہے تو جامع مسجد دلی پوری طاقت و جرا ¿ت کے ساتھ ظالموں کو للکارتی ہے۔
جامع مسجد کی سیڑھیوں پرمفلوک الحال غرباءکی پوٹلیوں کے بکھرے ڈھیر ، تعفن زدہ ماحول کے اوپر منڈلاتی مکھیاں اور سیڑھیوں کے سامنے سستے کھانے کی چیزوں کے خوانچے ، تھال اور ٹھیلے لئے کھڑے دکاندار۔یہ سیڑھیاں اور ان کے آس پاس کی جگہیں کبھی دِلی کی تہذیب و ثقافت کا مرکز ہواکرتی تھیں۔ جامع مسجد دِلی کی سیڑھیوں پر ایک جہان آباد ہوتا تھا۔ دِلی کے کبابیوں میں سب سے مشہور چچا کبابی یہیں کہیں بیٹھا کرتے تھے۔ انہی سیڑھیوں پر دِلی والے حلیم کے مزے لیتے،مزیدار بریانیاں ، فالودہ اور قلفیاں کھایا کرتے تھے۔تقسیم نے دِلی کو واقعی جامع مسجد کی سیڑھیوں کی طرح خستہ حال کر دیاتھا۔مسجد کی سیڑھیاں اُتر تے ہی میں نیچے ہوٹلوں اور ڈھابوں کے درمیان پہنچ گیا ۔ایک قریبی ریسٹورنٹ سے دِلی کی نہاری کھانے کے بعد چائے کے ڈھابے سے ایک کپ چائے پیا ۔ ڈھابے کے مالک ایک باریش بزرگ تھے جن کا نام منیرتھا ،منیر صاحب کے خاندان کے کچھ افراد ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے تھے مگر اُن کے والد نے دِلی میں رہنے کو ترجیح دی تھی اور اُن کا موقف تھا کہ ہجرت کی بجائے اپنے شہر میں بسے رہنا ایک اصولی فیصلہ تھا۔مسلمان اگرچہ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت ہیںمگرتقسیم کے بعد ہندوستانی مسلمان مجموعی طور پر اپنے آپ کو قومی دھارے سے ہم آہنگ کرنے میںیکسر ناکام رہے ہیں۔میں پرانی دِلی کے جتنے بھی مسلمانوں سے ملا مجھے اُن سب کے چہروں پرمایوسی ،بددلی،خوف ، احساس شکست اور غیر محفوظ ہونے کا احساس دکھائی دیا ۔ دِلی کی مسلمان آبادی کے چاروں جانب کیچڑ اور کوڑے کرکٹ کے انبار دکھائی دئیے ۔کئی دکانیںگری پڑی تھیں، کئی ایک کے چھجوں کوپھٹی چادروں، دریوں اور ترپالوں سے ڈھانک دیا گیا تھا اور مسلمان آبادی میں مفلسی اور غربت بال کھولے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر چادریں پھیلائے بیٹھی نابینا فقیرنیوں کی طرح اپنی سانسوں کی بھیک مانگ رہی تھی۔
درگاہ حضرت سرمد شہیدؒ: منیر کے ڈھابے سے چائے پینے کے بعد میں مینا بازار کی طرف نکل پڑتا ہوں ،جہاں چند قدم کی دوری پر جامع مسجد کی شرقی سیڑھیوں کے سامنے حضرت سرمد شہید اور خواجہ ہرے بھرے شاہ کی درگاہیں دکھائی د یتی ہیں ۔
شہیدسرمد کی درگاہ اندر، باہر خون کی طرح سرخ رنگین ٹائیلوں جبکہ ہرے بھرے شاہ کی درگاہ کا رنگ سبز ہے۔سرمد کی درگاہ کا فرش سرخ،دیواریں سرخ ، چھت بھی سرخ۔ درگاہ میں لپٹے سرخ منتی دھاگے، جا بجا لٹکتی کانچ کی سرخ چوڑیاں ، قبر پر بچھی سرخ چادر سمیت چڑھاوے کی چادریں سرخ اور اس پر رکھے سرخ پھول ، قریب ہی مٹی کا جلتا دیا ۔سرمد کے ساتھ لپٹی اُن کے پیر و مرشد ہرے بھرے شاہ کی قبر پر چڑھایا گیا سبز ریشمی غلاف ۔
سرمدی درگاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ درگاہ پر چاہے کوئی سا بھی رنگ چڑھا دیجئے ، وقت کے ساتھ وہ اپنے آپ سرخ رنگ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔سرمد کون تھے؟ سرمد کوئی مخصوص شخص ، کوئی فرد ، کوئی ولی کامل نہیں بلکہ انسانی سماج کے وہ غیر فطری رویے جو فرد سے اس کی آزادی چھین لیتے ہیں، اُن غیر انسانی رویوں کے خلاف بغاوت کی سب سے بڑی علامت کا نام سرمد ہے۔وہی خود سر سرمدجس نے روحانیت کو ظاہر داری پر، سادگی کو امیری پر ترجیح دی تھی اور وہی سرمد جو جسمانی زندگی سے نجات پا کر روحانیت کو گلے لگاتے ہوئے بالآخر انت جیون کے سمندر میں جا ملا تھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہودی نسل کا آرمینیائی تاجر جو شاہجہان کے عہد سے قبل یہودیت ترک کرکے اسلام قبول کر چکا تھا،وہ چند سوداگروں کے ہمراہ تجارت کی غرض سے ٹھٹھہ آیا ۔ وہاں اَبھے چند نامی ایک ہندو لڑکے کے حسن و جمال اور شیریں آواز سے متاثر ہو کر اسے اپنے پاس رکھ لیا اور یوں دونوں عاشق و معشوق اکھٹے رہنے لگے ۔سرمد نے ابھے چند کو اپنا علم اور اِذن عطا کیا ۔ٹھٹھہ کے لوگ جب عاشق و معشوق کے مخالف ہوگئے تو اَبھے کے باپ نے اپنے بیٹے کو سرمد سے جدا کرکے قید خانے میں ڈال دیا ، نتیجتاً سرمد نے معشوق سے فراق کے غم میں تن کے کپڑے اتار دئیے اور ٹھٹھہ کے گلی بازاروں میں دیوانہ وار پھرنے لگا ۔ ابھے چند کے باپ نے سرمد کو اپنا عشق واپس لوٹا دیا ، یہاں سے دونوں لاہور آئے جہاں سرمد کے کلام کو ابھے چند کی زبان ملی ۔لاہور سے حیدرآباد اور آخری ٹھکانہ شاہجہان آباد (دلی) قرارپایا۔ اہلیان دِلی ایک مجذوب، موحد ، عارف فقیر کوشاہجہان آباد کی گلیوں میں ننگ دھڑنگ گھومتا دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جس کے ساتھ عقیدتمندوں کا ایک حلقہ ہے ۔ دارا شکوہ جیسا فقیر منش شہزادہ سرمد کی صحبت میں بیٹھنے لگا اور بہت جلد اُس ننگے مجذوب کے کشف و کرامات کا قائل ہو گیا ۔
سرمد ؒپر پہلا شرعی الزام کہ وہ کلمے کا ایک جزو ”لا الٰہ “ پڑھتا تھا، دوسرا الزام ہر وقت برہنہ رہتا ۔اورنگزیب کوپتہ چلا کہ ایک برہنہ شخص اُس کے بڑے بھائی داراشکوہ کا طرف دار ہے اور شریعت کا بھی منکر ہے حتیٰ کہ روحانی تلاش کے عوض روایتی اسلام تک کو ترک کر چکا ہے۔اورنگزیب کو اعتراض کہ سرمد صرف لا الٰہ کیوں پڑھتا ہے؟ وہ علماءکو اپنے دربار میں بلا کر اُن سے پوچھتا : سرمد کلمے کا ایک ہی جزو کیوں پڑھتاہے؟ نماز پڑھنے مسجد کیوں نہیں آتا؟ ننگ دھڑنگ کیوں پھرتا رہتا ہے؟ ۔
لال قلعے کی شاہی عدالت میں قاضیوں اور مشائخ کی جماعت کے سامنے ایک عریاں شخص کھڑا ہے۔بادشاہ کی ایماءپر علماءکمیٹی کا سربراہ مُلا قوی آگے بڑھتا ہے اور عریاں شخص کے پاس جا کر اُسے حکم دیتا ہے، کلمہ پڑھ کر ثابت کرو کہ تم سچے مسلمان ہو ۔ پڑھو: لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔ ننگے پتنگے مجذوب کے منہ سے جیسے ہی کلمے کے ابتدائی الفاظ نکلنے لگتے ہیں آسمان پر تیرتے بادل ٹھہر جاتے ہیں ، پرواز کرتے پرندے ہوا میں ساکت ہو جاتے ہیں اور قلعے کی ہوا حبس زدہ ہو جاتی ہے۔کلمے کا صرف پہلا حصہ : لا الٰہ۔ کوئی معبود نہیں پڑھنے کے بعد مجذوب یکدم رک جاتا ہے، زبان گنگ ہو جاتی ہے اور باوجود ہزار کوشش کے وہ آگے نہیں پڑھ پاتا ۔اُن سے دوبارہ پورا کلمہ پڑھنے کیلئے کہا جاتا ہے، جواب آتا ہے ”میں ابھی نفی میں مستغرق ہوں اور ابھی تک مرتبہ اثبات پر نہیں پہنچا “۔تمہارے اصرار اور میری کوشش کے باوجود میری زبان لا الہ سے آگے نہیں پڑھے گی جب تلک میری روحانی تلاش مکمل نہ ہو جائے اور میں خدائے واحد کو صدقِ دل سے قبول نہ کرلوں ،لہٰذا اِس منزل تک پہنچے بغیر مکمل کلمہ پڑھنامیرے رب کی تضحیک ہے۔ مُلاقوی پانچ وقت نماز کی ادائیگی کے بارے میں پوچھتا ہے، جواب آتا ہے کہ جس بندے کا ہر لمحہ عبادتِ الٰہی میں گزرے ،اُس کے نزدیک وہ کسی خاص وقت اور خاص جگہ پر عبادت کا پابند نہےں ہواکرتا ۔ سارے علماءاور مشائخ غصے کی حالت میں سرمد کو ستر ڈھانپنے اور پورا کلمہ پڑھنے کا آخری بار حکم دیتے ہیں ، مگر سب بے سود، سب بیکار۔آخر کار سرمد کا معتقدِ ِخاص رفیق شاہ آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے : ”سرمدکپڑے پہنو اور پورا کلمہ پڑھ لو تاکہ تمہاری جاں بخشی ہو جائے“۔جواب آتا ہے ۔عمر یست کہ آوازہ منصور کہن شد۔من از سر نو جلوہ دہم دار و رسن را( منصور کی آواز پرانی ہوئے ایک مدت گزری ،میں نئے سرے سے دار و رسن پر جلوہ افروز ہوتا ہوں)۔
ان شرعی الزامات کی بنیاد پر سرمد واجب القتل ٹھہرایا جاتا ہے اور وہیں عالمگیر ی حکم پرقاضی وقت کا فتوی ٰ صادر ہوتا ہے اور ایک سرکش انسان کو جامع مسجددِلی کی مشرقی سیڑھیوں پر لوگوں کے سمندر کے آگے کھڑا کرکے اُس کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا ہے۔سرکٹنے ہی لب پورے کلمے کا ورد کرنے لگ جاتے ہیں اور دھڑ اپنے متکلم سر کو ہاتھوں میں اٹھائے جامع مسجد کی سیڑھیاں چڑھتا مسجد میں داخل ہو جاتا ہے اور یوں سرمد ایک سج دھج کے ساتھ جنت کے راہی بن جاتے ہیں ۔جامع مسجد کی سیڑھیوں کے عین سامنے جہاں سرمد کا سر کاٹا گیا تھا وہیں سر کو دھڑ سمیت دفنا دیا گیا تھا۔
سر مد ؒکی شہادت کے بعد ہر شخص کی زبان پر یہی کلمات تھے ”اب مغلیہ خاندان کا اقتدار زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گا “،حالانکہ جب سرمد کا سر قلم کیا گیا تھا تب مغلیہ سلطنت اپنے عروج پر تھی اور بظاہر کہیں سے بھی اس کے زوال کا کوئی ظاہری جواز دکھائی نہےں دے رہا تھا ،مگر سرمد کے ماننے والے سچ کہتے تھے کہ اب مغل حکمران زیادہ عرصہ تخت ِشاہی پر نہیں بیٹھ پائیں گے۔
چاہے ڈیرہ اسماعیل خان کے مجذوب اللہ ڈتہ کا بے گناہ قتل ہو یا دِلی کے سرمد شہید کا قصہ۔ حقیقت یہی ہے کہ جب کسی معاشرے میں مجذوب قتل ہونے لگیں تب وہ معاشرے ، وہ تہذیبیں، وہ سماج زیادہ دیرقائم نہیں رہ سکتے ۔ مغلیہ سلطنت جو اپنے وقت کی عظیم الشان سلطنت گردانی جاتی تھی، سرمد کے بے گناہ قتل کے بعد قلیل عرصے میں سمٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی تھی۔ہمیں بھی اللہ پاک سے پناہ مانگنی چاہیے کہ ہمارے موجودہ سماج میں جہاں گزشتہ ستر سالوں سے عالمگیری راج قائم ہے ، جہاں انسان دشمن رویوں کے زیرِ سایہ فرد سے مذہبی اور شخصی آزادی چھینی جا چکی ہے، جہاں عالمگیری ریاست کے پالے افراد آئے روز بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کرکے خود ساختہ جنت کی بشارتیں دیتے چلے آرہے ہیں، جہاں حق مانگنے والے کو غائب کروا دیا جاتا ہے اور پھر کچھ ہی روز بعد کسی انجان چوراہے پر اس کی لاش ملتی ہے ۔خوف آتا ہے یہ سوچ کر کہ کہیں یہ سب عوامل ہمیں کسی اےسے خوفناک انجام کی طرف نہ دھکیل دیں جو مغلیہ سلطنت کے منطقی انجام کا سبب بنے تھے۔
میںسرمد مجذوب کی قبر پر دعا پڑھنے کے بعد کچھ اِس امید کے سہارے باہر نکلا۔ ”ہمارے پیپ زدہ ،کھوکھلے معاشرے میں جب تلک ایک سرمد بھی باقی رہے گا،اس کی آواز کی گونج انسانی سماج میں پنپنے والے ظالمانہ اور تکبرانہ رویوں کو ہمیشہ للکارتی رہے گی“۔
صوفی سرمد کی درگاہ سے باہر نکلتے ہی تھکن کے مارے میری ٹانگیں جواب دے گئی تھیں اور اب مجھے ایک ایسے سائیکل رکشے والے کی تلاش تھی جو پرانی دلی کو بخوبی جانتا ہو اور مجھے صدیوں پرانی پیچیدہ گلیاں دکھانے کے ساتھ ساتھ اُن کے وجود سے جڑی تاریخ بھی بتا سکے۔ ایک سائیکل رکشے والے کو روک کر پوچھا۔ بھائی مجھے پرانی دلی گھمانے اور آخر میں چاندنی چوک کے میٹرو اسٹیشن پر اُتارنے کے کتنے پیسے لو گے؟ رکشہ پولر انتہائی سیدھا لڑکا تھا،بغیر سوچے بولا ۔ جو من کرے دے دینا۔بے فکر ہو جاﺅ میں اپنے من کے مطابق تمہیں پیسے دوں گا۔اچھا میں پہلے آپ کو جامع مسجد دکھا دیتا ہوں پھر اُردو بازار سے چاندنی چوک لے چلوں گا۔ بھائی میں تو جامع مسجد کب کی دیکھ چکا۔ اچھا تو پھر میں آپ کو اُردو بازار لیے چلتا ہوں اور مسجد کے پچھواڑے بنے چھاﺅڑی بازار سے سیدھا چاندنی چوک لے جاﺅں گا ۔ میں جست لگا کر رکشے پر بیٹھ جاتا ہوں ۔پرکاش نامی نوجوان رکشہ پولر کا تعلق بہار سے ہے اور وہ روٹی رزق کی تلاش میں کافی عرصہ سے دلی میں سائیکل رکشہ چلا رہا ہے ۔
دلی اور ڈیرہ کے سائیکل رکشے: پرانی دِلی کی سڑکوں پرسائیکل رکشے چلتے دیکھ کر مجھے ڈیرہ اسماعیل خان کا سائیکل رکشہ یاد آگیا۔ نوے کی دھائی تک ہمارے شہر ڈیرہ میں بھی سائیکل رکشے چلا کرتے تھے جو ہمارے شہر کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں کے اندر پُوں پاں کرتے با آسانی گزر جایا کرتے تھے۔مجھے ڈیرہ ، بہاولپور اور دلی کے سائیکل رکشوں پر سواری کرنے کا موقع ملا ۔ تینوں میں واضح فرق فقط ساخت کا لگا ۔ دِلی کے رکشے بغیر مڈگارڈ کے چلتے پھرتے فولادی پنجرے کہ جن میں کوئی خاص کشش دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی دو سے زیادہ سواریوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے،مگر اس کے مقابلے میں بہاولپور کے سائیکل رکشے زیادہ سبک رفتار اورآرٹ کا اعلیٰ نمونہ تصور ہوتے تھے کہ جن کی باڈیوں پرخوبصورت بیل بوٹے تخلیق کئے جاتے تھے۔ ہمارے شہر ڈیرہ کے سائیکل رکشے دلی اور بہاولپور کے رکشوں کی نسبت زیادہ مضبوط اور دیرپا ہوا کرتے تھے کہ جن کے عقبی حصے پر بنے لکڑی کے فریم میں چھوٹے بچوں کو بٹھایا جاتا تھا اور یہی فریم بارش وگرمی کے دوران چھتر چھایہ کا کام بھی انجام دیتا تھا۔قیام پاکستان سے لے کر آج تک نظر انداز کیے گئے شہر ڈیرہ کے بیشتر ان پڑھ، مزدور پیشہ افراد کا ذریعہ معاش سائیکل رکشے سے منسلک تھا ۔ کچھ نادار طالبعلم اپنے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کیلئے وقتی طور پر رکشہ چلا لیا کرتے تھے۔چند ایک کے اپنے ذاتی رکشے تھے جبکہ بیشتر کرائے پر ر کشہ لے کر چلایا کرتے اور مالک کو ماہوار ادائیگی کیا کرتے تھے ۔مجھے یاد ہے کہ شہر کی چند بیواﺅں کی گزر اوقات دو تین رکشوں سے ملنے والے کراﺅں کی بدولت ہو جاتی تھی۔کئی مقامات پر پنکچر لگانے والے، باڈی میکرز، اسپرے پینٹرز وغیرہ کا روٹی رزق بھی سائیکل رکشوں سے جڑا ہوا تھا ۔ چائے کے ہوٹل، سینما گھر وغیرہ بھی انہی رکشہ پولروں کی وجہ سے آباد تھے۔ ایک رکشہ پولر عموماً ایک دن بیس سے تیس سواریوں کو منزل مقصود تک پہنچاتا اور لگ بھگ سو ڈیڑھ سو روپے کی مزدوری کمالیا کرتا تھا، اس طرح شہر کی معیشت کا پہیہ سائیکل رکشے کے دُھرے کے گرد گھومتا رہتا تھا ۔1990ءمیں جب ایک سرمایہ دارانہ طبقے سے تعلق رکھنے والے انسان کو اَن دیکھی طاقتوں نے وزیر اعظم بنایا تو اُس کے پیٹ میں یکدم انسانی ہمدردی کا مروڑ اٹھا ©۔” سائیکل رکشہ انسانیت کی تذلیل ہے ،لہٰذا اِس قسم کے غیر انسانی روزگار پر پابندی لگا دی جائے“ ۔ سائیکل رکشہ کھینچنا اگر واقعی انسانیت کی تذلیل تھی تو گھر کا چولہا ٹھنڈا ہونے سے بچانے کیلئے بھاری بھرکم سامان سے لدے سائیکل ریڑھے کھینچنے والے اور کئی من کی بوریاں اپنی کمر پر لادنے والے مزدور، ریلوے اسٹیشنوں پر سامان ڈھونے والے قلی، کچرا چننے والی بچیاں ، سڑکوں پر پتھر توڑنے والی عورتیں ، اینٹوں کے بھٹوں، مکینک اور خرادیوں کی دکانوں پر کام کرنے والے نو عمر بچے ، سلگتے تندوروں پر کام کرنے والے مزدور کونسے انسانی وسیلہ روزگار سے جڑے ہوئے تھے ؟۔بلاشبہ سائیکل رکشوں سے کئی خاندانوں کا چولہا جلتا تھا اور مجھے ابھی تک یاد ہے جب ڈیرہ کے رکشہ پولروں نے اپنے روزگار کے خلاف اندھا دھندحکومتی فیصلہ سنا تو انہیں چپ سی لگ گئی تھی او ر ان پر سکتہ طاری ہو گیا تھا ۔سائیکل رکشے ضبط ہونے کے بعد رکشہ پولر کثیر تعداد میں بیروزگار ہوگئے تھے۔ضبط شدہ رکشوں کے بارے میں حکومت کا کہناتھا کہ ان رکشوں کو کسی پڑوسی ملک برآمد کیا جائے گا ،مگرسارے رکشے اتفاق فا ¶نڈری کا ایندھن بنا دئیے گئے ۔1990ءکی حکو مت کے ماحول دشمن فیصلے سے نہ صرف رکشہ پولروںکا روزگار متاثر ہو ا تھا بلکہ رکشہ سپیئرپارٹس اورباڈی میکرز کاکاروبار بھی ٹھپ ہو گیا تھا اورسائیکل رکشہ پر بندش کے پانچ چھ سالوں کے اندر کئی رکشہ پولر غربت، بے روزگاری اور خراب معاشی حالات کے سبب وقت سے پہلے ہی دم توڑ گئے تھے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کاسائیکل رکشہ نہ صرف ہمارے شہرڈیرہ کی ثقافتی خوبصورتی کا عکاس ہوا کرتا تھا بلکہ اس عوامی سواری نے شہر میں شور شرابے، ماحولیاتی آلودگی ( زہریلی کاربن، دھول مٹی، گرد و غبار) اورانسانی حادثات کو بڑی حد تک قابو میں کر رکھا تھا۔ جہاں ایک طرف ڈیرہ، بہاولپور جیسے شہروں میں سائیکل رکشوں پر پابندی لگی وہیں دوسری طرف بنگلہ دیش اور بھارت جیسے ملکوں کی دیکھا دیکھی ویتنام،منیلا،سنگاپور، ہانگ کانگ ، انڈونیشیا،روم، سپین، پیرس، پولینڈ،نیویارک، میکسیکو،ماسکو،کینیڈا،بیجنگ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے خوشحال ملکوں میں ” پیڈی کیب“ کے نام سے سائیکل رکشے متعارف ہونے لگے ترقی یافتہ ملکوں نے موٹر کاروں، ٹیکسیوں اور بسوںسے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کے خاتمے کیلئے اپنے شہروں میں سائیکل رکشے کی صورت میں ٹرانسپورٹ کا ایک بہتر نعم البدل پیش کیا ہے۔آسٹریلیا کے شہر سڈنی، میلبو رن میں اسے ”ایکو کیب“ یعنی ماحول دوست ٹیکسی کہا جاتاہے ۔
ڈیرہ، بہاولپور کے رکشہ پولرز جوان و تروتازہ جبکہ بنگال ،بہار سے روٹی رزق کی تلاش میں دلی آکر سائیکل رکشے چلانے والی زندہ لاشیں کہ جنہوںنے دِلی شہر کو اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ پرکاش نے یوٹرن لیتے ہوئے رکشے کا رُخ مسجد کی طرف موڑتے ہوئے بتایا کہ یہیں مینا بازار کی پٹڑی مارکیٹ پر اتوار کے دن ایک بڑا بازار لگتا ہے جسے چور بازار کہتے ہیں، جہاں پر بیگ، جوتے، پاجامے، بٹوے، ٹی شرٹیں ، پینٹیں، دریاں، چادریں اور ترپالیں بکتی ہیں۔ مسجد کے آگے سے گزر تے ہوئے ہم اُردو بازار پہنچ گئے ۔اُردو بازارمیں سائیکل، آٹو رکشوں اور سکوٹروں کے بیچوں بیچ چلتی پھرتی برقعہ پوش خواتین اورسفیدداڑھیوں کو خضاب سے رنگے، سروں پر ٹوپیاں پہنے چلتے پھرتے بزرگ حضرات۔ کچھ کرنسی ایکسچینج کی دکانیں،چند پرانے ہوٹلز ،اردگرد گندگی کے ڈھیر، چھاپہ خانے ، لوہے کی ہتھ ریڑھیاں کھینچنے والے اور اُردو کی کتابیںفروخت کرنے والے دکاندار جن کی دکانوں پر لگے اردو کے بڑے بڑے بورڈدیکھ کر ایسے لگتا تھا جیسے اردو بازار غالب کے عہد میں ہی حالتِ نزع کو پہنچ چکا ہو گا اور یہ شاید اِس دور کی اردو بازار کی آخری ہچکی ہے، جس کے بعد اس کی نعش کو غالب کے مقبرے کے قریب دفنایا جائے گا۔ پرکاش مجھے جامع مسجد کے گیٹ نمبر 1”بابِ عبداللہ “ پر لے آیاجہاںچپلیں، ملبوسات، تازہ پھلوں کی ریڑھیاں سجائے کھڑے دکاندار اور اردگرد ہوٹلوں پر کباب اور پکوڑے بکتے دکھائی دئیے ۔یہ بھی اُردو بازار کا حصہ ہے جسے پرانی دِلی کی فوڈ اسٹریٹ کہا جاتا ہے ، اگر اس کی شان دیکھنی ہو تو کبھی شام کو چکر لگائیے گا آپ کو اردگرد سموسوں ، پکوڑوں کی دکانیں،ہر قسم کی ملکی و غیر ملکی کھجوریں، مچھلی کباب اور گوشت بیچنے والے ، چکن فرائی، رومالی روٹیاں(توے کی پتلی روٹی جنہیں سرائیکی میں مانے کہا جاتا ہے) پکا نے والے ہوٹلز کی بھرمار دیکھنے کو ملے گی ۔ اُردو بازار سے ہم سیدھادلی کے مشہور چھاﺅڑی بازار آپہنچے ۔مدتوں پہلے غروب آفتاب کے بعد اِسی چھاﺅڑی بازار کے بالا خانے بقعہ نور بن جاتے تھے،جہاںطبلے کھڑکنے لگتے،تانیں اٹھنے لگتیں ،ناچ گانے، ٹھمریاں،مجرے وغیرہ۔ ڈھولک، ٹھمریاں، گانا گانے اور گانا بجانے والے قصہ پارینہ بن گئے ہیں ۔ وقت نے کروٹ بدلی ہے اور اب اس بازار میں کاغذی چھپائی (پریس) کا کام، ہول سیلز کا بزنس، ٹول باکس، پیچ کس، پانے، نٹ بولٹ،تالے، لوہے کی جالیاں، ہوزری کا سامان، ہارڈوئیر اور پیتل کے برتن وغیرہ ہول سیل ریٹ پر بیچے جارہے ہیں۔چھاﺅڑی بازار میں کارڈوں کی ایک بڑی مارکیٹ ہے جہاں پر شادی بیاہ اور مختلف مذہبی تہواروں کی مناسبت سے رنگین کارڈ بکتے ہیں، اس کے علاوہ ہول سیل ریٹ پر کتابیں اور کاپیاں بکتی ہیں جبکہ یہیں سے سیدھا راستہ چاندنی چوک کی طرف جا نکلتاہے۔
ہمارے سامنے چلتے رکشے پر سمٹی بیٹھی ایک ادھیڑ عمر خاتون فضائی آلودگی سے بچنے کیلئے اپنی ساڑھی کے پلو کو منہ پر رکھے بیزار صورت بنا ئے ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں ۔ دِلی کے سائیکل رکشوں میں ہارن نہیں ہوتا،اس لیے ہارن کے فرائض پرکاش اپنے منہ سے سرانجام دے رہا تھا۔ ہٹ جاﺅبھائی صاب، راستہ دو بھائی صاب۔چھاﺅڑی بازار کی ہتھ گاڑیوں، سکوٹروں اور پیدل چلنے والی خلقت کے سامنے سے گزرتے ہوئے پرکاش بولا۔
بھیا یہ دریبا مارکیٹ ہے جہاں روزانہ سونے، چاندی اور جواہرات کا کاروبار ہوتا ہے اور یہ رہا کناری بازار، یہاں زری، طلائی اور خواتین کی آرائش و زیبائش کاسامان مثلاً ریشمی ساڑھیاں،شالیں، رنگین لہنگے، چوڑیاں، میک اپ، منگل سوتر اور دیگر ملبوسات کا سامان سستے داموں ملتا ہے ۔
دلی کے گھاگ دکانداروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹتی برقعہ پوش، ادھ کھلے چہروں والی ٹولی۔کوئی پاجامہ زیب تن کئے ، کوئی قمیص غرارے میں ملبوس، بدن پر مہین ململ کی ساڑھی میں لپٹی ، گلے میں منگل سوتر لٹکائے بھاﺅ تاﺅ میں مصروف کوئی ناری ۔جہاں ہم کھڑے ہیں اسے دلی سِکس( چھ) کہتے ہیں،جو اِس شہر کا واقعی دل ہے۔ پرکاش اِسے دلی 6 کیوں کہا جاتاہے؟ 6 اصل میں اِس علاقے کا پوسٹل کوڈ ہے۔تھوڑا سا آگے بڑھنے کے بعد پرکاش مجھے متوجہ کرتے ہوئے بولا۔ یہ رہی جلیبی والی گلی۔ یہاں کی دیسی گھی سے بنی جلیبیاں جو نہ کھائے پچھتائے ۔ جلیبیو ں کی دکان پر ایسا رش تھا جیسے اللہ کے نام پر لنگر بانٹا جا رہا ہو مگر دکانوں کے سامنے چمکتے دمکتے بورڈوں پر جلیبی کے دام دیکھتے ہی ہوش ٹھکانے آگئے ۔ تین سو روپے فی کلو۔ بھیا کھانی ہے تو رکشہ روکوں۔ پرکاش کی آواز یکدم کانوں تک پہنچی ۔ نہیں بھائی ، پاکستان میں ہماری اپنی جلیبی کی دکان ہے، جلیبیاں بیچ بیچ کر میرا من ویسے ہی بھر چکا ہے،اگر تم کہو تو تمہیں کھلائے دیتا ہوں۔ پرکاش انتہائی خوددار انسان نکلا۔ رہنے دیجئے۔ اچھا اچھا روکو۔میں جلدی سے رکشے سے اترا اور قریبی دکان سے ایک پاﺅ جلیبیاں لے کر واپس پرکاش کے ہاتھ پر رکھ دیں ۔کیا اِسے میں کھاﺅں گا؟ ہاں تو اور کیا۔پرکاش کو جلیبیاں تھما کر اس کا سائیکل رکشہ ایک سائیڈ پر کیا اور اسے جلیبیاں کھانے کا پورا موقع دیا۔جلیبی کھانے کے بعد پرکاش کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی مسکراہٹ پھیل گئی۔باتوںباتوں کے دوران سیس گنج گر دوارہ آ گیا۔گردوارہ میں صبح سویرے دیکھ چکا ہوں، لہٰذا آگے بڑھو۔پرکاش سر جھکائے رکشہ کھینچتا رہا، اسی دوران پرانی دلی کی مشہورپراٹھے والی گلی آگئی، یہاں سے رکشہ اندر داخل نہیں ہو سکتا تھا، لہٰذا پرکاش کو بازار کے کونے پر کھڑا کرکے تیز قدموں کے ساتھ پراٹھوں والی گلی میں داخل ہو گیا۔پراٹھوں کی سوندھی خوشبو نے پوری گلی کو مہکا رکھا تھا، جہاں پر آلو، پالک، میتھی،قیمے ، دال، مٹر، گوبھی، پودینے اور کیلے کے پراٹھے تلے جا رہے تھے۔ کھولتی کڑھائی میں مہارت سے پھینکے گئے پراٹھے تلنے کے بعد اسٹیل کے ٹرے میں گاہکوں کے سامنے رکھا جا رہا تھا جو مزے مزے سے چٹخارے دار پراٹھے کھا رہے تھے۔مجھے کوئی خاص بھوک نہیں تھی کیونکہ جامع مسجد کی سیڑھیوں سے منسلک ہوٹل پر کھائی گئی نہاری ابھی تک معدے میں ہضم ہونے کے مراحل سے گزر رہی تھی۔میں پراٹھوں والی گلی سے باہر نکل کر سیدھا پرکاش کی جانب بڑھا جو اپنے رکشے کے ساتھ سر جھکائے کھڑا موبائل فون سے کھیل رہا تھا۔ میرے بیٹھتے ہی رکشے کے پہیے دوبارہ گھومنے لگے۔
غالب کی حویلی(کاشا نہ غالب): یہ گلی قاسم جان ہے جو محلہ بلی ماراں سے نکلتی ہے اور یہ رہی گالب ( غالب) کی حویلی جہاں آج بھی گالب کی ساعری کی کھسبو دور دور تک پھیلی ملتی ہے ۔ پرکاش کی بات ختم ہونے سے پہلے میں رکشے سے اترچکا تھا۔یہ وہی حویلی تھی جہاں مرزا نوشہ نے اپنی زندگی کے آخری سال گزارے تھے۔ سرخ ا ینٹوں سے سجی حویلی کی محرابیں، راہداریاں اور بڑے بڑے دروازے۔کہا جاتا ہے کہ مرزا غالب ساری عمر کرائے کے مکانوں میں رہے، کئی مکان بدلے مگرآخری ایام کسمپرسی میں اسی حویلی میں گزرے تھے۔
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
مرزا غالب بہادر شاہ ظفر کے استاد بھی تھے ،استادی کے عوض انہیں پچاس روپے وظیفہ بھی ملتا تھا۔اسی گلی میں وہ وظیفہ ملنے پر شراب کی بوتلوں کا ٹھیلہ لے کر آتے تھے ۔ بیوی کے سوال پر کہ وہ گئے تو تھے گھر سے خوردونوش کا سامان خریدنے ، یہ کیا اٹھا لائے ہیں؟ غالب کہتے کھانے کا بندوبست خدا کر دے گا ،پینے کا میں نے کر دیا ہے۔مرزا غالب کی حویلی کو جی بھر کر دیکھنے کا موقع ملا ۔ غالب کے مجسمے سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے حقہ تھام رکھا ہے۔ حویلی کی دیواروں پر غالب کے ہمعصر شعراء(ابراہیم ذوق، بہادر شاہ ظفر، مومن خان مومن اورداغ دہلوی) کی تصاویر اور ان کی بیگم امراﺅ بیگم کا لباس بھی آویزاںنظر آتا ہے۔اس کے علاوہ دو مجسمے اور بھی رکھے گئے ہیں، ایک برآمدے میں جہاں مرزا صاحب تشریف فرما ہیں اور دوسرا حویلی کے شروع میں دائیں جانب۔تھوڑی سی دوری پر غالب کے ہاتھوں سے لکھے چند اردوخطوط کے عکس بھی پڑے ملتے ہیں ۔غالب آخری عمر میں بستر علالت پرتھے، قوت سماعت بھی جاتی رہی تھی ،اسی لئے خطوں کے جوابات تحریر کرنے سے قاصر تھے مگر خط و کتابت کا سلسلہ ختم نہیں کیا اور کسی کو ساتھ بٹھا کر خطوں کے جوابات لکھوا لیا کرتے تھے۔مرزا غالب کی ذات اور ان کے کلام سے جڑی چند یاداشتیں غالب حویلی میں رکھی گئی ہیں جبکہ باقی ماندہ اشیاءاُن کے مقبرے سے ملحق غالب اکیڈمی میں سجائی گئی ہیں ۔غالب حویلی کی دیکھ بھال واقعی ہندوستان کے عظیم شاعر کے ہرگز شایانِ شان نہیں۔حویلی کے چاروں اطراف اداسی کا بسیرا ہے۔
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
پرکاش تھکے ہارے پیڈل مارتا مجھے دلی کی پیچیدہ گلیوں سے نکال کر میٹرو اسٹیشن کی طرف لئے جا رہا تھا۔میرے آمنے سامنے وہی منظر جو گزشتہ تین چار دنوں سے میری آنکھ کے پردے پر چل رہا تھا ۔وہی دکانیں، وہی گاہک، وہی تنگ و تاریک گلیاں، وہی فٹ پاتھ اور فٹ پاتھ پر سوئی فقیرنی جواپنی روٹی کے چند ٹکڑے اپنے قریب دُم ہلاتے کتے کو کھلا رہی تھی اور باقی کے ٹکڑے خالی آنکھوں اور خشک گلے کے ساتھ خود زہر مار کر رہی تھی۔ وہی ہتھ گاڑیوں پر سامان کھینچتے کردار، وہی خوانچہ فروش اور اردگرد شور مچاتے آٹو رکشے۔
دِلی نے واقعی مجھے اندر سے جھنجھوڑ دیا تھا، دلی واقعی دل والوں کی ہے۔ایک ایسا شہرجس کے سینے پر ہر دھرم کے ماننے والے ایک ساتھ مل کر زندگی بسر کررہے ہیں۔جہاں لاکھوں کی تعداد میں اکھٹا رہنے کے سبب کبھی کبھار ناخوشگوار واقعہ بھی رونما ہوتا رہتا ہے۔جہاں سینتالیس کی تقسیم نے اِس شہر کی ڈیموگرافی تک بدل کر رکھ دی تھی خصوصاً پاکستانی پنجاب اور سرائیکی علاقوں سے بڑی تعداد میں ہجرت کرکے آنے والے ہندو اور سکھ شرنارتھیوں نے اس شہر کو اپنا مسکن بنالیا تھااور اِس تقسیم نے دلی کے قدیمی باسیوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا تھا، لیکن اس کے باوجود ایک ایسا شہر جہاں مندر، گردوارے اور مساجد ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہوں وہاں پر کبھی بھی فرقہ وارانہ تعصب اور نفرت کو بڑے پیمانے پر حمایت حاصل نہیں ہو سکتی ۔ کثیرالجہت ثقافت اس شہر کی اصل خوبصورتی ہے۔ دلّی واقعی دیکھنے لائق شہر ہے اگرچہ پاکستانی راجدھانی اسلام آباد کے مقابلے میں انتہائی بدصورت، بدنما،انتہائی غریب پرور، گندگیوں ،غلاظتوں اور فضائی آلودگی سے لتھڑا شہر۔مگر اس عظیم شہر کے نس نس میں تاریخ کی روح چھپی ہوئی ہے کہ جس کا چھٹانک بھر بھی اسلام آبادکو نصیب نہیں ہو سکا۔
اسلام آباد شفاف شیشے کے سرد شوکیس میں پٹیوں سے جکڑ کر سلائی گئی ایک ایسی ممی جو جذبوں کی حرارت سے یکسر خالی ہے۔ دِلی ایک جیتا جاگتا شہر کہ جہاں کے تعفن زدہ فٹ پاتھ پر سونے والی بڑھیا بھی اپنے حصے کا باسی ٹکڑا کھا نے سے پہلے قریب بیٹھے کتے کو اُس کا حصہ کھلانا نہیں بھولتی اور کتے سمیت فٹ پاتھ پر چین کی نیند سوتی ہے ۔ اسلام آباد ایک سرد، کھوکھلا شہر اور دوسری جانب تاریخ کی چاپ سے گرجتا دلی کہ جہاں کاندھے سے کاندھا چھیلتا رش، تنگ و تاریک گلیاں، جا بجابجلی کے لٹکتے تار، پرانے کھنڈر، تن پر میلی بنیان پہنے ہتھ ریڑھیوں پر رکھا سامان کھینچتے مزدور اور غلاظت اگلتے گٹر۔دلی کہ جہاں زندگی سانسیں لیتی ہے اور جہاں کے باسی زندگی سے جنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔دلی واقعی دل والوں کی ہے۔
میٹرو اسٹیشن آگیا بھائی ۔ پرکاش کی آواز مجھے احساسات و جذبات کی دنیا سے باہر کھینچ لا ئی تھی۔ پرکاش کی ہتھیلی پر پانچ سو کا نوٹ رکھا۔ وہ دونوں ہاتھ باندھ کر پرنام کرنے لگا تھا کہ میں نے اُس کے اٹھتے ہاتھ وہیں روک دئیے۔ سرمد شہید کے مزار کے سامنے بھاﺅ تاﺅ کرتے وقت پرکاش کو کہا تھا ”بے فکر ہو جاﺅ میں اپنے من کے مطابق تمہیںپیسے دوں گا “۔ چاندنی چوک کے میٹرو اسٹیشن کے اندر داخل ہوتے ہی میری انفرادیت مٹ چکی تھی اور میںعوامی سیلاب کے ریلے میں بہتا،شرٹ کی جیب کے اندر رکھے پاسپورٹ پر ہاتھ رکھے قرول باغ کی طرف رواں تھا۔
قرول باغ کے میٹرو اسٹیشن اترنے کے بعد پرنس ہوٹل کی نزدیکی گلی سے حیدرآبادی بریانی کھائی اور آٹو رکشے کوآریا سماج روڈ، دیونگر کا پتہ بتا دیا۔ اگلے بیس منٹ کے اندر میں ڈاکٹر راجکمار کے سامنے بیٹھا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔
راجکمار کے دفتر سے نکلتے وقت دھوپ کے آثار تقریباً مٹ چکے تھے۔دن بھر کاتھکا ہارا نارنجی گولہ کیکر چوک کے پہلو میں بنی ایک بلند عمارت کے اوپر اپنے پاﺅں ٹکائے انتہائی خاموشی کے ساتھ دِلی کے باسیوں پر الوداعی نظریں ڈالے کھڑا تھا ، مگرابھی اُسے نیچے اُترنے میں کچھ دیر باقی تھی ۔قرول باغ دلی کے ایک مصروف چوراہے پر ڈاکٹرصاحب نے گاڑی روکی اور سامنے سے آنے والے آٹو رکشہ ڈرائیور کو آواز دی۔ڈگ ڈگ کرتا پھڑپھڑاتا رکشہ گاڑی کے سامنے آکر رک گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے رکشہ ڈرائیورکو اِندر پوری کالونی بوہڑیانوالہ تھلے کا پتہ بتاتے ہوئے مجھے رکشے کے اندر بٹھایا اور معذرت خواہانہ انداز میں بولے :” اگر مجھے دیوالی کے موقع پراپنی پتنی کو کچھ رشتے داروں سے ملوانے فرید آباد نہ لے جانا ہوتا تو میں خود تمہیں بوہڑیانوالہ تھلے تک لے جاتا ،بہرحال کل صبح ملاقات ہوگی “ ۔یہ کہتے ہی ڈاکٹر صاحب اپنی سوزوکی کار میں جا بیٹھے اورمیں سرائیکی چادریں گود میں رکھے رکشے کے اندر سکون سے بیٹھ کر رکشے کا پٹ نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لینے لگا ۔
قرول باغ کے ماحول میں ہلکی سی خنکی کا راج تھا ۔دیوالی کی شاپنگ عروج پر تھی ، اِردگرد کی دکانوں پر کافی رش تھا اور بھیڑ بھاڑ میںہر قسم کے لوگ گھوم پھر رہے تھے، جس میں شلوار قمیض، پینٹوں شرٹوں اور لنڈے کے کپڑوں والے سبھی امیر غریب شامل تھے۔روایتی شلواریں پہنے لمبی داڑھی والے سردار اپنے سروں پر کالے اور نارنجی پٹکے باندھے سکوٹروں پر رواں دواں تھے۔ فٹ پاتھ پر چلتے ایک سردار جی کی ناف تک پھیلی داڑھی اس کے پورے سینے کو ڈھانپے ہوئے تھی۔ واقعی سرائیکی میں ٹھیک کہا جاتاہے (وَڈے سِر سرداراں دے)۔ ریشمی ساڑھیوں میں لپٹی کچھ خواتین ماتھے پرتلک لگائے سائیکل رکشوں پر یوں گردن اکڑائے بیٹھی تھیں گویا رکشہ ان کی ذاتی ملکیت ہو۔ اِکا دُکا برقعہ پوش خواتین بھی نظر آئیں جو اپنے چہرے باہر نکالے رش میں برابر حصہ ڈال رہی تھیں۔ہمارے شہر ڈیرہ میں اس قسم کے کالے برقعے کافی تعداد میں دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں وہاں فیشنی برقعہ کہا جاتا ہے۔یہاں پرمیری دلچسپی کا باعث وہ ناریاں تھیں جو چست پینٹیں ناف تک اوپرچڑھائے بے نیازی سے سکوٹیاں بھگاتی پھر رہی تھیں اور جن کے بازو سلیولیس شرٹوں سے باہر جھانک رہے تھے۔ قرول باغ دِلی کی بیشتر آبادی اپنی وضع قطع کے حساب سے مجھے پاکستانی لگی۔ واقعی یہ سچ ہے کہ قرول باغ اور اُ سکے گردونواح کے علا قے کو پاکستان سے ہجرت کرکے آنے والی ہندو، سکھ آبادی نے اپنی صاف رنگت کے باعث کچھ زیادہ ہی پر کشش بنا رکھا ہے۔ناہموار سڑک پرڈگمگاتا رکشہ رش سے نکل کر جیسے ہی کھلی شاہراہ پر چڑھا، ڈرائیور نے ایکسلیٹردبا دِیا۔ رکشہ اپنی ہی دھن میں غوں غاں کرتا شاستری روڈ پر اُڑتا چلا جا رہا تھا ، کوئی چالیس منٹ کی مسافت کے بعد ڈرائیور نے اِندر پوری کالونی میں ایک بڑے سے آہنی گیٹ کے سامنے رکشہ روکا ، کرایہ جیب میں ڈالا اور پھڑ پھڑ کرتے رکشے کو آگے بڑھا دیا ۔
بوہڑیاںوالا تھلہ، اِند رپوری : اب میں اِندرپوری کالونی نئی دہلی کے مشہور بوہڑیانوالے تھلے کے سامنے کھڑا تھا۔ تھلے کا مین گیٹ پار کرتے ہی ایک وسیع وعریض عمارت میرے سامنے تھی، جس کے دائیں جانب چھوٹی سی چار دیواری کے پار تھلے کا مندر جھانک رہا تھا۔ اندرونی گیٹ پار کرنے کے بعد میں ایک کھلے میدان میں آن کھڑاہوا، جس کے وسط میں شیشے کی دیواروں کے چوکور نما جدید مندر کے سامنے کنکریٹ کے فرش پر مختلف قسم کے رنگین پاﺅڈروں سے بنی رنگولی اپنے جلوے دکھا رہی تھی۔مندر کے عقب میں سینہ تانے کھڑے درخت کے پتے اُفق سے ڈوبتے سورج کی نارنجی روشنی کو چھپاکر شام ہونے کا اعلان کر رہے تھے ۔ دیوار کے داخلی دروازے کے اوپر ایک چھوٹی تختی پر انگریزی حروف میں دیوی دیال کھنیجواور اوپر آویزاں بڑے سے بورڈ پر گوسوامی ستی کیول رام بوہڑیانوالہ میموریل سوسائٹی، اِندر پوری ،نیو دہلی اور ہند سندیش اخبار کے ایڈیٹر، جوائنٹ ایڈیٹر کے نام درج تھے۔دفتری دروازے کے سامنے فرش پر بچھے ایک بڑے سے تخت پوش پر تین چار بزرگ مر د و خواتین آپس میں جڑے بیٹھے سرائیکی زبان میں کچھ باتیں کر رہے تھے ۔ تخت پوش کے عین وسط میں بیٹھا لاغر سا شخص نمایاں تھا جس کے خالی پیٹ،جبڑوں کے اندر دھنسے رخسار، کم روشنی والی آنکھیں اور اس کے گرد ڈنڈا پکڑے دوسرا شخص جس کے سر کے بال تقریباً جھڑ چکے تھے، اس بوڑھے کے ساتھ کندھا ملائے جھکی بیٹھی ایک بوڑھی عورت کے چہرے پربلا کی تھکن عیاں تھی ، ساتھ میں سمٹی بیٹھی دوسری عورت کا جسم کپکپا رہا تھا ۔ میں تخت پوش کے قریب پہنچا اور کپکپاتی بڑھیا کے لاغر کاندھے پر غیر ارادی طور پراپنا ہاتھ رکھ دیا ،مجھے لگا جیسے میرا اپنا جسم بھی کپکپانے لگا ہو۔ اس ہانپتی کانپتی بڑھیا نے اپنی گردن اوپر اٹھائی اور مجھے ایسے دیکھا جیسے اپنے کندھے پر ہاتھ رکھنے کا سبب پوچھ رہی ہو۔ اَمڑی دیوی دِیال کتھاں ملسن؟ کپکپاتی بڑھیا کا منہ کھلنے سے قبل ساتھ میں بیٹھا دوسرا بزرگ بول اٹھا ۔” دفتر ٹپ ونجو، دیوی جی اندر ہوسن“۔ تساں لوک کون ہیوے؟ میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے سارے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ اسی اثناءمیں تخت پوش پر بیٹھا شخص بول اٹھا۔ اساں کون ہیں؟ اے تاں ساکوں آپ کوں وی پتہ کو ئنی ۔ تخت پوش کے ساتھ چمٹی بیٹھی بڑھیا بول اٹھی ۔ اُوکوں ڈساﺅ کہ اَساں دیرے وال ہیں۔ توں ہوسیں پئی دیرے وال میں تاں کلاچی وال ہاں۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ سارے بزرگ کھلکھلا کر ہنس پڑے اور میں انہیں ہنستا چھوڑ کر داخلی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ ہینڈل گھما کر دروازہ تھوڑا سا سِرکا یا اور پھر جیسے ہی اندر جھانکا تو سامنے بچھے سفید صوفے پر شلوار قمیض پہنے ایک بزرگ شخص کے منہ سے آواز نکلی ۔ ”ا ندِر آ ونجو“۔سفید بال، آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے صوفے پر بیٹھے یہ دیوی دیال جی تھے کہ جن کے ساتھ کئی بار ٹیلیفونک گفتگو کا موقع ملاتھا اورمیری خوش نصیبی کہ آج اُن کے درشن ہو رہے تھے اور اُن کا اصرار تھا کہ میری ہر بات سرائیکی میں ہوگی اور تم سرائیکی میں ہی لکھو گے۔اثبات میں سر ہلاتے ہوئے میں جیسے ہی ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے لگا، انہوں نے انتہائی شفقت سے مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے کو کہا۔میں کرسی کی بجائے ان کے ساتھ صوفے پر جڑ بیٹھا ، مجھے اپنے ساتھ بیٹھا دیکھ کر ان کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکان پھیل گئی۔ انہوں نے ہاتھوں میں ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویری فریم اٹھا رکھا تھا ، تصویر میں پگڑی باندھے ایک شخص پر اپنی کپکپاتی انگلی رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اے کلاچی دے ملک صیب ہِن ،میڈے سنگتی تے اے گورنمنٹ ہائی سکول کلاچی دے استاداں دی یادگار گروپ فوٹو ہے جہڑی1944-45 اچ چھکی گئی ہَیی جڈاںمیں ہائی سکول دی نانویں کلاس کوں پڑھیندا ہَم۔وہ کچھ لفظ بولتے اور پھر چپ ہو جاتے، گویا کسی چیز کی کھوج میں نکل گئے ہوں۔ میں ان کی چپ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اردگرد کے ماحول کا سرسری جائزہ لینے بیٹھ جا تا۔دفتر کی اندرونی دیواریں ماضی کی یادگار تصاویر سے مزین تھیں جن میں دیوی دیال ، اُن کے بڑے بھائی تخت رام کی سنہر ے فریم میں لپٹی تصاویر، شری رام دھن گوسائیں 1917-2001،رام چند سرحدی 1922-1985 اور ہند سندیش اخبار کے ایڈیٹر انچیف شری فتح چند نسیم کی تصاویر نمایاں تھیں۔ دیوار کے دونوں اطراف لکڑی کے شیلفوں میں ترتیب سے کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ درمیان میں دفتری امور کیلئے دو میزیں، کرسیاں اور بیٹھنے کیلئے دو صوفے بھی بچھے تھے۔
دیوی جی آپ کا خاندان کلاچی سے دِلی کیسے پہنچا؟۔میرے سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے وہ پھر اپنے جسم کو صوفے پر چھوڑ کرتحت الشعور میں لگے قفل کی چابی ڈھونڈ ڈھانڈ کر دھول سے اٹے صندوق کو کھولتے ہوئے ماضی کی کتاب میں لکھی داستانِ حیات کو لفظ بہ لفظ پڑھ کر سنانے لگے۔اے ہک لمبی کہانی ہے۔ کلاچی اِچ ہرشئے ٹھیک آندی پئی ہَئی، کہ اغیبوں اُتھاں وی فرقہ وارانہ فساد دی بھاءبل گئی جیں یکے شاہر کوں نفرتاں نال وِلیٹ گھدا ، تے ساکوں اپنا بھاگاں بھراسو نہڑا شاہرکلاچی چھوڑ کے مجبوراً آونڑاں پیا۔
کیا حالات کو پرامن رکھنے کیلئے کوئی کوششیں ہوئیں؟
ہاں کوششاں ضرور تھیاں ہَن لیکن ڈوہاںطرفاں دی ابادی بے وس ہَیی۔ دیرہ، ٹانک، کلاچی، پہاڑ پو ڑسمیت یکے علاقے نفرتاں دے وِلاکے اِچ آگئے ہَن تے ہک ا ے جئیں تتی ہوا گُھل پئی ہَیی کہ جیندے اگوں کینہہ دی نہ چلدی ہئی ۔ایندے وِچ مقامی مسلماناں دا کوئی خاص قصور نئی ، کیوں جو اُنہاں غریباں کوں اے پتہ کونا ہئی جو انگریز دھرم دے ناں تے چیر پھاڑ دے بہانے اصل اِچ کے سوچی بیٹھا ہے؟ اُوندی منشاءہئی جو کیں طریقے نال ایں خطے دا ہندو اِتھوں نکل ونجے ۔میرے کیوں پوچھنے پر وہ بولے۔ کیوں جو ہندکو تے سرائیکی علاقے دا ہندو سوشلسٹ ہئی تے اے انگریز دے کیں کم کار دانئی ،خصوصاً پشاور کول گھن تے دیرہ تک دے یکے علاقے اُوندے مستقبل دے بڑن آلے بفر زون اِچ آندے پئے ہین، ایں واسطے انگریز ازادی دے چالے وِچ ساکوں کڈھ کے اِنہاں علاقاں اچ جنگجو تے لڑاکا قوم کوںوساونڑا چاندا ہئی جیہڑے اُوندے دشمن روس نال ٹکر گھن سگین۔انگریز کوں خوب پتہ ہئی کہ ہندو ازل کول ٹرڑھا ہے ، او ساڈی نوکری خوشی نال کریسی بھلا ساڈے کیتے روس نال نہ لڑسی ۔
وہ بولتے بولتے یکایک چپ ہو جاتے اور ہر بار ایک جملہ دھراتے ۔”بچڑا ! ہجرت بہوں اوکھی ہوندی ہے“۔باتوں کے دوران دیوی دیال کے عقب میں بیٹھا نوجوان جو کسی حساب کتاب میں مصر وف تھا، اچانک اٹھ کر ہماری جانب آیا ، دیوی دیال نے اس نوجوان کاتعارف کروایا۔اے میڈا پوترہ سنیل ہے ، تھلے داساراحساب کتاب ا یندے ذمے ہے، اس کے ساتھ ہی دیوی دیال نوجوان لڑکے کو مخاطب کرتے ہوئے بولے۔ سنی ! تُوں ساری دیرے وال تے کلاچی وال برادری کوں اطلاع ڈے کہ دیرے کول ا ساڈے خاص مزِمان تھلے تے آئے اوئے ہِن ۔یہ سنتے ہی سنیل نے واپس اپنی میز پر بیٹھ کر ڈائری نکالی اور برادری کے چند افراد سے رابطہ کرنے بیٹھ گیا ۔مجھے اسی دوران دیوی دیال جی کو سرائیکی اجرک پہنانے کا موقع مل گیا۔چادر دیکھتے ہی انہوں نے پوچھا۔ اے کتھوں دی لُکار ہے؟ ایں خاص تحفے کوں سرائیکی اجرک آکھدن ۔ اچھا تاں میں آکھاں کہ میکوں ایندے وِچوں آپڑے وطن دی خشبوَ کیوں پئی آندی ہے ۔ چادر کو اچھی طرح ان کے گرد لپیٹا اور ان کے منہ سے اپنے وطن کا نام سنتے ہی بے اختیاری میں اُن کاہاتھ چوم لیا۔
دیوی دیال جی مجھے کچھ کلاچی کے بارے میں بتائیے؟
میَڈا کلاُچی میڈے ا ندر اَج وی جیندا پیائِ۔ کلاچی دے گلی کوچاں اِچ کُجھ چیکاںاجن تک پُورِیاں پین ، جہڑیاں میڈیاں ہِن ۔اُتھو دے ہواواںاچ میڈی مستی بھری جوانی دے چغڑّے کینہہ بازگشت وانگوں اج وی اُڈدے پھِر دے ہِن۔ کجھ ہُوکاں، سسکیاں، کجھ آساں، کلاچی دی مٹی وچ مدتاں کول پورِیاں پین،جیکوں میڈے وڈکے پُو ر اَئے ہَن ۔ کلاچی شاہردی سُواہ دے کجھ دُھوڑے اج وی میڈے ساہ گھُٹیندِن ۔ میڈا کلاچی ہر ویلے میڈے اندر جیندا جاگدا رِیہائ۔ ہجرت دے کوئی پینتری سال بعد نومبر 1982دے وِچالے وچ میکوں آپنڑیں وطن کلاچی وچ ونجنڑ دا آخری موقع مِلیا ہَیی، اے اُنہاں ڈینہواراں دی گال ہے جڈاں میں دِلی دی سرکاری نوکری کول نواں نواں ریٹائرڈ تھیا ہَم،تڈانہہ کلاچی ونج کرائیں ڈاڈھے مزے کیتے ہامی، جہڑے ویلے لہور اسٹیشن تے لتھا ہَم تاں میڈے شگرِد تے کلاچی دے کجھ سنگتی میکوں گھنڑ واسطے پہنچے ہَوئے ہَن،او سارے میکوں گڈی وچ بلاہ کے کلاچی گھن گئے ،جتھاں میکوں سنگتیاں سمیت ©سارا کلاچی شاہر ملنڑ آےاہَیی، تے گورنمنٹ مڈل سکول کلاچی سابقہ آریا سماج کنہیا پٹھ شالے دے ہیڈ ماسٹر غلام عباس دی خصوصی فرمیش تے میکوں سکول دا دورہ وی کروایا گیا ہَئی ، جتھاں میڈی خوب خاطر مدارت کیتی گئی ہَیی تے کلاچی دی مشہور ثوبت وی کھوائی گئی ہَئی ۔میں اُتھوں بہوں ساریاں ےاداں ، پیار، خلوص تے محبتاںدی گنڈھڑی گنڈھ بدَھ کے دلی واپس آےا ہامی۔
اپنے اندر سے اٹھنے والے جذباتی خیالات سے چھٹکارا پانے کے لئے ایک بار پھر وہ چپ ہو گئے اور سامنے کے داخلی دروازے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے۔دیوی دیال جی !کچھ اپنے خاندان کے بارے میں بھی بتائیے ؟
میڈے بابا سئیں پتا شری نہال چند کھنیجو کلاچی دے زمیندار ہَن،جیکوں نِہالا لوُنڑی آلا سڈا ویندا ھَئی،اساں ڈُوں بِھرا ہاسے ،میڈے کول وڈا بھرا تخت رام 4مئی 1923ءکوں تحصیل کلاچی اچ جماں ،کجھ سال بعد میں جم پیا، تخت رام نے گورنمنٹ اسلامیہ کالج پشاور کول بی اے بی ٹی کیتا،تے کالج دے سارے پچھلے ریکار ڈ لتَاڑ ڈِتے، اساں ڈوہاں بِھراواں آپنڑیں کیریئر دی شروعات ٹیچری کول کیتی ۔ تخت رام بعداچ ضلع مردان دے علاقے ٹوپی اچ نائب تحصیلداربنڑ کے کلاچی کوں چھوڑ ڈتا،لیکن میکوں آپنڑیں شاہر نال عشق ھئی، اینہہ واسطے کلاچی وچ رہ کے ہائی سکول دے بالاں کوں پڑھاونڑا میڈا مشن ھئی، تے میں اُتھوں دے بالاں کوں اُردو ، ریاضی تے انگریزی مضمون پڑھیندا ہَم۔ تقسیم دے دستی بعد نومبر1947ءکو ں اساڈا ویہڑ ہ لڈِیج کے دِلی آگیا ۔
میں آپنڑیںٹرنگ اِچ کپڑے گھن آونڑ دی جھا تے صرِف کتاباں بھر کے دلی آےا ھَم۔ دلی آونڑ سیتی تخت رام کوں بطورِ اکنامک ایڈوائزر گورنمنٹ آف انڈیا اچ انتظامی عہدہ ملا تے او ترقی کریندے ہوئیںچیف کنڑولر امپورٹ ایکسپورٹ (ڈائریکٹر جنرل فارن ٹریڈدے عہدے کول یکم دسمبر1983ءکوں سبکدوش تھئے)۔ میکوں وی سرکاری ملازمت داموقع ملا، تے اِیں دوران اساں ڈوہاں بھِراواں نے مل کے دِلی اچ مقیم کلاچی تے دیرے وال کمیونٹی دی سماجی خدمت دا بیڑہ چاتا۔ سب توں پہلے اساںمل کے گوسوامی ستی کیول رام میموریل سوسائٹی اِندر پوری دی بنیاداں رکھیاں جیڑی ہر طبقے دے لوکاں کوں تعلیمی،فنی تے طبی سہولیات مہیا کریندی پئی ہے۔تقسیم دے بعد جڈاںدیرہ دے بھاٹیہ خاندان نے راجندرنگر دِلی اچ ڈی آئی خان سکول کھولاتاں ایکوں وی کیول رام سوسائٹی نے سنبھالا دِتا تے آج ایہہ سکول سرکار ی مدد نال بہ احسن چلایا ویندا پیاہے۔ اینہہ وانگوں اِندر پوری اچ ستی کیول رام سینئر سیکنڈری سکول کو ںوی اساںکامیابی نال چلیندے پئے ہیں،اینہہ سکول دی فیس وی بہوں گھٹ ہے تے ا یہہ جدید تعلیمی سہولتا ں کول وی آراستہ ہے۔
شادی دے بعدمیڈے چار پُتر تے ہِک دِھی جمی ۔وڈی دِھی سروج، وت ارجن اروڑہ کھنیجو، بسنت کمار،پرشوتم کمار (میڈے پوترے سنیل دے پِتا ) تے ساراں کول چھوٹا جگدیش کمارجیہڑا اَج کل کیلیفورنیا اِچ راہنداہے۔وڈے بھرا تخت رام نے وی کلاچی وال خاندان دی گھنیش دیوی ناں دی چھوئِر نال شادی کیتی ھَئی،لیکن اُوندے کول کوئی بال بچونگڑا نہ تھیا ۔ابھی گفتگو جاری تھی کہ تین چار پکی عمر کے افراد اندر داخل ہوئے۔ دیوی دیال جی نے اُن سب سے میرا مختصر تعارف کروایا۔ سفید شلوار قمیض میں ملبوس گوپال داس تنیجا کہ جن کا بچپن جنڈولہ میں گزرا تھا ، ساتھ میں ڈیرہ ہائی سکول کے منیجر وجے کمار تنیجا، دیوی دیال کے بڑے بیٹے ارجن کھنیجو اور ایک نوجوان لڑکا یش پپلانی جن سے میری فیس بک پر اکثر بات چیت چلتی رہتی ہے۔ دیوی دیال کے بڑے بیٹے ارجن نے دلی کے ایک سرکاری بینک میں سینئر وائس منیجر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد بوہڑیانوالہ تھلے کے خیراتی سکول کے ورکنگ چیئرمین کی کمان سنبھالی ۔دوسرے بزرگ کا تعلق کلاچی سے تھا مگر ان کا بچپن جنڈولہ میں گزرا تھا جبکہ وجے کمار تنیجا ڈِی آئی خان سکول کے موجودہ منیجر ہیں۔ یش پپلانی بی اے کے طالبعلم ہیں جن کی دادی کا تعلق ڈیرہ سے ہے اور وہ چندی گڑھ میں اپنے بڑے بیٹے کے ہاں رہتی ہیں ۔
تھوڑی سی تعارفی بات چیت کے بعد دیوی دیال نے مشورہ دیا کہ مہمان کو باہر لے جا کر تھلہ دکھایا جائے ، یہ کہتے ہی وہ واپس صوفے پر لیٹ گئے ۔میں سب بزرگوں کی سربراہی میں دفتر سے باہر نکل کر ایک بار پھر کھلے میدان میں آن کھڑا ہوا۔ تخت پوش پر ابھی تک بوڑھے اور بوڑھیاں سمٹی بیٹھی تھیں۔ ارجن نے مجھے بتایا کہ یہ ڈیرہ اور کلاچی کی سرائیکی برادری کے کچھ بزرگ ہیں جو تھلے کے قریب رہنے کی وجہ سے اکثر شام کو یہاں آ جاتے ہیں اور اکھٹے بیٹھ کر اپنے ماضی اور نا مکمل آشاﺅں کے تذکرے کرتے رہتے ہیں۔ یہ سب یہاں بیٹھ کر ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے ہیں اورایک دوسرے کو دلاسے دیتے رہتے ہیں۔ جھکی کمر اور خزاں رسیدہ چہروں والے ان افراد کو جب بتایا گیا کہ اے وی تویڈا دیرے وال بال ہے تو ان کی بجھتی آنکھوں کی بینائی واپس لوٹ آئی ۔کانپتی بڑھیا نے مجھ سے پوچھا ۔ خاص دیرے وال ہیں؟۔دوسرا بزرگ لاٹھی سنبھا لتے ہوئے چہک کر بولا ۔ میکوں گلکڑی پا، جبکہ بوڑھی عورت نے میرے سر پر ہاتھ رکھا۔میں تعظیماً تھوڑا سا جھکا اور اُن سب سے دعائیں لیں۔
تخت پوش سے تھوڑی دور چلنے کے بعد ہم بوہڑیانوالے تھلے کے بانی شری تخت رام کے سنگی مجسمے کے سامنے آ پہنچے ۔سیاہ رنگی ٹوپی ، عینک اور نارنجی چادر کے اوپر گیندے کے ہار پہنے مجسمے کے نیچے انگریزی میںتاریخ پیدائش جون1923اور تاریخ وفات تیس دسمبر 2008 درج تھی جبکہ بقیہ عبارت ہندی میں لکھی گئی تھی۔تخت رام کے مجسمے کے ساتھ ہی بوہڑ کا درخت واقع تھا جسے سب سے پہلے کیاری کے اندر لگایا گیا تھا، تیس سال تک وہ درخت کافی پھلا پھولا مگر بعد میں اسے کسی بیماری نے آلیا اور وہ سوکھتا چلا گیا ۔یہ وہی درخت تھا جس کا پودا بلوٹ سے منگوایا گیا تھا۔بڑے درخت کے ساتھ پیدا ہونے والے چھوٹے پودے کو یہاں سے اکھاڑ کر سکول کے احاطے میں لگایا گیا جو ایک تناور درخت بن چکا ہے۔تخت رام کے مجسمے کے عقب میں ایک چوکور شیشے کا کمرہ بنا ہو اہے جس کے اندر ہنومان ، گھنیش جی اور ہندوﺅں کے شنکر بھگوان کی مورتیاں رکھی گئی ہیں ۔شیشے کے اس مندر کے ساتھ کیول رام بوہڑیانوالہ مہاراج کا مندر بھی بنایا گیا ہے ۔چمکداراسٹیل کی گرل میں مقید شیشے کی دیواروں میں ریشمی چادر اوڑھے ،گلے میں منکوں کی مالا پہنے ،مدھر سی مسکان لیے بیٹھے کیول رام جی کی مورتی کے آگے سنگ مرمر کی تختی پر”گوسوامی ستی کیول رام جی، بوہڑیانوالہ تھلہ اندر پوری کالونی، دہلی “ درج ہے اور مجسمے کے چرنوں میں ایک چوکور سانچے کے اندر لیپ کی گئی مٹی رکھی گئی ہے جس کے اوپر گیندے کے تازہ پھول رکھے ہوئے ہیں۔کیول رام کے مجسمے کی دائیں طرف لکڑی کے کھڑاﺅں بھی دکھائی دیں جن کے بارے میں یہاں کے ہندوﺅں کا عقیدہ ہے کہ آج سے پانچ سو سال قبل یہی کھڑاﺅں پہن کر کیول رام مہاراج نے بل اوٹ میں بوہڑ کے درخت کے نیچے بیٹھ کر تپسیا کی تھی اورتپسیا کے دوران ایک شیر نے اُسے مارنے کی کوشش کی تھی تب کہیں اچانک ایک سانپ نکل آیا تھا، جس کی پھنکار سے شیر اندھا ہو کر بھاگ نکلا تھا۔کیول رام کے مجسمے کے عقب میں شیشے کے ٹکڑوں کی مدد سے کسی ہندوستانی آرٹسٹ نے اس مشہور کہانی کے منظر کو شاندار طریقے سے مقید کر لیا تھا اور اس کرامت کو ڈیرہ اسماعیل خان کے ہندو مسلمان سبھی مانتے ہیں۔ کیول رام کے موجودہ مندر کو29-8-75 میں تعمیر کیا گیا تھا اور 15-4-2001میں تھلے کی سلور جوبلی بھی منائی گئی تھی۔
دِلی کے مندر میں پڑی وطن کی مٹی : کیول رام کے قدموں میں پڑی ڈیرہ کی مٹی کی تاریخ نرالی ہے۔ تقسیم ِ ہند کے بعد ڈیرہ ،کلاچی اور پہاڑپور سے ہجرت کرکے دلی آنے والی ہندو کمیونٹی نے بل اوٹ کے ستی کیول رام کی طرز پر تھلہ بنانے کیلئے ہند سرکار سے اراضی طلب کی تھی۔ تخت رام کی کاوشوں سے اِندر پوری کالونی میں انہیں کچھ زمین الاٹ کی گئی تھی جہاں ایک باقاعدہ تقریب کا انعقاد کرکے ستی کیول جی مہاراج، بوہڑ یانوالہ میموریل سوسا ئٹی تشکیل دے کر وہاں پر تھلے کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا ۔1966-67کے دوران بھاٹیہ بازار ڈیرہ کے رہائشی دلیپ چند نے دِلی میں مقیم ہندو ڈیرے والوں کی خصوصی فرمائش پر ننکانہ صاحب میں آئے سکھوں کے ایک جتھے کے سربراہ سردار سوہن سنگھ بیدی کوڈیرہ اسماعیل خان کی مٹی سے اُگا بوہڑ (بڑھ) کا ایک پودا اور بلوٹ میں کیول رام تھلے کے قریب کی مٹی تھیلے میں بھر کر دی تھی جسے دلی پہنچایا گیاتھا ۔تلسی کے پودے کی طرح بڑھ کا درخت بھی ہندو دھرم میں مقدس مانا جاتاہے۔کیول رام کے چرنوں میں رکھی یہ وہی مٹی ہے جسے ڈیرہ اسماعیل خان کے قصبے بلوٹ سے لاکر یہاں رکھا گیاہے ۔ مندر کا پجاری روزانہ اس مٹی پر پانی کا لیپ چڑھا تا ہے جس پر گیندے کے تازہ پھول رکھ دئیے جاتے ہیں اور یہاں کی ہندو کمیونٹی اپنے پُرکھوں کی سرزمین سے لائی مقدس مٹی کو چومتی ہے اور سجدہ کرتی ہے۔
کیول رام مہاراج کی یاد میں ہر سال ہندی مہینے وِساکھ کی پہلی اور شمسی مہینے اپریل کی 12 ،13تاریخ کو یہاں پر ایک شاندار میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے،جسے میلہ ستی کیول رام کہا جاتا ہے۔ کیول رام مندر سے باہر نکلنے کے بعد دائیں ہاتھ قریبی دیوار میں نصب شیشے کا شوکیس دکھائی دیتا ہے، جس کے اندر زرد رنگی شال میں لپٹے سائیں بابا کی مورتی رکھی گئی ہے۔ سائیں بابا کا مجسمہ جے پور سے خصوصی طور پر بنوا کر اس شوکیس میں رکھا گیا ہے۔جے پور مجسمہ سازی کی صنعت کے حوالے سے ہندوستان بھر میں مشہور ہے۔
بوہڑیانوالے تھلے کی سیر کروانے کے بعد مجھے ملحقہ ستی کیول رام پبلک سکول کے احاطے میں لے جا کر سکول کی نارنجی عمارت بھی دکھائی گئی۔سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن نئی دہلی سے الحاق شدہ اس خیراتی سکول میں مونٹیسوری سے بارہویں جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے جہاں پندرہ سو کے قریب طالبعلم مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سکول کا اپنا کھیل کا میدان، فری بس سروس، باسکٹ بال کورٹ ، لائبریری اورمفت ڈسپنسری بھی ہے جہاں بچوں کیلئے ایک ڈاکٹر مختص ہے۔ڈیرہ اور کلاچی کی ہندو کمیونٹی مل کر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ذات برادری میں ہونے والی شادیوں کی مفت سروس بھی چلاتی ہے۔
اِندر پوری کالونی میں واقع تھلہ بوہڑیانوالہ دیکھنے کے بعد یہ سوچتے ہی میرا سر فخر سے بلند ہو گیا کہ میرے شہر کے عظیم لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک انجان شہر دلی میں اپنے پاﺅں جمائے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔دیوی دیال اگرچہ خوش ہیں لیکن انہیں ایک بات کا دکھ ہے کہ یہاں اُن کی مادری زبان دھیرے دھیرے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہندوستانی سرائیکیوں کی چوتھی پیڑھی جوان ہو چکی ہے لیکن اسے المیہ کہئے کہ وہ اپنے پرکھوں کی زبان سمجھ تو سکتی ہے لیکن پوری طرح بول نہیں سکتی۔دیوی دیال کا کہنا تھا کہ شاید ہم سے انجانے میں کہیں کوتاہی ہوئی ہے۔، ہم نے اپنی زبان کو پروموٹ نہیں کیا جبکہ میرا کہنا تھا کہ کوئی بھی زبان اس وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک وہ اپنی تاریخ اور جغرافیہ سے جڑی رہے سرائیکی ہندو جب دلی آئے تو انہیں وہ ماحول میسر نہ آسکا جس کے سہارے ان کی زبان پنپتی۔ سرائیکی قوم اور سرائیکی زبان کے ساتھ سوتیلا سلوک صدیوں سے جاری ہے اور سرحد کی دونوں جانب اس زبان کے بولنے والے اپنی اہمیت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔وادی سندھ کی پانچ ہزار سال پرانی زبان سرائیکی اپنا جغرافیہ ، اپنے پہاڑ،اپنا تختِ سلیمان،اپنے سات دریاﺅں میں شاہ دریا ( سندھ) ، اپنے صحرا( روہی، تھل ، دامان ) اور پانچ ہزار سالہ تہذیبی تمدن رکھتی ہے لیکن ریاست پاکستان خطے کی قدیم ترین قوم کے وجود سے انکاری ہے۔ دیوی دیال جی کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اٹھ بیٹھے اور کہا:
اپنی زبان کو زندہ رکھو۔ زبان سے بڑی انوسٹمنٹ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ زبان ایک نادر خزانہ ہے، اسے آنے والی نسلوں میں انوسٹ کیجئے ۔ایک وقت آئے گا یہی نسل اپنے وجود کی جنگ لڑے گی اور ریاست کو مجبور کرے گی کہ وہ چل کر سرائیکی قوم کے پاس آئے اور اس کی قومی حیثیت کو تسلیم کرے۔ یہی دنیا کا دستور ہے اور یہ ہو کر رہے گا ۔
زندگی میں ہمیشہ بہت سی باتیں ان کہی رہ جاتی ہیں۔ بہت سے تذکرے ،سوالات اور خیالات دل سے نکل کر دل میں ہی رہ جاتے ہیں اور دل کے ساتھ مٹی میں فناہو جاتے ہیں۔دیوی دیال جی بہت ساری باتیں کرکے بھی خاموش رہا اور خاموش رہ کر بھی بہت ساری باتیں کر گیا۔ سفید صوفے پر لیٹی ارمانوں کی سلگتی خاک وہیں چھوڑ کر میں وجے کمار تنیجا کے ہمراہ ہوٹل واپس لوٹ آیا۔
یہ بھی پڑھیے:دلی دل والوں کی (قسط5)۔۔۔عباس سیال
٭٭٭٭٭٭
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور