کہاوتیں ، ضرب الامثال، روزمرہ اور محاورے ہر زبان کا ایک اٹوٹ، نا گزیر اور دلچسپ حصہ ہوتے ہیں۔ دُنیا کی شاید ہی کوئی ایسی زبان ہو گی جس میں کسی نہ کسی صورت و حد تک ان کا استعمال نہ ہوتا ہو۔ جس طرح شعر و شاعری میں صنائع و بدائع، تراکیب و بندش، تشبیہات و استعارات، الفاظ کی نشست وبرخواست وغیرہ لطف زبان و بیان، معنی آفرینی، اثر پذیری، چاشنی اور چٹخارے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اسی طرح نثر میں کہاوتیں، ضرب الامثال اور محاور ے بھی مستعمل ہیں۔
اردو کا مشہور محاورہ ہے کہ “بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی“۔ اسکا قدیم ترین استعمال غالباً 1802 میں باغ و بہار میں ملتا ہے۔ اب اسکا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ اس سے پہلے لنگوٹ کا استعمال ہی نہیں کیا جاتا تھا بلکہ لوگ درختوں کے پتوں سے کام چلاتے تھے۔ غالب گمان یہی ہے کہ ابتدائی ایام میں یہ "بھاگتے چور کی لنگوٹ ہی سہی” ہوتا ہوگا۔ لیکن جن لوگوں نے ذاتی تجربہ کیا ہے ان کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ لنگوٹ میں بھاگنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اب لنگوٹ سے لنگوٹی کیسے ہوئی اس کا کوئی تاریخی حوالہ نہیں مل سکا۔ بہرحال یہ صورت ممکن ہے کہ چوروں نے اپنی ضرورت کی پیش نظر لنگوٹ کو خود ہی لنگوٹی کر دیا ہو تاکہ بھاگنا آسان ہو۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب چور بھاگتے بھی تھے اور اپنی لنگوٹی بھی چھوڑ جاتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ محاورہ دور جدید کے تقاضوں سے بالکل ہم آہنگ نہیں۔جدید دور کے ساتھ جدید چوروں نے بھی جدید طریقے ایجاد کر لیئے۔ اب وہ چوری ایسے کرتے ہیں کہ ثبوت نہیں چھوڑتے۔علاوہ ازیں چور اب برینڈڈ کپڑے ، پینٹ کوٹ ، جینز پہنتے ہیں ۔ظاہر ہے وہ اتار کر رکھ جانا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ سو عوام لنگوٹی سے بھی گئے۔ بلکہ اب اگر چور آپ سے آپکی ساری لنگوٹیاں لے جائے اور ازراہ مہربانی ایک دو واپس کر دے تو اسے غنیمت جانیں کہ ننگے ہونے سے تو بچ گئے۔
اپنے اردگرد کے مسائل و حالات کو دیکھتے ہوئے کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ ننگے ہیں ؟ آپ کے اور میرے جسموں پر جولنگوٹیاں تھیں، چور بھاگتے ہوئے وہ بھی اتارلے گئے۔اب ہمارا میڈیا کتنا بھی آزاد سہی مگر بہرحال ابھی اسے اتنی آزادی نہیں ملی کہ بناء لنگوٹ والوں کو ٹی وی پر دکھانے لگے۔ وہ تو روزانہ ٹالک شوز میں صرف لنگوٹ والوں کو ہی بے لنگوٹیاں کو دکھانے کے لیئے بلاتے ہیں۔ ماضی میں یہ روایت تھی کہ چور بھلے چوری کر لے لیکن لنگوٹی ضرور چھوڑ جائےلوگ اس بات کو سخت ناپسند کرتے تھے اور اس چور کو انتہائی کم ظرف اور اخلاق سے گرا ہوا سمجھتے تھے جو لنگوٹی نہ چھوڑتا تھا۔اس ماضی کی روایت کو زندہ رکھنے کے لیئے حکومت نے ایک محمکہ بنا دیا جس کا کام ہی ایسے چوروں کو پکڑنا ہے جو لنگوٹیاں چھوڑنا بھول جاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں اتنا چور نہیں بولتے جتنا اُن کے لنگوٹ بولتے ہیں۔ اب تو برسوں سے ترسی ہوئی قوم چاہتی ہے کہ آسمان پر کوئی ایسا بادل بھی نمودار ہو جو اُس کے دیرینہ مسائل کا حل برسائے۔ نام نہاد نظام تو ٹھہرے ہوئے، پُرتعفن پانی کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ جو کچھ زمین پر ہے اُسے دیکھ کر شرم سے پلکیں جُھکی جاتی ہیں۔ ایسے میں بار بار آسمان کی طرف دیکھنا فطری امر ہے کہ وہیں سے کوئی بہتری آئے تو آئے۔ ورنہ یہاں تو عوام کو چور کی لنگوٹی کیا اپنی لنگوٹی بھی نہیں مل رہی۔ ۔ گذرے وقتوں میں کھوجی ہوتے تھے جہاں چوری ہوئی ان کی خدمات لی جاتی تھیں۔ اس کا یہ فائدہ ہوتا تھا کہ لنگوٹ ہی نہیں چور بھی مل جاتا تھا۔ اب تو نہ کھوجی رہے اور نہ لنگوٹی رہی۔
مگر مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ اردو کی کہاوتیں اور محاورے اپنے اندر جو حکایات، علامتیں اور نام لیے ہوئے ہیں ان کی حقیقت اور پس منظر سے ہماری آج کی نسل ناواقف ہے۔ جیسے ’نا نو من تیل ہوگا، نا رادھا ناچے گی‘ کی کہاوت سُن کر ہمارے نوجوان، رادھا کو بولی وڈ کی کوئی ہیروئن سمجھتے ہیں، اور سوچنے لگتے ہیں کہ یہ بھارتی رادھا تو بس سعودیوں، ایرانیوں، کویتیوں اور عراقیوں ہی کے لیے ناچتی ہوگی، کیوں کہ اتنا سارا تیل تو وہی فراہم کرسکتے ہیں۔
اور تو اور جس معاشرے میں اولاد کے صاف اردو بولنے پر ماں باپ کے دل میں یہ سوچ کر ہول اٹھنے لگتے ہوں کہ ’شاید اس کی انگریزی اچھی نہیں، اسی لیے انگریزی الفاظ کا ٹانکا لگائے بغیر صاف سیدھی اردو میں پورے پورے جملے بول رہا ہے، اب اس کا مستقبل کیا ہوگا؟‘ تو وہاں کہاوتیں اور محاورے تو کجا سیدھے سادے لفظ اور فقرے سمجھنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایسے میں کسی کے سامنے ’مطلقاً‘ کہو تو اسے گمان ہوتا ہے کہ کسی طلاق یافتہ خاتون کا ذکر ہورہا ہے۔ جب لوگوں کی زبان کا یہ عالم ہو تو ان کی سمجھ میں قدیم کہاوتیں اور محاورے کیسے آسکتے ہیں؟ سو میں نے سوچا کہ ایسی کہاوت بناؤں جو ہمارے حالات، واقعات اور ماحول کے مطابق ہو تو قدیم کہاوت “بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی“ کی بجائے لوگوں میں زیرو میٹر کہاوت کو روشناس کرایا جائے “ خودکش حملہ آور کا شناختی کارڈ ہی سہی“ ۔ مجھے یقین ہے کہ اس زیرو میٹر کہاوت کا استعمال آپ کے لیئے بہت آسان ہو گا۔ کیونکہ اس کے معنی و مطالب ہم سب پر خوب آشکار ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ