سال کا آغاز ہوا تو پاکستان کرکٹ بورڈ پر نئے مینجنگ ڈائریکٹر وسیم خان کا راج شروع ہوا، وزیراعظم عمران خان کی سوچ کے مطابق ڈیپارٹمنٹس کی چھٹی کر دی گئی، پہلی بار چھ علاقائی ٹیمیں ڈومیسٹک کرکٹ میں ان ایکشن آئیں۔
خالد محمود، سابق چیئرمین پی سی بی،،،ڈیپارٹمنٹ کرکٹ لانے والے عبدالحفیظ کاردار تھے، وہ کسی مقصد کے تحت ڈیپارٹمنس کو لائے تھے ۔
بورڈ کے بڑوں کے درمیان اختلافات زوروں پر رہے،، بلوچستان میں بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں بغاوت ہوئی،، سی او او سبحان احمد کا پی سی بی میں پچیس سالہ سفر ختم ہو گیا
نہ صرف بورڈ کے عہدیدار بلکہ کرکٹ ٹیم کے ساتھ جڑے تجربہ کار کپتان، کوچ اور چیف سلیکٹر بھی تبدیلی کی زد میں آ گئے
ورلڈ کپ اور اس سے پہلے دورہ نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور انگلینڈ میں ٹیم ناکام ہوئی تو ملبہ چیمئنز ٹرافی کے فاتح کپتان سرفراز احمد اور ٹیم مینجمنٹ پر ڈال کر گھر بھیج دیا گیا،
مصباح الحق بطور چیف سلیکٹر، ہیڈ کوچ اور بیٹنگ کوچ نمودار ہوئے،،وقار یونس باولنگ کوچ ٹھہرے
احسان مانی، چیئرمین پی سی بی، یہ ضرور ہے کہ تبدیلیاں ہیں، میں نے پہلے دن سے کہا تھا کہ پروفیشنل بورڈ رکھنا چاہتا ہوں
کرکٹ کی بحالی کیلئے محسن حسن خان کی قیادت میں وسیم اکرم، مصباح الحق اور عروج ممتاز پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی،،
مگر یہ بھی تبدیلیوں سے بچ نہ پائی، محسن حسن خان کی دستبرداری کے بعد چیف ایگزیکٹیو سربراہ بنے،، اہم فیصلوں کے بعد وسیم خان کو یہ کہہ کر ہٹا دیا گیا کہ کمیٹی کی کمان کسی کرکٹر کو ہی سونپی جائے گی
پی سی بی ملک کا واحد بورڈ ہے جو خود کفیل ہے مگر پے در پے تبدیلیاں اس کی ساکھ کے ساتھ کرکٹ کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں،
اے وی پڑھو
بھارت کو فائنل میں عبرتناک شکست، پاکستان نے ایشیا ایمرجنگ کپ جیت لیا
لاہور میں پاکستان کا سب سے اونچا پرچم نصب کیا جائے گا
برلن میں جاری اسپیشل اولمپیکس میں قومی سائیکلسٹ کی نمایاں کارکردگی