دسمبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بے نظیر بھٹو کا قتل کیوں ہوا؟ ۔۔۔عامر حسینی

افغانستان پر امریکی حملے سے قبل جنرل مشرف بار بار افغان طالبان کے نائن الیون میں واقعے میں ملوث ہونے سے انکاری تھے-

مفتی کفایت اللہ نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی – یہ پریس کانفرنس سابق جنرل مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے پر آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے ردعمل میں تھی –

مفتی کفایت اللہ نے سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے کو درست قرار دیا اور انھوں نے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت ریاست پاکستان کے تین ادارے ہیں: مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ باقی سب محکمے ہیں جو ان تین میں سے کسی نہ کسی کے ماتحت ہیں- اور سب اداروں کا کردار اور حدود آئین میں متعین ہیں اور اُن کو متعین کردار ادا کرنا اور متعین حدود میں رہنا ہے- جو اپنے کردار اور حدود سے تجاوز کرتا ہے اُس کی سزا آئین میں درج ہے- آئین کا آرٹیکل چھے آئین توڑنے یا اس کو معطل کرنے اور اس میں اختیار نہ ہونے کے باوجود تبدیلی لانے کو غداری قرار دیا گیا-

مفتی کفایت اللہ کی پریس کانفرنس کا یہ مرکزی تھیم بالکل درست ہے-

لیکن مفتی کفایت اللہ جب سابق آمر پرویز مشرف افغانستان پر امریکی جنگ کے دوران امریکہ کا ساتھ دینے، القاعدہ، طالبان کے کئی اراکین کو امریکہ کے حوالے کرنے اور لال مسجد آپریشن کرنے پر لتاڑتے ہیں اور وہ اُن پر مُلک کو امریکہ کے ہاتھوں گروی رکھ دینے کا الزام لگاکر اسے جنرل مشرف کا ذاتی فیصلہ قرار دیتے ہیں اور اُن کی پھانسی کا جواز لاتے ہیں تو وہ پاکستان کی بطور ریاست اور اس کے اداروں کی افغانستان بارے پالیسی پر بہت بڑا جھوٹ اور بہت بڑی علمی بددیانتی کرتے ہیں-

جس وقت نائن الیون ہوا تو پاکستان کی فوج اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی اور آئی ایس آئی نے جنرل مشرف کی قیادت میں جو پالیسی اختیار کی جو اقدامات اٹھائے وہ ابتک کانفیڈنشل ہیں اور ہمارے پاس سرکاری تصدیق شدہ کوئی ایسی ڈی کلاسائیفائیڈ دستاویزات نہیں ہیں جن سے ہم یہ پتا چلا سکیں کہ 80ء سے نائن الیون سے قبل تک ہماری فوج اور انٹیلی جنس ادارے افغانستان کے معاملے میں کیا کررہے تھے؟ اور پھر نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ہمارے ان اداروں نے کیا کیا؟

ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ غیرسرکاری، غیر مصدقہ اور اندر سے لیک آؤٹ معلومات ہیں-

ہمیں یہ معلوم ہے کہ جارج بش جونئیر نے ہماری ریاست کے آمر جنرل پرویز مشرف کو دو ٹوک انداز میں پوچھا:

آپ ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں؟

جنرل مشرف نے امریکی صدر کی اس دو ٹوک حتمی چنوتی کے بارے میں جو وسیع مشاورت پر مبنی تمام پارلیمانی جماعتوں کی قیادت کو بلایا اور اُن سے مشورہ لینے کے بعد امریکہ کی افغانستان میں حکمران طالبان کے خلاف جنگ کی حمایت کی- امریکہ کو پاکستان کی فضائی حدود، دو فوجی اڈے، انٹیلی جنس تعاون، نیٹو کی سپلائی کے لیے راہداری درکار تھی یہ سب کچھ امریکیوں کو دیا گیا-

ایم ایم اے اور مشرف کی اتحادی جماعتوں نے 2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کے زریعے جنرل مشرف کے تمام اقدامات کو آئینی و قانونی کور فراہم کیا- کفایت اللہ کی پارٹی ایم ایم اے میں موجود تھی اور ایل ایف او پاس کرانے میں شریک تھی-

یہاں پر ایک اور امر قابل زکر ہے- افغانستان پر امریکی حملے سے قبل جنرل مشرف بار بار افغان طالبان کے نائن الیون میں واقعے میں ملوث ہونے سے انکاری تھے- اور جب اُسامہ بن لادن اور اُن کی تنظیم القاعدہ کو امریکہ نے نائن الیون کے واقعے کا زمہ دار قرار دے ڈالا تو جنرل مشرف ایک طرف تو مُلا عمر کی حکومت پر زور دے رہے تھے کہ وہ اُسامہ بن لادن اور دوسرے القاعدہ کے سرکردہ لوگوں کو امریکہ کے حوالے کردے اور افغان طالبان اپنی صفوں سے ایسے لوگ بھی نکال باہر کریں جو امریکی مفادات کے خلاف عالمی اسلامی وھابی عسکریت پسندی کی لہر کے ساتھ کھڑے ہیں- یہ سب نہ ہوا اور امریکہ نے افغانستان میں طالبان کا تختہ الٹایا تو اُس زمانے میں جنرل مشرف اور اُن کی حکومت نے افغانستان میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے زریعے لویہ جرگہ کے تحت قومی حکومت کے قیام کی کوششوں پر افغان طالبان کو بھی اُن مذاکرات میں شامل کرانے پر زور دیا- ٹھیک یہی وہ دور ہے جب ہم پاکستان کے ریاستی کوریڈور میں گُڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی تقسیم دیکھتے ہیں-

ویکی لیکس سمیت ابتک لیکس ہونے والی معلومات اور خود پاکستان کے عسکری اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیز کی عسکریت پسندی کے بارے میں روش کا تعین کرنے والے اقدامات سے یہ تاثر تو بہت پختہ ہوگیا کہ پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس ادارے مبینہ طور پر افغانستان کے اندر شمالی اتحاد اور اُن کے ساتھ شامل ہونے والے دیگر افغان سیاسی و عسکریت پسند گروپوں کے افغانستان پر مکمل کنٹرول اور افغان طالبان کو مکمل طور پر نیوٹرلائز کرنے کے حق میں نہ تھے- افغان طالبان نے افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج اور اُن کے ساتھ شامل افغان گروپوں کے خلاف جو عسکری مزاحمت شروع کی اُس مزاحمت کو مضبوط کرنے، اُسے موثر بنانے میں جن ممالک کا نام اور فوجی و انٹیلی جنس تعاون کرنے کا الزام لگا اُن میں سرفہرست پاکستانی فوج اور اُس کے انٹیلی جنس اداروں کا نام تھا-

حقانی نیٹ ورک کی قیادت ہو یا افغان طالبان کی مجلس شوریٰ ہو ان دونوں کے پاکستان کے علاقوں میں پائے جانے کی خبریں بار بار آئیں اور بعد ازاں پاکستان نے مری کے اندر جو افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں ثالثی کرنے اور ایسے ہی دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان قیادت کے مذاکرات کی شروعات میں جو کردار ادا کیا، اُس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان کی فوج اور اُس کے انٹیلی جنس اداروں نے امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے دباؤ کے باوجود افغانستان کے اندر اپنی 80ء کی دہائی سے چلی آرہی پالیسی کو مکمل طور پر رول بیک نہیں کیا تھا بلکہ اُس کو ماڈیفائی کیا تھا-

جنرل مشرف کے زمانے سے پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس اداروں نے افغانستان میں اپنی فوجی حکمت عملی کو عالمی جہاد ازم کے نظریات پر مبنی آئیڈیالوجی سے الگ ضرور کرلیا تھا اور ایسے اقدامات اٹھائے تھے جس کے سبب اس آئیڈیالوجی کے گرد تعمیر کئی ایک جہادی و تکفیری نیٹ ورک کو اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہوگیا اور انہوں نے عسکریت پسندی کے میدان میں بھی اس کا جواب دیا جبکہ سیاسی میدان میں اُس کا جواب دیوبندی اور سلفی سیاسی جماعتوں نے یہ کہہ کر دینا شروع کیا کہ جنرل مشرف اور اُن کے ساتھی اسلام کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بن گئے ہیں حالانکہ فرق صرف یہ پڑا تھا کہ 80ء کی دہائی میں جنرل ضیاء کی قیادت میں جرنیلوں نے اور اُن کے سیاسی، مذھبی اتحادیوں نے افغانستان کے تناظر میں امریکہ کے جہادی سیاسی اسلام سے جو وابستگی اختیار کی تھی، جنرل مشرف، اُن کے ساتھی جرنیل اور سیاسی اتحادیوں نے امریکہ کے ‘لبرل /صوفی اسلام’ کے نام پر نئے ڈسکورس کو اپنا ڈسکورس بنایا تھا- لیکن نہ تو اس ڈسکورس میں پاکستان کے ریاستی اداروں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر رنگا اور نہ ہی فوجی و انٹیلی جنس سطح پر امریکیوں کے ساتھ ریاست کی ویسی مکمل ہم آہنگی تھی جیسی کم از کم جینیوا معاہدے سے پہلے جنرل ضیاء اور امریکی صدر ریگن کے درمیان دیکھنے کو ملی-

پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں سے پاکستان پیپلزپارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو ہی شاید وہ واحد سیاسی رہنماء تھیں جنھوں نے پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں، مذھبی جہادی نیٹ ورک کے اندر بدلے حالات میں تقسیم، اختلاف اور پھر خود پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ کے امریکی انتظامیہ سے افغانستان و جہادی نیٹ ورک کے معاملے پر موجود اختلاف اور تقسیم کی نوعیت کو جانچ لیا تھا-

جنرل مشرف اور اُن کے ہمنواء جرنیل 80ء کی دہائی سے چلے آرہی تزویراتی گہرائی کی پالیسی اور اُس کے تحت قائم ایک بڑی جہادی سلطنت کو مکمل طور پر منہدم کرنے پر نہ تو رضامند تھے اور نہ ہی اُن کے خیال میں ایسا کرنا خود پاکستان کی داخلی و خارجی سلامتی سے جڑے مفادات کے لیے درست تھا- انہوں نے اسے ماڈیفائی کرنے کے راستے کا انتخاب جب کیا تو جنرل مشرف کے ساتھ مارشل لاء لگانے والے چند ایک جرنیلوں کے اُن سے سخت اختلافات پیدا ہوئے جن میں جنرل مظفر عثمانی، جنرل عزیز، جنرل شاہد عزیز، جنرل محمود سرفہرست تھے اور جنرل مشرف اُن کو آسانی سے الگ کرنے میں کامیاب ہوگئے-

پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں میں ایسے افراد موجود تھے جو جنرل ضیاء الحقی ایسی باقیات کہے جاسکتے ہیں جو اس ماڈیفائی پالیسی کو بھی ‘یو ٹرن’ اور اسلام سے غداری شمار کرتے تھے- یہ سوچ سابق جرنیلوں جیسے حمید گُل تھے میں بھی پائی جاتی تھی-

بے نظیر بھٹو جن کی پارٹی 80ء کی دہائی سے ہی جنرل ضیاء الحق کے جہادی ڈسکورس کی مخالف تھی ایسے موقعہ پر کُھل کر سامنے آئیں اور انھوں نے ماڈیفائی ڈسکورس کو بھی مسترد کیا اور ایک بار پھر انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان اور جہاد ازم اکٹھے نہیں چل سکتے چاہے جہاد ازم ماڈیفائی ہی کیوں نہ ہو-

بے نظیر بھٹو جنرل مشرف سے وردی اتارنے، مارشل لاء کے خاتمے اور حقیقی جمہوریت پسند سیکولر لبرل جماعتوں کو شفاف الیکشن سے برسراقتدار آنے دینے کا مطالبہ کررہی تھیں- انہوں نے یہی مطالبہ امریکی انتظامیہ اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتوں کے سامنے بھی رکھا- اُن کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا اور پاکستان میں جہاد ازم کے نام پر عالمی و مقامی دہشت گردوں اور اُن کے نظریہ سازوں کو بے اثر اُس وقت تک نہیں بنایا جاسکے گا جن تک پاکستان میں حقیقی عوامی نمائندہ جمہوریت کا قیام نہیں ہوتا- جنرل مشرف کے ساتھ تعاون اُسی صورت ممکن ہوگا جب وہ مارشل لاء ختم، وردی اتاریں گے اور مُلک میں ایسے آرمی چیف، ایسے ڈی جی آئی ایس آئی، ایسے ایم آئی چیف اور ایسے کورکمانڈرز تعینات ہوں گے جو اچھے اور بُرے جہادی/طالب کی تقسیم پر یقین نہ رکھتے ہوں اور وہ ‘مذھبی جنونیت سے لتھڑی جہادیت’ کو بطور پراکسی دوسرے ممالک میں استعمال نہ کرنے پر یقین رکھتے ہوں- انھوں نے پوری دنیا میں لیکچرز کے زریعے سے، پریس کانفرنس اور دو بدو ملاقاتوں میں عالمی طاقتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جس راستے پر امریکی اتحاد اور پاکستان میں جنرل مشرف چل رہے ہیں وہ راستا کبھی بھی امن اور خوشحالی کا راستا نہیں بن سکتا-

جنرل مشرف کا المیہ یہ تھا کہ وہ ایک طرف تو ماڈیفائی پالیسی اختیار کرنے والی فوجی قیادت کی نظر میں اہلیت اور اثر کھوبیٹھے تھے دوسرا نیم دلی پر مبنی انسداد دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف اُن کے اٹھائے گئے اقدامات نے جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں سیاسی و مذھبی میدان میں ریڈیکل دیوبندی و سلفی ازم پر مبنی سیاست کے اسٹیک ہولڈرز کو اُن کے سخت خلاف کردیا تھا- جنرل مشرف نے ان اسٹیک ہولڈرز کو سیاسی اقتدار کی رشوت بھی دی جیسے ایم ایم اے تھی لیکن بات بن نہ سکی اور سب سے تباہ کُن راستا جنرل مشرف نے پاکستان پیپلزپارٹی اور اے این پی کے خلاف اختیار کیا- یہ راستا دراصل ماڈیفائی ڈیپ اسٹیٹ کے علمبردار جرنیل شاہی کا راستا تھا اور جب جنرل مشرف ایک بے کار اور فاضل پرزہ سمجھ لیے گئے تو اُن کے خلاف ماڈیفائی ڈیپ اسٹیٹ پالیسی لیکر چلنے والے جرنیلوں نے جنرل کیانی کی قیادت میں ایک تحریک کو سپورٹ کرنا شروع کردیا- اس تحریک کا ہراول دستہ اصل میں ضیاءالحقی باقیات کے سیاسی و مذھبی و قانونی عناصر تھے- جنرل مشرف نے اپنے خلاف اس تحریک سے نمٹنے کے لیے امریکیوں کی مدد سے بے نظیر بھٹو سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی لیکن اُن کو انھوں نے نہ صرف دھوکہ دیا بلکہ وہ کیانی اور اُن کا ساتھ دینے والے جنرلوں کے معاملے میں بھی بزدل ثابت ہوئے-

پاکستان میں سیاست میں ضیاء الحقی باقیات کی سب سے بڑی اور طاقتور علامت نواز لیگ اپنے ہم خیال جونئیر شراکت داروں کے ساتھ ایک ماڈیفائی ضیاءالحقیت کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی ہے-

اُس نے 2008ء سے 2012ء تک کیانی، افتخار کے ساتھ مل کر اور سب سے بڑھ کر ماڈیفائی پالیسی کو لیکر چلنے والی جرنیل شاہی کے ساتھ اپنا سنہرا دور واپس لانے کی کوشش کی لیکن اس دوران امریکہ اور سعودی عرب کے مفادات کے دباؤ میں یہ نہ چاہتے ہوئے بھی ماڈیفائی جرنیل شاہی سے ٹکراؤ میں آگئی، اور اس دوران اسی ماڈیفائی جرنیل شاہی کے اندر جو ‘عمران خان’ کو زیادہ مناسب خیال کررہے تھے اُن کو سبق سکھانے کے چکر میں جو ایڈونچر کھیلا اُس نے نواز لیگ کو کافی کمزور کیا-

وہ پہلے جو کام انقلابی، اینٹی اسٹبلشمنٹ کاسٹیوم پہن کر کرتی رہی، اب وہ لو پروفائل درمیانے راستے کی متلاشی بن کر کرنا چاہتی ہے-

پاکستان میں جہاد ازم اور مذھبی دائیں بازو کی سیاست کو مسئلہ مارشل لاء سے نہیں تھا بلکہ نیم دلی ہی میں کیے گئے اُن اقدامات سے تھا جو جنرل مشرف کے دور میں چاہتے نہ چاہتے ہوئے ہوگئے-

پاکستان پیپلزپارٹی کا معاملہ یہ ہے کہ ایک تو وہ جرنیل شاہی کی ماڈیفائی پالیسی کو تیز رفتار زھر کی بجائے سلو پوائزن خیال کرتی ہے، دوسرا وہ میچ فکس کرکے اقتدار لینے اور انتخابات کا ڈھونگ رچانے کے ساتھ اقتدار میں آنے پر یقین نہیں رکھتی… اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ضیاءالحقیت کے کسی بھی چہرے سے مفاہمت نہیں چاہتی چاہے وہ ماڈیفائی ہی کیوں نہ ہو، اُس کی نظر میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں- بے نظیر بھٹو کی 27 دسمبر کی شہادت بھی طاقت کا سرچشمہ کسی فرد واحد یا ادارے کی بجائے عوام کو سمجھنے کا نتیجہ تھی-

About The Author