یہ 14فروری2014ءکی ایک بھیگی شام کا منظر ہے۔ اسلام آباد سے بنکاک کی پرواز کیلئے بورڈنگ کارڈ کاﺅنٹر کھل چکے ہیں،میں بیوی بچوں سمیت جیسے ہی ائیرپورٹ کے اندر داخل ہوتا ہوں، دائیں طرف ایک لمبی سی میز پرمیرے بیگز کھلوائے جا تے ہیں۔میں ائیرپورٹ کے عملے کو غور سے دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ مجھے کہہ رہے ہوں۔ تُوں وت آگیا ہیں ، کھڑ تیڈی اساں خبر گھندے ہیں(تم پھر آگئے ہو، ٹھہرو ہم تمہاری خبر لیتے ہیں)۔
بیگوں کو خوب کھول کر دیکھنے کے بعد اسکین مشین میں ڈالا جاتا ہے اورجب کچھ نہیں مل پاتا تو عملے کاایک بندہ میرے قریب آکر چپکے سے کہتا ہے ۔بھائی جان کوئی چائے پانی ہی دیتے جاﺅ ؟۔ کیا آپ کو تنخواہ نہیں ملتی؟۔ میری بیوی کا جواب سن کر وہ شرمندہ ہوکر پیچھے ہٹ جاتا ہے، اسی اثناءمیں اس کے ساتھ کھڑا آدمی کہتا ہے، اپنی خوشی سے ہی کچھ نہ کچھ دیتے جاﺅ میںجلدی سے بٹوہ کھو ل کر پانچ سو روپے کا نوٹ باہر نکالتا ہوں اور پہلے والے شخص کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہوں۔
پانچ سو کا نوٹ دیکھتے ہی اُن دونوں کے چہرے اتر جاتے ہیں، میں اترے چہروں کی پرواہ کیے بغیر ٹرالی کھینچ کر آگے چل پڑتا ہوں۔لوجی اب ہم کاﺅنٹر پر آن کھڑے ہیں جہاں ہمارے سامان کا وزن کرکے ہمیں بورڈنگ کارڈز ایشو کئے جائیں گے ۔آخری بیگ کا وزن کرنے کے بعد کاﺅنٹر پر بیٹھا شخص چہک اٹھتا ہے ۔آپ کے سارے بیگوں میں پانچ پانچ کلو وزن اضافی ہے۔
وزن کیسے اضافی ہو سکتا ہے ؟میں ساتھ کھڑی اپنی بیگم سے پوچھتا ہوں؟ وہ بھی حیران و پریشان ۔ دوبارہ سے وزن کرکے تصدیق کروائی جاتی ہے ، تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ ایک ٹکٹ پر صرف بیس کلو وزن کی گنجائش ہے۔ میں اپنے ہینڈ کیری سے تھائی آفس سڈنی کاایک کاغذنکال کر اسے دکھاتا ہوں، جس پرفی ٹکٹ پچیس کلو وزن درج ہوتا ہے،مگر کاﺅنٹرپر بیٹھے بندے کی اپنی منطق کہ سڈنی سے آتے وقت آپ پچیس کلو فی ٹکٹ وزن لے کر آ سکتے ہیں مگر پاکستانی ائیرپورٹ سے واپسی پر بیس کلو سے زیادہ لے جانا حرام ہے لہٰذا بیس ہزارروپے اضافی وزن کے ادا کرنا پڑیں گے ۔
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
اسلام آبادائیر پورٹ پر مسافروں کی مدد کیلئے کسی مددگار نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی ۔ توتکا رکے بعدبمشکل پندرہ ہزار روپے دے کراس خبیث سے جان چھڑوائی جاتی ہے۔
ہمارے پاکستانی ائیر پورٹس کا بدتمیز عملہ، کوئی چائے پانی کے بہانے پیسے مانگے، کوئی غیر ملکی پاسپورٹس دیکھ کرڈالروں کا تقاضہ کرے توکوئی کا ¶نٹر پر بیٹھ کراضافی وزن کے نام پر کیش سے اپنی جیبیں بھرے۔لعنت ہو اُن سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں پرجو دنیا بھر کے نکمے ، نااہل، بدتمیز اور رشوت خور افراد کو ایسی سیٹوںپر بٹھاتے ہیں کہ جس سے نہ صرف مسافروں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ الٹا ملک کاامیج بھی خراب ہوتا ہے۔
( سنا ہے کہ پاکستانی ائیرپورٹس پرحالات اب ویسے نہیں رہے، شاید قائداعظم نے چشم دید گواہ کے طور پراعلیٰ حکام کے کان میں سرگوشی کی ہے کہ وطن عزیز کو بدنام کرنے والی کالی بھیڑوں کا قبلہ درست کیا جائے،تو حکام نے تمام ائیرپورٹوں پر جگہ جگہ کیمرے نصب کر دئیے ہیں اور معاملہ اب پہلے جیسا نہیں رہا۔یہ جان کر نہایت خوشی ہوئی کہ اب ہمارے ملک کے باشندے دیارِغیر میںاغےار کے سامنے ان کی باتوں سے شرمندہ نہیں ہونگے بلکہ سینہ تان کر کہیں گے کہ جی ہم ہیں پاکستانی قوم ، کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے)۔
آج میں ہمسایہ ملک ہندوستان کے ائیر پورٹ پر کھڑا ہوں، میرے سامنے سامان کی بیلٹ چل رہی ہے ،مگر کوئی دھکم پیل ،کوئی بارگیننگ نہیںبلکہ بیلٹ کے سامنے کھڑا عملہ سامان اٹھا اٹھا کر مسافروں کی ٹرالیوں میں رکھوا کر مفت میں اُن کی مدد کر رہا ہے۔
ہمسایہ ملک کا مُشرک عملہ چائے پانی کے نام پر اپنے لوگوں کو لوٹنے کی بجائے حلال کمارہا ہے ، ان کا رویہ بھی دوستانہ ہے،شاید یہی وہ اثر تھا کہ جب میں دلی ائیر پورٹ پر رات کے نو بجے اُترا تو مجھے کہیں پر بھی کسی قسم کی اجنبیت کا احساس نہ ہوا۔ میں اپنے جیسی نیلی پیلی، ٹیڑھی ترچھی خلقت کے درمیان فقط اُن دراوڑوں کو کھوجنے آیا تھاکہ جن کا خمیر سندھو ساگر سے اُٹھا تھا اور جو میرے اَجداد کی ریشمی بولی بولتے تھے ،میں اُن کے دکھ سکھ بانٹنے اور ان کی میٹھی بولی سننے کیلئے یہاں تک آیا تھا۔ساما ن ٹرالی میں رکھنے کے بعد اب مجھے انڈین کرنسی کی فکر ہوئی۔
ائیرپورٹ کی خارجی عمارت کے کونے میں واکی ٹاکی پکڑے ایک نوجوان کے پاس جا کر اُس سے کرنسی تبدیل کروانے کا پوچھا تو وہ شریف انسان مجھے عمارت سے باہر بائیں طرف بنے ایک کرنسی ایکسچینج کاﺅنٹرتک لے گیا ۔اس رات ایک آسٹریلین ڈالر کے عوض ساڑھے تریپن روپے ہندوستانی مل رہے تھے ۔پانچ سو ڈالروں کے عوض جب ایکسچینج والے نے ساڑھے چھبیس ہزارروپے میرے ہاتھوں میں تھمائے توان میں سے پانچ سو روپے کا ایک نوٹ نکال کر اس لڑ کے کی طرف بڑھا دیاجو میری مدد کیلئے مجھے کرنسی کاﺅنٹر تک لانے کے بعد ابھی تک میرے ساتھ کھڑا تھا ۔
پانچ سو کانوٹ دیکھتے ہی اس کے چہرے پر ایساخوف طاری ہوا کہ جیسے اس نے اگر یہ رقم پکڑ لی تو اُس کیلئے بہت بڑامسئلہ ہو جائے گا۔سر میں یہ نہیں لے سکتا ۔ رکھ لو یار میری طرف سے دیوالی کاتحفہ سمجھنا ۔میری تسلی کے باوجود وہ ہلکا سا مسکرایا اور بولا ۔ سوری میں اپنی ڈیوٹی پر ہوں ۔ اس کے ساتھ ہی اس نوجوان لڑکے نے پیسے واپس میرے ہاتھ پر رکھے اور واکی ٹاکی سنبھالے ایئرپورٹ کے اندر چل پڑا،جاتے جاتے میں نے اسے پیچھے سے آوازدی۔
دیوالی مبارک ہو بھائی۔ وہ رُکا،پیچھے مڑا، مجھے دیکھ کرہلکا سا مسکرایا اور تھینک یو کہتاائیر پورٹ کی داخلی عمارت میں گم ہو گیا۔ہندوستانی روپوں کو بٹوے میں رکھ کر میں سیدھا سامنے بنے ٹیکسی اسٹیڈ کے کاﺅنٹرپر جا پہنچااورکاﺅنٹر پر بیٹھے لڑکے کو پرنس ہوٹل قرول باغ جانے کیلئے کہا۔ائیرپورٹ کے ٹیکسی اسٹینڈ پر سفید رنگ کی ٹیکسیاں قطاروں میں پہلے سے تیار کھڑی تھیں، جلدی جلدی ایک ٹیکسی میں میرا سامان رکھوایا گیا اور ٹیکسی مجھے بٹھا کرقرول باغ کی طرف بڑھنے لگی۔
دِلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب: ٹیکسی ڈرائیور نسبتاًخاموش طبع نوجوان تھا جوپورے اِنہماک سے ٹیکسی چلا رہا تھا،میں گاڑی کا شیشہ نیچے کئے اردگر دکے ماحول کا جائزہ لینے لگا۔رات کے دھندلکے کی چادر میں لپٹی ہندوستان کی راجدھانی میری آنکھوں کے سامنے تھی۔فلائی اوور کی لپیٹ میں وسیع کشادہ سڑکوں اور بلندو بالا عمارتوں کے ملبے تلے دبی ماضی کی وہی دِلی جو کئی بار لٹی، کئی بار سنوری۔ جسے ہر آنے والے حکمران نے اپنا پایہءتخت بنایا ، جس کی گودمیں اُردو پروان چڑھی،اسداللہ غالب کی دلی۔
قطب مینار ،جامع مسجد اور لال قلعہ کو اپنے سر کا تاج بنائے رضیہ سلطانہ اور ہمایوں جیسے شہنشاہوں کو اپنے اندر سلانے والی دِلی۔ جہاںپہلے پہل شہاب الدین غوری آیا پھر خلجی اور بعد میں تغلق آئے۔جہاں خاندانِ غلاماں کا دور چلا اور اس کے بعد بابرآیا،جس نے پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دی اور مغلیہ سلطنت کی بنیاد وں کو استوارکیا ۔ ہمایوں، اکبر، شاہجہان اور پھراُس کے بعد تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایران و خراسان کی بجائے سمندر پار سے آئے گوروں نے اس چوکھٹ کو پارکیا ۔ دلی نے اپنی بوڑھی آنکھوں سے انگریز شاہی راج کو اپنے باسیوں کے اوپر مستحکم ہوتے دیکھا، انگریز حکمران جاتے جاتے نشانی کے طور پر گیٹ وے آف انڈیا کھڑا کرکے چلتا بنا ۔
پرنس ہوٹل نئی دلی: تقریباً پچیس منٹ کے اندر ٹیکسی بلاک نمبر آٹھ، چنا مارکیٹ، قرول باغ کے علاقے دیونگر میں واقع پرنس ہوٹل کے سامنے پہنچ کر رُک گئی ۔ گاڑی کے شیشے سے ہوٹل کی لابی کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ گاڑی دیکھتے ہی ہوٹل کے استقبالیہ ڈیسک پر بیٹھا ایک نوجوان ہاتھ میں کاغذ کاٹکڑا پکڑے سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا،میںاُ س وقت تک ڈرائیور کو کرایہ ادا کر کے ٹیکسی سے اپنا سامان نکال چکا تھا۔وہ نوجوان میرے قریب آیا اور اپنا تعارف بطور ِ’ ’ پالے رام “ کروانے کے بعد میرا نام دریافت کیا۔ میرے بتائے گئے نام کو کاغذ پر لکھے نام سے تصدیق کرنے کے بعد اُس نے سامان کا بڑا بیگ اٹھایا اور مجھے اپنے ساتھ استقبالیہ ڈیسک تک لے آیا۔استقبالیہ سے چابی اُٹھانے کے بعد پالے رام نے کسی پون نامی لڑکے کو آواز دی۔
آواز سنتے ہی ساتھ والے کمرے سے ایک لڑکا باہر نکلا اور استقبالیہ ڈیسک پر آ ن کھڑا ہوا۔پالے رام نے کمرے کی چابیاں اُس لڑکے کو تھمائیں اور مجھے میرا کمرہ دکھانے کیلئے کہا۔ کچھ ہی لمحوں میںہم دونوں لفٹ کے ذریعے فرسٹ فلور پر دائیں سمت میں بنے ایک کمرے کے سامنے کھڑے تھے ۔
لڑکے نے دروازہ کھول کر لائٹ کاسوئچ آن کیا اورپھرمجھے اندر بلوا لیا ۔ کمرے کے اندر رکھے سنگل بیڈ پر بچھی سفیدچادریں، ٹی وی اور ایک چھوٹی سائز کا فریج نمایاں تھے ۔ائیر کنڈیشنڈ اور وائی فائی کی سہولت لئے یہ تھری اسٹارز قسم کے ہوٹلوں جیسا ایک معقول سا کمرہ تھا۔
یہ بھی پڑھیے: دلی دل والوں کی (قسط3)۔۔۔ غلام عباس سیال
لڑکا سامان رکھنے کے بعدواپس لوٹ گیا۔ بیڈ کے سامنے دھری میز پر اپنا سامان ر کھنے کے بعد سفری دستاویزات کو بیڈ کی دراز میں چھپایا، کپڑے بدلے اور کمرے میں پھیلے حبس کو ختم کرنے کیلئے کھڑکی کھول کر باہر جھانکا ۔ باہر سڑک پر دیوالی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ عمارتوں کے اوپر رنگ برنگے قمقمے او ربتیاں جھلملا رہی تھیں ، ٹھیک تین دن بعد 23اکتوبر کو دیوالی کا تہوار منایا جانا تھا۔ سڈنی سے دوبئی اور دوبئی سے دلی تک، کل ملا کر میں پچھلے بیس گھنٹوں سے مسلسل سفر میں تھا، اسی لیے لمبی تان کر سو گیا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر