جاڑے کی شدت میں اضافے کے ساتھ دھند ہی دھند ہے چار اور’ دو تین دن اس جاڑے اور دھند کا سامنا کرتے بیت گئے۔ ہم ملتانیوں کو سردی بہت لگتی ہے۔ ملتانیوں کے بارے میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ
” ایک ملتانی کو حساب کتاب کے بعد اللہ کریم نے دوزخ کی سزا سنا دی’ فرشتے اسے پکڑ کر دوزخ کی سمت لے جا رہے تھے اور وہ ہر قدم پر پلٹ پلٹ کر رب العالمین کے نور کی سمت دیکھتا۔
ارشاد ہوا اسے واپس لاو’ فرشتے اس ملتانی کو دوبارہ دربار الٰہی میں لائے’
آواز سنائی دی’ یہ تم پلٹ پلٹ کر کیا دیکھتے تھے؟۔
ملتانی عرض گزار ہوا’ اے مالک ارض و سماں! آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں ملتان سے آیا ہوں اور وہاں کی گرمی بہت مشہور ہے’ بس اب آپ نے دوزخ کی سزا سنا دی یہ میرے کرموں کا پھل ہے۔
ایک عنایت اس دھتکارے ہوئے بندے پر فرما دیجئے’
ارشاد ہوا مانگوکیا مانگتے ہو’
ملتانی نے کہا اللہ سائیں ہوسکے تو (تھی سگے تاں ہک سوئڑ تے ڈو کمبل ڈے چا ) ایک رضائی یا پھر دو کمبل عطا کر دیں ممکن ہے دوزخ میں سردی ہو۔
رحمت جوش میں آئی اور دھتکارے ہوئے ملتانی کو بخش دیا۔ ”
اب اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ سارے ملتانی بخشش کے لئے یہی طریقہ اپنا لیں۔
ملتان سے یاد آیا کل 21دسمبر کا دن ملتانیوں کی تاریخ کے قدیم دو سیاہ دنوں جیسا ایک دن تھا’ تیسرا سیاہ دن’
سات ہزار سال کی دستیاب تاریخ میں ملتان اور ملتانیوں نے اونچ نیچ’ مسائل ومصائب’ مفتوح ہونے اور پھر میدان جنگ میں دلبرانا انداز میں لڑتے بھڑتے تاریخ رقم کرنے میں بیتائے۔
اس ملتان کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اس خطے کا پہلا توحید پرست حکمران راجہ پرہلاد خالص و نجیب الطرفین ملتانی تھا۔
خیر ملتانیوں کی تاریخ کا پہلا سیاہ دن وہ تھا جب محمود غزنوی نے ملتان پرحملہ کیا
ملتانیوں کا خوب قتل عام ہوا’ شہر جلایاگیا اور پھر محمود غزنوی تیس ہزار عورتوں’ بچوں اور نوجوانوں کو غلام بنا کرہمراہ لے گیا۔
غزنی میں اس چوک کا نام ملتانی چوک پڑ گیا جہاں لگ بھگ تین سال یہ ملتانی غلام فروخت ہوتے رہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ حملہ آور محمود غزنوی اور مفتوح ملتانی دونوں کلمہ گو تھے مگروہ جو کہتے ہیں کہ طاقت اور فتوحات کا کوئی مذہب و عقیدہ نہیں ہوتا وہی سچ ہے۔
ملتانی تاریخ نویس جب بھی ملتان کی سات ہزار سالہ تاریخ لکھنے جوڑنے بیٹھے ہیں ایک سوال بھوکی ڈائن کی طرح منہ پھیلائے ان کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ آخر محمود غزنوی جیسے "بت شکن” نے ملتان پرحملہ کیوں کیا؟
جواب بہت سادہ ہے اس وقت جنگیں اور فتوحات کماو انڈسٹری تھی’ انہی کی کمائی سے نظام ہائے سلطنت چلتے تھے۔
ملتانیوں کی تاریخ کا دوسرا سیاہ دن 1990ء کی دہائی میں آیا
جب بھارت میں اجودھیا کے مقام پر ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا۔
پاکستان بھر میں مسلمان جذباتی ہو کر پرانے مندروں’
گئو شالوں وغیرہ پر چڑھ دوڑے۔
ملتان میں جذباتی مسلمانوں نے راجہ پرہلاد کے دانش کدہ کو جو اپنی طرز تعمیر کی وجہ سے تقسیم ہند کے بعد سے پرہلاد مندر کہلاتا تھا زمین بوس کردیا۔
سات ہزار سال قبل توحید پرست حکمران راجہ پرہلاد نے جب توحید پرستوں کایہ دانش کدہ تعمیر کروایا توہند’ سندھ اور ملتان میں معروف طرز تعمیر یہی تھا۔
ملتانی کئی ہزاریوں سے اس عمارت کو پرہلاد کادانش کدہ کہتے تھے
لیکن 1947ء میں تقسیم ہوئے ہندوستان میں اور بہت کچھ تقسیم کرنے کے ساتھ شناختیں بھی بدل دیں
اب قدیم مقامی طرز تعمیر غیر مسلم شناخت کی حامل ٹھہری اور مغل طرز تعمیر مسلمان۔
یوں پر ہلاد کادانش کدہ بھی غیر مسلم قرار پایا محض اپنی مقامی طرز تعمیر کی وجہ سے۔
جس دن ملتان کی سات ہزار سالہ شناخت کو اہل ایمان مسمار کر رہے تھے تب ملتانی دانش کے ایک روشن چہرے ملک عطاء اللہ موقع کے قریب موجود تھے
انہوں نے آسمان کی طرف نگاہیں جما کر کہا’
"میرے مالک گواہ رہنا توحید پرست پرہلاد کا دانش کدہ مسمار کرنے والوں میں ایک بھی نجیب الطرفین ملتانی شامل نہیں یہ سارے لوگ بٹوارے کی نفرتیں لئے اس شہر میں آن آباد ہوئے تھے”۔
ملک صاحب نے جب بربادی کی یہ کہانی اپنے ہم مزاج دوست فقیر راحموں کو سنائی تو اس نے کہا
” اصل سے کٹنے کا نقصان یہی ہوتا ہے کہ دوسروں کا”اصل” ایک آنکھ نہیں بھاتا”
ملتانیوں کا تیسرا سیاہ دن 21دسمبر شمار ہوگا۔
پرہلاد’ شاہ شمس’ شاہ رکن عالم’ بہاو الدین زکریا ملتانی اور موسی پاک شہید کے ملتان میں ایک بے گناہ صائب الرائے نوجوان جنید حفیظ تنگ نظری تعصب اور فسطانیت کے مقابلے میں شکست کھا گیا۔
موسیٰ پاک شہید سے یاد آیا ملتان کے یہ شہید فرزند ہیں ‘ مغل دور میں ملتان کے گورنر ہوا کرتے تھے’
تب ملتان کی گورنری حدود اتنی وسیع تھی کہ حضرت سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش نے لکھا
” لاہور یک از مضافات ملتان است”
خیر یہ ہمارا موضوع نہیں’
موسیٰ پاک شہید ‘شہید سرمد کے تین دوستوں میں سے ایک تھے۔ اس وقت کے متحدہ ہندوستان میں سرمد’ موسیٰ پاک’ حضرت میاں میر( آپ کی خانقاہ لاہور میں ہے) اور شہزادہ داراشکوہ یہ چار دوست اپنے علم و فضل بہادری اور انسان دوستی کے حوالے سے بہت معروف تھے۔
انسانیت کی بلا امتیاز خدمت اور علم دوستی میں معروف یہ روشن کردار متحدہ ہندوستان کی تاریخ کے روشن چہرے ہیں چار میں سے ایک موسی پاک کا تعلق ملتان سے ہے
ملتان ہمیشہ سے انسان دوستی علم پروری کامرکز رہا اسی انسان دوستی و علم پروری کی تاریخ میں ایک دن حضرت بہائو الدین زکریا ملتانی سے ان کے مریدوں نے کہا
” حضرت خانقاہ کی جگہ کم پڑ رہی ہے آپ حکم کریں تو پرہلاد کی یادگار عمارت کو گرا کر خانقاہ میں شامل کرلیں”۔
جناب بہاوالدین زکریا ملتانی بولے
”تاریخ کی زندہ نشانیوں سے اگلی نسلیں ماضی سے متعارف ہوتی ہیں”۔
مریدین نے حضرت کی منشا جان لی
مگر بابری مسجد کے سانحہ نے اس سات ہزار سالہ تاریخ کی روشن نشانی کو مسمار کروا دیا۔
فقیر راحموں کہتے ہیں صدیوں سے ہماری عادت بن چکی ہے ” ہم سورج کو پھانسی دیتے اور چاندنی کو سڑک پر مار دیتے ہیں”۔
کڑوا سچ ویسے یہی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر