پاکستان اگرچہ سعودی عرب کے دباؤ میں ملائشیا میں ہونے والے بین الاقوامی سمٹ میں شرکت نہیں کررہا لیکن یہ ایک اعتبار سے اچھا ہی ہے کیونکہ ملائشیا، ترکی، ایران اور قطر کی کوششوں سے جو سمٹ ہورہا ہے اُس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ مذکورہ بالا ممالک کی جانب سے دنیا بھر میں رائٹ ونگ پولیٹکل اسلام پسند تحریکوں کی سرپرستی کے نام پر ایک نیا بلاک تشکیل دینے کی کوشش ہے- اس سمٹ کا ایک مقصد مڈل ایسٹ، جنوبی ایشیا، افریقہ سمیت جو نام نہاد جہادی تحریکیں جن پر زیادہ تر اخوان المسلمین اور ولایت فقیہ وغیرہ کے اثرات ہیں کو سرپرستی میں لینا ہے- اور پھر اس سمٹ کا مقصد خاص طور پر ملائشیا، ترکی اور ایران کو اپنے خطوں میں جو درپیش چیلنجز ہیں اُن سے نبرد آزما ہونا بھی ہے-
ترک صدر اردوغان جہاں ایک طرف اپنے علاقے میں کردوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں تو دوسری جانب وہ یونانی قبرص کے خلاف بھی جارحانہ رویہ رکھے ہوئے ہیں-
وہ اپنے مُلک میں اپوزیشن جماعتوں کو مذھب کا نام لیکر جبر کا نشانہ بنارہے ہیں اور اُن میں ایک فسطائی حکمرانی کے پورے جراثیم موجود ہیں- وہ داعش کی تشکیل میں سب سے آگے تھے-
ملائشیا کا اپنے مُلک میں نہ صرف غیر مسلم اقلیتوں کے باب میں ریکارڈ انتہائی خراب ہے بلکہ اس ملک میں شیعہ مسلمان بدترین پابندیوں کا شکار ہیں اور صوفی اسلام کو بھی مسلسل دھمکیوں اور پابندیوں کا سامنا ہے- بھارت سے فرار ہوکر جانے والا ڈاکٹر زاکر نائیک وہاں پر بیٹھا ہوا ہے- ملائشیا، ترکی کی سرپرستی میں چین میں ایغور مسئلے کو لیکر عالمی جہادی تحریکوں کو عالمی جہاد کی طرف مبذول کیا جاسکتا ہے یہ خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے-
اگرچہ پاکستانی حکومت نے کوالالمپور انٹرنیشنل سمٹ میں نہ جانے کا فیصلہ سعودی عرب کے کہنے پر کیا ہے لیکن میرے خیال میں یہ فیصلہ درست ہے-
سعودی عرب مڈل ایسٹ میں اخوان المسلمون سمیت جتنی بھی سیاسی اسلام پسند وھابی طرز کی پین اسلامی تنظیمیں اُن کی حمایت سے دست بردار ہوچُکا ہے اور اُس نے فلسطین-اسرائیل تنازعے میں بھی ‘ دو ریاست’ حل کو اختیار کیا ہے- اس کے ساتھ ساتھ اُس کے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم ہوچکے ہیں- دلچسپ بات یہ ہے کہ کوالالمپور سمٹ کے اہم ترین ممالک میں ترکی وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا اور اب تک دونوں ممالک کے سفارت خانے کام کررہے ہیں، جبکہ قطر 1990 سے 2000 تک اسرائیل سے اقتصادی تعلقات بنائے رکھے-
اس سمٹ میں مڈل ایسٹ سے شام بھی شرکت نہیں کررہا اور نہ ہی عمان شریک ہورہا ہے جبکہ افریقی ممالک کی حکومتیں بھی شرکت نہیں کررہیں-
پاکستان اس سمٹ میں شریک نہ ہوکر ایک طرح سے جہاں سعودی دباؤ سے نکلے گا وہیں چینی دباؤ سے بھی نکلے گا جو اس سمٹ کے ایجنڈے میں ایغور ایشو کو ہائی لائٹ کرنے پر ناراض ہے-
اس سمٹ میں امریکی بدنام سرمایہ کار جارج سورس کی فاؤنڈیشن کی درپردہ سرمایہ کاری کا بھی زکر کیا جارہا ہے- اور کہا جارہا ہے-
قطر جو اس سمٹ کا اہم ترین کردار بھی ہے اس کے ملک میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی آئر بیس موجود ہے اور وہ امریکی مفادات کا باج گزار بھی ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ اخوان، حماس سمیت اسلامی جہادی تنظیموں کا سب سے بڑا مالیاتی مددگار بھی ہے اور ان تنظیموں نے مسلم معاشروں میں روایتی اسلام اور تکثریتی کلچر کے خلاف بہت ہی منفی کردار ادا کیا ہے- پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں جماعت اسلامی بھی نظریاتی اعتبار سے اخوان کی بہن ہے جو اس سمٹ میں اپنا وفد بھیج رہی ہے-
ماضی میں یہ سب ممالک او آئی سی میں رہ کر امریکی سرمایہ دار بلاک کے دُم چھلا بنے رہے اور مسلم ممالک میں چلنے والی جمہوری بائیں بازو کی عوامی تحریکوں کو کچلنے اور آمریتوں کا ساتھ دینے میں مصروف رہے- آج بھی یہ عوامی تحریکوں کے دوسری طرف کھڑے ہیں – اخوان المسلمون نے یمن میں انصار الاسلام کا ساتھ نہیں دیا اور ایسے ہی اس نے عراق، شام میں بھی غیرملکی مداخلت کی مخالفت نہیں کی- اخوان المسلمون نے آج تک اسامہ بن لادن کی مذمت نہیں کی-
پاکستان کی حکومت اگرچہ سعودی عرب کے آگے اپنے جی حضوری کردار کے سبب اس سمٹ میں نہیں جارہی لیکن یہ اقدام درست ہے-
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر