مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"مودی کے ہندوتوا کیخلاف نئی نسل کا ولولہ انگیز احتجاج”۔۔۔ حیدر جاوید سید

بھارت میں شروع ہوئی حالیہ تحریک میں اب تک 6افراد مودی سرکار کے سیکولر دشمن قوانین کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے قربان ہوئے

بھارت میں متنازعہ شہری قوانین کی منظوری کے بعد ملک بھر میں اُبھرنے والے احتجاجی تحریک کا روشن پہلو یہ ہے کہ تحریک کی قیادت کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء کے ہاتھ میں ہے، دوسری اہم بات یہ ہے کہ قانون سے صرف مسلمان متاثر ہوتے ہیں مگر احتجاجی تحریک میں ہندووں کی مختلف ذاتوں کے علاوہ اور سکھ طلباء وطالبات پیش پیش ہیں،
اُردو درست تلفظ کیساتھ نہ بول سکنے والے دیسی بدو جو سیکولرازم کو لادینیت قرار دیتے نہیں تھکتے پاکستان میں طلباء یونینز کی بحالی کیلئے حالیہ جلسوں جلوسوں کے بعد ادھم مچائے ہوئے ہیں کہ،
"یہ لال لال لہرائے گا کا نعرہ ہماری اقدار،ثقافت اور اساسی نظریہ پر حملہ ہے”۔
ایک طبقے کی رائے یہ بھی تھی بلکہ ہمیشہ سے ہے کہ طلباء کا کام تعلیمی اداروں میں صرف پڑھنا ہے۔
سماج کو لاحق خطرات اور سیاسی معاملات سے انہیں دور رہنا چاہئے
مجھ طالب علم کے خیال میں ہر دوسوچوں کے حاملین اصل میں اس ریاستی بیانئے کے اسیر ہیں جو قومی شناختوں پر فخر کی یکتائی کو ریاستی اشرافیہ کی بالادستی کیلئے خطرہ قرار دیتا ہے۔
طلباء یونینز کی بحالی کے مخالفین ماضی کے چند واقعات کیساتھ اسلام آباد کے ایک حالیہ افسوسناک واقع کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔
کاش کبھی انہوں نے ان افسوسناک واقعات کا پس منظر، سازش اور تعلیم دشمن کرداروں بارے چھان بین کی زحمت بھی کی ہوتی۔
ضمناً عرض کرتا ہوں اسلام آباد میں چند دن قبل قتل ہونیوالے ایک طالب علم کے والد بزرگوار کا ایک بیان سوشل میڈیا پر دھڑا دھڑ "بک” رہا ہے کہ
”میرا بیٹا لادینت کیخلاف جہاد میں شہید ہوا”
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مقتول طالب علم کے والد کے پاس سمارٹ فون ہے نہ سوشل میڈیا پر ان کا کوئی اکاونٹ، یہ جعلسازی وہ کر رہے ہیں جو اپنے تئیں خود ساختہ نظریاتی فضاؤں کے محافظ ہیں۔
ہم اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں،
بھارت میں شروع ہوئی حالیہ تحریک میں اب تک 6افراد مودی سرکار کے سیکولر دشمن قوانین کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے قربان ہوئے۔
6میں سے پانچ کا تعلق تعلیمی اداروں سے ہے۔
یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جسے ہمارے یہاں کے دیسی بدو اور ”انجمن صاحبان حب البرتنی” بھی ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہیں۔
انہیں معلوم ہے کہ اگر تعلیمی اداروں میں طلباء یونینز ہوں گی تو ریاستی بیانیہ ہی نہیں بلکہ وہ خودساختہ نظریات بھی فروخت نہیں ہوں گے کہ جو اس کثیر القومی ملک میں درحقیقت قوموں کی قدیم تاریخی شناخت پر حملہ ہیں۔

سو ہمیں ٹھنڈے دل کیساتھ اس امر پر غور کرنا ہوگا کہ رائے دہندگان کی اکثریت کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والی مودی سرکار کو بھارت کی نئی نسل سے مزاحمت کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
دو وجوہات بہت صاف اور سیدھی ہیں
اولاً بھارتی آئین کا سیکولر ہونا
اور ثانیاً تعلیمی اداروں میں طلباء یونینز کی موجودگی۔
یہ بھارتی تعلیمی اداروں کی طلباء یونینز ہی تھیں جنہوں نے 5اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کیخلاف احتجاج کیا تھا۔
آج بھی طلباء یونینز ہی ہیں جو متنازعہ شہریت کے قوانین کیخلاف احتجاج کا ہر اول دستہ ہیں۔
دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، سنٹرل یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سمیت درجنوں تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کو جبراً خالی کروا لیا گیا۔
ہاسٹلز سے طلباء وطالبات کو بے دخل کرنے کیلئے پولیس نے سیکورٹی فورسز کے دوسرے اداروں کیساتھ ملکر جو آپریشن کیا اُس نے مودی سرکار کو بھرے چوک میں ننگا کر دیا ہے۔
درجنوں طلباء وطالبات ان آپریشنوں میں زخمی ہوئے، درجنوں کے ہاتھ اور ٹانگیں ٹوٹیں۔
سوال یہ ہے کہ ان طلباء وطالبات کو جن میں اکثریت ہندووں کی ہے شہریت کے حالیہ متنازعہ قانون سے کیا خطرہ ہے؟
سادہ سا جواب یہ ہے کہ یونیورسٹیوں اورکالجوں کے یہ طلباء شعوری طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ شہریت کا نیا قانون سیکولر بھارت پر حملہ ہے اور اگلے مرحلہ میں ہندوتوا برہمن توا کا روپ دھارے گا تو اس وقت نچلی ذاتوں کے ہندئوں کو مسلمانوں سے بھی بد تر حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مستقبل کے ادراک کا یہ شعور انہیں تعلیمی اداروں میں طلباء یونینز کی سرگرمیوں کی وجہ سے ملا،
ورنہ وہ بھی ریاستی بیانیہ چبانے والے دولے شاہ کے چوہوں جیسے ہی ہوتے۔
طلباء یونینز کی غیرنصابی سرگرمیوں سے حاصل ہونیوالے شعور نے بھارتی طلباء وطالبات کو اپنے ہم وطن مسلمانوں سے یکجہتی کیلئے میدان میں عمل میں اُتارا۔
پچھلے چند دنوں کے دوران ان طلباء نے جس استقامت کیساتھ مودی سامراج کے ظلم وستم کا سامنا کیا وہ سیکولر بھارت سے ان کی لازوال محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
دیسی بدو متنازعہ قوانین کی منظوری کے بعد جو بھاشن دے رہے تھے اور جس طرح تحریک آزادی ہند کے بعض بھارتی رہنمائوں کے چہروں پر کالک ملنے میں مصروف تھے بھارت کے سیکولر طلباء وطالبات اور عوام کے مختلف طبقوں نے اپنی پرعزم جدوجہد اور قربانی سے ان کے پروپیگنڈے کے غبارے سے ہی ہوا نہیں نکالی بلکہ تعلیمی اداروں میں طلباء یونینز کے حقیقی کردار سے بھی روشناس کروا دیا ہے۔
ایک ایسا متنازعہ قانون جس نے لمحہ بھر میں ان کے60لاکھ مسلمان ہم وطنوں کو اپنے ہی وطن میں اجنبی بنا دیا اس کیخلاف بھارت کی نئی نسل کا قابل فخر احتجاج بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کے حکمران طبقات ہندوتوا کے تاجروں اور عوام کے درمیان فکرو فہم کے اختلافات کتنے گہرے ہیں۔
پچھلے چند دنوں کے دوران ایک حیران کن بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ دہلی کی متعدد جامعات کے ہاسٹلز سے نکالے گئے طلباء کی اکثریت کو ان کے مقامی ہم مکتبوں نے اپنے گھروں پر ٹھہرا لیا تاکہ احتجاجی تحریک ماند نہ پڑنے پائے۔
اتوار کو بھارتی پولیس اور سیکورٹی فورسز نے دہلی کے ایک علاقے میں ایک ایسے گھر پر ریڈ کیا جس میں سات ہندو مسلم طلباء اپنے ہم مکتب کی دعوت پر مقیم تھے۔

پولیس نے کارروائی کے وقت میزبان طالب علم پر جب تشدد کیا تو اس کی مہمان مسلم طالبات اسے بچانے کیلئے سینہ سپر ہوگئیں۔
بھارت کی نئی نسل کا یہ روشن کردار خطے کے عوام کو یقین دلاتا ہے کہ مودی کا ہندو توا مستقبل میں برہمن توا نہیں بننے پائے گا بلکہ سیکورلرازم ہی بھارتی سماج اور ریاست کی اساس رہے گا۔

%d bloggers like this: