دوبئی ایئرپورٹ پر آمد: ساڑھے چودہ گھنٹوں کے طویل اور صبر آزماسفر کے بعد اعلان ہوا کہ اب ہم دوبئی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اُترنے والے ہیں۔ یہاں پر کوئی دو گھنٹہ ٹر انزٹ قیام کے بعد ایمرٹس کی اگلی فلائیٹ سے دِلی روانہ ہونا تھا۔ دوبئی واقعی دوبئی ہے ۔
مجھے ائیرو ایشیاءکی اگست 2000 ءکی وہ فلائیٹ ابھی تک یاد ہے جب زندگی میں پہلی بار اماراتی سرزمین پر قدم رکھنے کا موقع ملا تھا اور اپنی جدوجہد کے پہلے پانچ سال یہیں پر گزارے تھے۔ 2005 ءمیں دوبئی کو خیر باد کہنے کے پورے نو سال بعد میں اس سرزمین پر دوبارہ قدم رکھ رہا تھا۔
دوبئی واقعی ان گنت خصوصیات کا حامل شہر ہے ،یہاں کے لگژری شاپنگ سینٹرز،رات کو دوبئی کریک کا خوبصورت منظر، پام جمیر ہ کے ساحل سمندر کی سلگتی ریت کے کنارے کھڑا برج العرب،شیخ زید روڈ پر بنی بلند وبالا عمارتیں اور ان عمارتوں کے بیچ سر اوپر نکالے کھڑا برج خلیفہ۔ان سب نے مل کر دوبئی کو پور ی دنیا میں ممتاز بنا رکھاہے۔
شیخ محمد جیسے جدت پسند حاکم کے اقتدار میں آتے ہی اس ریتلے خطے کی تقدیر بدل چکی ہے ۔ کہاں70ءکی دھائی کی تپتی ریت پر شیخ محمد کے آباﺅاجداد کے گدھے خچر اورکہاں جدید دوبئی کے سینے پرپنجہ گاڑے کھڑی فلک بوس عمارتیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں تیزی ، مستعدی، ترقی اور عظمت، اس چھوٹے سے شہر نے صرف چار دہائیوں میں ایسی برق رفتار ترقی کی ہے کہ دنیا اس کے سامنے ہیچ نظرآتی ہے ۔
دوبئی کا انٹر نیشنل ایئر پورٹ دوپہر کے وقت بھی مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا،خصوصاً ٹرانزٹ لاﺅنج میں کافی گہما گہمی تھی اور مسافروں کا ہجوم ہاتھوں میں بورڈنگ کارڈ تھامے بے تابی سے جہاز کی روانگی کا منتظر تھا۔ بھانت بھانت کے لوگ اپنی وضع قطع کے ملبوسات زیب تن کیے بیٹھے تھے،جن میں سے کچھ سیر سپاٹوں کی غرض سے آئے غیر ملکی سیاح ، جبکہ باقی ماندہ نوکری پیشہ افراد تھے ۔میں نے اپنے اندازے ،تجربے اور اردگرد بیٹھے افراد کی باڈی لینگویج کو جانچتے ہوئے انہیں دو گروپوں میں تقسیم کر لیا ۔
میرے اندازے کے مطابق اکثریتی مسافر یہاں کے نوکری پیشہ افراد تھے جو دِیوالی کی چھٹیوں پر ہندوستان جانے کیلئے بیتاب بیٹھے تھے، خوشیاں ان کے چہروں سے پھوٹ رہی تھیں جبکہ دوسراحصہ آسٹریلیا، کینیڈا ،امریکہ اوریورپ سے آئے مسافروں کا تھا ،جو ایک طویل سفر کاٹنے کے بعد اگلی فلائٹ کے انتظار میں بیٹھے تھے ۔
شیشے کی شفاف دیوار کے پار ایمرٹس ایئرلائنز کا بوئنگ 777 تیار کھڑا تھا،کچھ مسافر اس دیوہیکل طیارے کو بڑے انہماک کے ساتھ اپنے بچوں کودکھا رہے تھے ۔
دوبئی ایئر پور ٹ پربوریت کے لمحات کو سوشل بنانے کی غرض سے وہاں کی انتظامیہ نے ائیرپورٹ پر مفت وائی فائی انٹرنیٹ کی سہولت بہم پہنچا کر مسافروں کو پوری طرح اپنے قابو میں کر رکھا ہے۔ لاﺅنج کے ایک کونے میں بیٹھ کر فری وائی فائی سے جڑ تے ہی سب سے پہلے گھر والوں کو اپنی خیریت کی اطلاع دی۔اُس وقت اماراتی وقت کے مطابق دوپہر کے ڈیرھ بجے تھے جبکہ سڈنی میںرات کے ساڑھے سات کا وقت ہو چلا تھاا ور وہاں کب کا سورج غروب ہو چکا تھا ۔
قدرت کے رنگ واقعی نرالے ہیں ،کہیں طلوع آفتاب تو کہیں غروب۔ کہیں چاند، کہیں سورج، کہیں سردی ، کہیں گرمی۔ کیسا عجیب تجربہ تھا کہ ناشتہ سڈنی میں ، لنچ دوبئی میں اورشام کا کھانا دلی میں ملنے کی توقع تھی، گویا موجودہ دور کا ترقی یافتہ انسان واقعی چاند سورج کو کب کا پیچھے چھوڑ چکا ۔
دلی کی فلائیٹ اناﺅنس ہوتے ہی مطلوبہ مسافر جہاز کی طرف چل پڑے۔میرے اردگرد ہندوستانی تھے،شاید سارا ہندوستان دلی جا رہا تھا۔ داخلی دروازے پر کھڑی فضائی میزبان سراپا متبسم بنی مسافروں کو مسلسل نمستے کہے جا رہی تھی جبکہ اس کی دائیں جانب تیکھے نقوش لیے کھڑ ی فضائی دوشیزہ مسافروں کے بورڈنگ کارڈ زچیک کرنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ کے اشارے سے انہیں اپنی اپنی مخصوص نشستوں کی طرف بھیج رہی تھی ۔
جہاز کے اندر قدم رکھتے ہی میں اپنی مطلوبہ سیٹ کی طرف چل پڑا۔ سیٹ کے سامنے کھڑا اپنا دستی بیگ پکڑے ابھی میںاپنے خیالوں میں گم تھا کہ دور سے آتی ایک فضائی میزبان نے بیگ میرے ہاتھوں سے لے کر اوپری خانے میں ٹھونسا اور ہلکی سی مسکان بکھیرتی آگے بڑھ گئی۔
ہر نشست کے آگے کی جانب کچھ معلوماتی میگزین ٹھنسے پڑے تھے ۔وقت گزاری کے لیے ایک رنگین رسالہ میرے ہاتھ لگا۔ رسالے میں فائیو اسٹارزہوٹلز ،ریسٹورنٹس، ایمرٹس ائیرلائنز کے رُوٹس،آمدورفت کے وسائل اور سروس کے متعلق معلومات درج تھیں جبکہ دوسرا میگزین مختلف ڈیوٹی فری اشیاء(پوئزن،سی کے،ایٹرنٹی،اوپیم جیسے مہنگے پرفیوموز ،وائٹ ڈائمنڈ ، بیش قیمت گھڑیوں اورجیولری ) سے بھرا پڑا تھا۔
زنانہ،مردانہ خوشبوﺅں کے ساتھ ساتھ رسالے میں باقی ماندہ ڈیوٹی فری اشیاءکے ڈالروں میں لکھے ہوشربا دام پڑھ کر میں سوچنے لگا کہ انہیں آخر کون خریدتا ہو گا؟ ہمارے جیسے دیسوں کا بزنس مین طبقہ یا پھر بالی وڈ کے کروڑ پتی فلمی ستارے ۔ رن وے پر دوڑتے طیارے نے جیسے ہی اپنے پر پھیلاکر ہوا سے سرگوشیاں شروع کیں توکھڑکی کے قریب بیٹھے مسافروں نے دوبئی کو الوداع کہنا شروع کر دیا۔
ساتھ والی سیٹ پر کھڑکی کی جانب بیٹھے راجیش نامی انڈین لڑکے سے پہلی باررسمی گفتگو ہوئی جو دوبئی کی کسی پرائیویٹ کمپنی میں اکاﺅنٹنٹ تھا اوردیوالی منانے کی غرض سے دِلّی جا رہا تھا۔ جہاز نے تھوڑی سی بلندی پر پہنچ کر ایک لمبا چکر کاٹا اورپرواز ایک معقول بلندی اور خاص زاویے پر پہنچتے ہی ایئرلائن کا عملہ حرکت میں آ گیا۔
پہلے پہل ٹھنڈے پانی اور جوس سے تواضع کی جانے لگی۔ ساتھ ساتھ طیارے میں مختلف نوعیت کے معلوماتی اعلانات ہو نے لگے مثلاًابھی ہم تیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں مسافروں کو ڈنر پیش کرد یاجائے گا۔دِلی کا ہوائی سفر کوئی تین گھنٹے پر مشتمل تھا ۔
اعلان کے کچھ ہی دیر بعدایئر ہوسٹسز خراماں خراماں سب مسافروں میں کھانا بانٹنے لگیں۔ اُبلی سبزیاں، چاول ،مچھلی اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ کھانے سے فارغ ہو تے ہی فوراًچائے پیش کر دی گئی ۔سڈنی سے دوبئی تک کے طویل سفر اور بے آرامی نے مجھے واقعی تھکادیاتھاچنانچہ چائے پیتے ہی اپنی نشست پرسر ٹکا یا اور حسبِ عادت پورے سفر میں مکمل نیند کا بھرپور لطف اٹھایا۔
میری پرسکون نیند میں خلل اس وقت پڑاجب راجیش نے فضائی میزبان کو بلا کر سر درد کی گولی لانے کی استدعا کی۔ جہاز کی لائٹیں آف تھیں اور اردگرد کے مسافر بڑے اطمینان اور سکون سے گردن لٹکائے دنیا و مافیا سے بے خبر اونگھ رہے تھے۔ اونگھنے والوں میں ایک موٹا تازہ ہندوستانی اپنا سر کسی دوسرے مسافر کے کندھے کے ساتھ ٹکائے مسلسل خراٹے پر خراٹے لیے جا رہا تھا ۔کچھ ڈھیٹ مسافروں کو محو خواب دیکھ کر میرے اوپر دوبارہ غنودگی طاری ہو گئی اور ایک بھرپور نیند لینے کے بعد جب آنکھ کھول کر دیکھا تو فضائی میزبان چمٹے کی مدد سے بھاپ اڑاتے گرم تولیے مسافروں میں تقسیم کررہی تھیں ۔
ٹی وی اسکرین پر چلنے والا فلائیٹ پروگرام مخالف سمت سے چلنے والی ہوا کاپریشر ، جہاز کی اسپیڈ اور بلندی دکھانے کے ساتھ ساتھ منزل مقصود کے قریب تر پہنچنے کی نشاندہی کر رہا تھا۔فضائی میزبانوں نے ہلکے پھلکے ملبوس زیب تن کر لیے تھے۔ آخری بار سب کو مشروب پیش کیا گیا۔
ہنی کین بئیر کے ٹھنڈے ٹن کو راجیش نے للچائی نظروں سے دیکھا اور جھٹ سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو ڈالے جبکہ ہم جیسے لوگ جو بلندی پر اڑتے ہوئے خدا سے نسبتاً زیادہ قریب ہوچکے تھے مجبوراً کوک پر ہی اکتفا ءکرنا پڑا۔مشروبات سے فرحت بخش تسکین دلانے کے بعد عربی اور انگریزی میں مسافروں سے گزارش کی گئی کہ وہ اپنی پٹیاںدوبارہ کس لیں کیونکہ چند ہی منٹوں میں ہم دِلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ہوائی اڈے پر اترنے والے ہیں۔
اعلان سماعت ہوتے ہی تمام مسافروں میں ایک ہلچل سی مچ گئی اور وہ سب اس ہدایت پر عمل کرنے لگے ۔ سامنے والی سیٹ پرخراٹے لیتے شخص کو اس کے ساتھی مسافر نے تقریباً جھنجھوڑ تے ہوئے کہا:” اٹھ کر اپنا حلیہ درست کر لیجئے، دِلی آگئی ہے “
اب ہوائی جہاز نے آہستگی سے ایک مخصوص زاویے اور رِدھم کے ساتھ بلندی سے نیچے کی طرف جھکنا شروع کر دیا۔راجیش نے کھڑکی کے سامنے سے اپنے سر کو پیچھے کر کے مجھے باہر دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ بلندی پر ٹمٹماتی روشنیوں میں لپٹے مکانات ایک ترتیب میں دکھائی دے رہے تھے۔مزید نیچے آنے پر منظر زیادہ واضح دکھائی دینے لگاتھا ۔ساری نشستوں کے مسافر کھڑکیوں سے باہر نیچے کی جانب جھانک رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: پیش لفظ :دلی دل والوں کی۔۔۔ علی مزمل
اندرا گاندھی ائیر پورٹ دِلّی: ہوائی جہازسے باہر نکلتے ہی سارے مسافربین الاقوامی آمدکے نشان کی طرف بڑھنے لگے۔مجھے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ ائیر پورٹ کے اندر موٹی موٹی ہدایات انگریزی میں لکھی ہوئی تھیں جبکہ باقی ماندہ جگہوں پر ہندی کا چرچاتھا۔ دِلی کا اندرا گاندھی ایئر پورٹ اپنی وضع قطع، انتظامی امور اور جدید سہولیات کے سبب صحیح معنوں میں ایک بین الاقوامی ایئر پورٹ لگا۔
یہ بھی پڑھیں:دِلّی دِل والوں کی(قسط 1)۔۔۔ غلام عباس سیال
دوبئی سے دِلی کی پرواز میں ساتھ بیٹھے راجیش نے سچ کہا تھا کہ دِلی ائیر پورٹ دوبئی کے مقابلے کا سمجھو ۔ سڈنی میں انڈین قونصلیٹ کی عمارت کی طرح دلی ائیر پورٹ بھی ماڈرن ٹیکنالوجی کا شاہکار تھاخصوصاً مسافروں کیلئے فری وائی فائی کی سہولت نے وہاں کافی آسانیاں پیدا کر دی تھیں ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر