مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے۔۔۔ وجاہت علی عمرانی

ہے۔ ایسی قوم کو کبھی نہیں شکست ہو سکتی جس کے اے پی ایس کے غازی بچوں اور قوم کے بچوں کا ایک ہی خواب ہو اور لبوں پہ ایک ہی گیت ہو

دنیا بھر میں دسمبر کی آمد کو خوشیوں کی آمد کے طور پر تصور کیا جاتا ہے ۔کیونکہ یہ وہی مہینہ ہے جس میں پوری دنیا میں کرسمس ،نئے سال کی آمد کی خوشیوں اور تیاریوں کا آغاز شروع ہوجاتا ہے ۔ لیکن پاکستان کے لئے ملکی و سیاسی اعتبار سے پچھلے اڑتالیس سالوں سے دسمبر کی بہت تلخ یادیں وابستہ ہیں ۔تین سال پہلے 7دسمبر کے پی آئی اے کے طیارہ تباہ ہونے والے واقعے نے دسمبر کو غم ناک دسمبر بنا دیا ۔ 16دسمبر ہر سال پاکستان کے حصے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا دکھ تازہ کرتا ہے۔ 16دسمبر 1971پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن تو تھا ہی لیکن 16دسمبر کو کوئی بھی پاکستانی اس ناقابل برداشت دکھ پر نوحہ کناں نہیں مگر اے پی ایس کا دکھ لے کر آج کے دن پوری قوم افسردہ ہے۔ ہاں! اتنے افسردہ کہ سقوط ڈھاکہ کا غم مکمل طورپر دفن کر دیا گیا ہے۔ پورے ملک کی طرح میں بھی سقوط ڈھاکہ کو بھول کراے پی ایس کے ان معصوم شہیدوں کو یاد کرکے رونے لگتا ہوں ۔

16 دسمبر 2014، پھولوں کے شہر پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دہشت گردی کی ایک ایسی کاروائی جس نے بشریت سے آشنا ہر فرد کو اشکبار کردیا ملال کی وہ نہج جس سے نکلنے میں شاید بہت سا وقت لگے۔132پھول و کلیاں جامِ شہادت نوش کر گئے جبکہ سٹاف کے 9ممبران شہادت سے جا ملے ایسی انسانیت سوز کاروائی جس نے تمام دلوں کو دہلا دیا، بچہ چاہے کسی دشمن کا ہی کیوں نہ ہو لخت جگر لگتا ہے، ہر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ کیا کوئی انسان ایسا کر سکتا ہے؟ کہ معصوم بچوں کو نشانہ بنائے اپنی ہولناک صفات کا، معصوم بچوں سے ان کے سپنے چھین لے، والدین سے ان جگر گوشوں کو روز حشر تک جدا کردے۔ انتہا کی درندگی۔۔ ہاں ہاں ۔۔ یہ جال نیا تھا ، پر شکاری پرانے، کھیل نیا تھا، پر کھلاڑی پرانے۔ تعلیمی اداروں میں حملہ انسانیت سوز مظالم میں سے ایک ایسا ظلم ہے جو دنیا کے کسی مذہب کسی انسان اور کسی معاشرے میں کسی طور قابل قبول نہیں۔ یہ دہشت گردی کی بدترین شکل تھی۔

میں دہشت گرد نہیں بلکہ لکھوں گا، بولوں گا کہ ان موذی جانوروں نے سب سے مقدس جگہ کو لہو لہان کر دیا، اس جگہ کومعصوموں کے خون سے نہلادیا، اس مقام کو معصوم بچوں کے خون سے لت پت اور لال کر کر دیا گیا، جہاں لال رنگ صرف اساتذہ کے قلم سے کاغذوں پرلکھا جاتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسا واقع اس سے پہلے کبھی پیش نہیں آیا چنگیز خان نے متعدد عورتوں بچوں کو قتل کیا ہے جبکہ ہلاکو خان بھی بچوں کے قتل کا مرتکب ہوا، لیکن اب تک ان دونوں پر دنیا لعنت کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔

ہم قلمکار بھی بڑے عجیب ہیں، سانحہ آرمی پبلک کے مضمون میں یہ تو لکھ دیتے ہیں کہ دہشتگرد سکول میں ایسے داخل ہوئے، ایسے انہوں نے معصوم بچوں پر گولیوں کی شکل میں قیامت برپا کی جس کے نتیجے میں کل اتنی شہادتیں ہوئیں، ایسے آرمی پہنچی اور پھر کس طرح آرمی کے جوانوں نے ان درندہ صفت وحشی دہشتگردوں کو واصل جہنم کیا۔ اور بس۔ یہی ہوتا ہے ہم قلمکاروں کا مضمون۔۔۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اپنے مضامین میں اس دن کے حوالے سے جہاں اس واقعے کی عکاسی بزور قلم کرتے ہیں وہاں اس واقعے کے محرکات کو بھی رقم کریں۔ وہاں اس سانحے کے بعد رونما ہونے والے اثرات کو بھی قبضہ تحریر میں لائیں۔ وہاں یہ بھی لکھنے کی ہمت کریں کہ ان معصوموں کی شہادت نے اختلافات میں الجھی ہوئی قوم کو یکجا کردیا۔ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا اور طویل احتجاجی دھرنا ختم ہوا، ان بچوں کی شہادت نے اپنا خون دے کر تمام ملک کے سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں کو محفوظ کر دیا۔ حکومت کو تمام تعلیمی اداروں کی حفاظت کے لئے اقدامات عمل میں لانا پڑے۔ یہ سچ ہے کہ اس سانحے نے پاکستان کی شکل ہی بدل کر رکھ دی تھی لیکن یہ سانحہ ہر ایک کو یکجا کر گیا۔ جہاں ہر آنکھ اشک بار ہوئی، وہیں ہر بچہ اور ہر بڑا اپنے اندر ایک عزم لیے بیٹھا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے اور علم کی شمع کو جلائے رکھنا ہے۔ لہو سے جلے علم کے چراغ آج بھی روشن ہیں۔ اپنے پیاروں اور لخت جگر کو کھونے والوں کے حوصلے بلند ہیں، اس دلخراش سانحے نے قوم کو طاقت ور بنادیا جنہوں نے دہشت گردوں کے خلاف مل کر لڑنے کا پختہ عہد کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ عوام اور پاک فوج سیسہ پلائی دیوار بن کر دہشت گروں سے لڑی اور اسی کی بدولت پاکستان میں امن ہوا اور یہ مثالی جدوجہد پاکستان سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔

شعرو سخن سے تعلق رکھنے والے دل تو جہاں حساس ہوتے ہیں وہاں وہ معاشرے کے نباض بھی ہوتے ہیں کیونکہ وقت کی ڈوبتی نبض کو بر وقت محسوس کرکے اپنے کلام سے اسے ربط میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے مہان سخن ور اور باشعور نبض شناس ہی جان سکتے ہیں کہ صرف اور صرف قلم و کتاب اور تعلیم کی بدولت ہی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو مستقل مات دی جا سکتی ہے۔ ایسی قوم کو کبھی نہیں شکست ہو سکتی جس کے اے پی ایس کے غازی بچوں اور قوم کے بچوں کا ایک ہی خواب ہو اور لبوں پہ ایک ہی گیت ہو :

جو ڈر کے سامنے، ہنستا گیا ہے
جو اپنا چھوڑ کر بستہ گیا ہے
اک کیسی کہانی لکھ گیا وہ؟
کتابوں میں نشانی رکھ گیا وہ
وہ ماتھا چومنے والا لہو تھا
وہ جس نے خواب کو بھی خوں کیا تھا

مجھے ماں اس سے بدلہ لینے جانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے

%d bloggers like this: