مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صحافیوں کی سب سے زیادہ تعداد چین اور ترکی میں قید

صحافیوں کی تنظیم کے مطابق گزشتہ تین برسوں سے چین اور ترکی میں سب سے زیادہ صحافیوں کو حراست میں لیا گیا

نیویارک ،

امریکی شہر نیویارک میں قائم صحافیوں کی تنظیم نے بتایا ہے کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ صحافی چین کی جیلوں میں ہیں۔ 2018 میں یہ تعداد 47 تھی۔ رواں برس ایک صحافی اور گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس طرح اب چین میں زیر حراست صحافیوںکی تعداد اڑتالیس ہو گئی ہے۔

گرفتار ہونے والے صحافیوں میں سے بیشتر کو ریاست کے خلاف کام کرنے اور غلط خبریں دینے کے ریاستی الزامات کا سامنا ہے۔ اس بیان میں بتایا گیا کہ ترکی، سعودی عرب، مصر، اریٹیریا، ویتنام اور ایران ایسے ممالک ہیں، جہاں کئی صحافیوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں رکھا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ چین کے بعد دوسرا ملک ترکی ہے جہاں تقریبا چار درجن صحافیوں کو پسِ دیوارِ زنداں رکھا گیا ہے۔ ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق ترکی میں سینتالیس صحافی مقید ہیں۔ گزشتہ برس سب سے زیادہ صحافی ترکی کی جیلوں میں تھے۔ 2018 میں ترک حکومت نے اڑسٹھ صحافیوں کو حراست میں لیا تھا۔ ان میں سے بعض کو ترک عدالتوں سے ضمانتوں پر رہائی حاصل ہو چکی ہے۔

صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی نے یہ بھی بتایا کہ ترکی میں درجنوں صحافیوں کو اس وقت بھی مقدمات کا سامنا ہے۔ ایسا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ضمانتوں پر رہا صحافیوں کو عدالت کی جانب سے سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔ ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق ترک عدالتوں نے کئی صحافیوں کو ان کی عدم موجودگی میں سزائیں سنا رکھی ہیں۔ یہ صحافی غیر ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی کے مطابق جن ممالک میں مطلق العنان حکمران یا آمرانہ حکومتیں قائم ہیں، وہاں صحافیوں کو صحیح رپورٹنگ میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مشرق وسطی کے ممالک میں صحافیوں کی گرفتاریاں بڑھ رہی ہیں۔ سعودی عرب اور مصر میں گرفتار صحافیوں کی تعداد چھبیس چھبیس ہے۔ سعودی عرب میں کم از کم اٹھارہ صحافیوں کے مقدمات ابھی تک شروع نہیں ہو سکے ہیں۔

صحافیوں کی تنظیم کے مطابق گزشتہ تین برسوں سے چین اور ترکی میں سب سے زیادہ صحافیوں کو حراست میں لیا گیا۔

ذرائع  کے مطابق رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ چینی صدر شی جنگ پنگ کے دور میں ذرائع ابلاغ کو محدود کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا، وہ ابھی تک جاری ہے۔ اسی طرح ترک صدر رجب طیب ایردوان کی حکومت بھی آزاد صحافت اور حکومتی اقدامات پر تنقید برداشت نہیں کرتی ہے۔

%d bloggers like this: