اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدرمملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرینز کے صدرآصف علی زرداری کی دو مقدمات میں طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواستیں منظور کر لی ہیں، اور یوں سیاسی انتقام پر مبنی سیاست کا ایک اور باب اختتام کو پہنچا۔ اس سے یہ تاثر بھی ابھرا کہ شائد موجودہ حکومت جس کی بنیاد نفرت، انتقام، الزام تراشی اور سیاسی انتہا پسندی پر ہے، اُس کا اختتام بھی قریب پہنچ چکا ہے۔
حکومت کے خاتمے، مائنس ون فارمولہ، ان ہاؤس چینج، ون پیج پر کشمکش جیسی خبریں گذشتہ چند ماہ سے گردش کر رہی تھیں، اور تجزیہ نگاروں کی بھی یہی پیشن گوئی تھی کہ حماقتوں، جہالتوں اور نان سیریس رویے کی وجہ سے یہ حکومت کا آخری سال ثابت ہوگا۔ اب جو سیاسی ڈویلپمنٹس ہو رہی ہیں، اُس سے یہ تاثرمذید مضبوط ہو رہا ہے کہ نیازی حکومت کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی ضمانت منظور ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کے خاتمے کی بات کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ حکومت نے سیاست اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے، یہ عمران خان کی حکومت کا آخری سال ہے، یہ بات میں کسی کے اشارے پر نہیں کہہ رہا بلکہ عوام کی یہی خواہش ہے، اب عوامی امنگوں کے مطابق جمہوری حکومت آئے گی۔ صدر زرداری اب باہر آ رہے ہیں، وہ شکاری ہیں اور اب وہ کھلاڑی کے شکار کے لئے نکلیں گے۔
جنگ ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 64 سالہ آصف زرداری کی زندگی پر نظر ڈالیں تو انہوں نے مجموعی طور پر اپنی زندگی کے 3972 دن اسیری میں گزارے ہیں، جوموجودہ پاکستانی سیاست میں متحرک کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنما کی بظاہر واحد مثا ل ہے۔ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے رواں برس جولائی میں اپنی 64ویں سالگرہ بھی جیل میں گزاری۔
آصف زرداری نے تیرہ سال بغیر کوئی الزام ثابت ہوئے جیل کاٹی، اب بھی سیاسی انتقام پر مبنی کیسز کا ڈٹ کرمقابلہ کیا۔ ان کو انتہائی پرُکشش پیشکشیں دی گئیں، شہید بینظیر کو چھوڑ دو اور وزارت عظمیٰ لے لو، جیل میں زبان کاٹی گئی، لیکن انہوں نے جمہوریت اور شہید بی بی سے عہد نبھایا۔ اب بھی انہوں نے نیب کیس جس میں ریفرنس تک پیش نہ ہو سکا سے یہ کہہ کر ضمانت کی درخواستیں واپس لے لیں کہ نیب اُنہیں حراست میں رکھنے کے لئے کچھ بھی کرے گا، یہ سب کھیل کا حصہ ہے، وہ نہ تو کسی کو شرمندہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی سے سمجھوتہ کریں گے، جمہوریت کے لئے پہلے بھی جیل کاٹی، اب بھی تیار ہیں۔ پھر بعد میں آصفہ بھٹو نے انتہائی اصرار کر کے اپنے والد کو طبی بنیاد پر ضمانت کے لئے درخواست دینے پر راضی کیا۔ آج وہ ایک بار پھر تاریخ میں سُرخرو ہوئے۔ زرداری صاحب ویسے بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم ہیڈلائنز میں نہیں بلکہ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔ اور تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ زرداری صاحب جمہوریت کے ہیرو ہیں۔
زرداری صاحب اور دیگر اپوزیشن رہنماوُں کی گرفتاریاں، نیب مقدمات سیاسی انتقام اور انتہا پسندی کے فروغ کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ پاکستان کا المیہ ہے کہ جب سے عمران خان اور تحریک انصاف قومی سیاسی اُفق پر طاقتور ہوئی ہے پاکستان میں سیاسی انتہا پسندی انتہا پر پہنچ گئی ہے۔ اس سے قبل بھی ہم نے نوے کی دہائی میں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے درمیان محاذ آرائی اور لڑائی جھگڑے دیکھے ہیں، مگر بعد میں چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد ان دونوں جماعتوں نے ماضی میں اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ بعد میں کچھ سیاسی تلخیاں ہوئیں مگر سمجھداری غالب آئی اور سپیڈ بریکرز کے باوجود جمہوریت کی ٹوٹی پھوٹی گاڑی آگے بڑھتی رہی۔ پیپلز پارٹی کے دوراقتدار میں مخالف جماعتوں سے ایک بھی سیاسی قیدی نہ تھا۔
عمران خان کی سیاست نے پاکستان میں سیاسی انتہا پسندی کو بڑھایا ہے، اُن کی نفرت، گالیوں، الزامات اور گھیراؤ جلاؤ کی سیاست اور نعروں نے پاکستانی سماج اور بالخصوص نوجوان نسل کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ تحریک انصاف کے نعروں اور بیانئے نے نوجوانوں کو یہ شہہ دی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر اپنے حساب سے انصاف کر سکتے ہیں، وہ نوجوانوں کو یہ احکامات دیتے ہیں آپ نے اپنے سیاسی مخالفین جن کو وہ ڈاکو، چور کہتے ہیں، اُن کو پھینٹا لگانا ہے۔ اس جنون اور ہیجان کے سامنے آئین اور قانون کی کوئی اہمیت نہیں۔
پاکستان میں عوامی مفادات کے برخلاف جو سٹرٹیجک اور فارن پالییسیاں بنائی گئیں اس سے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا، ملک میں مسلح مذہبی جتھے بنائے گے، جس سے جنم لینے والے دہشت گردی سے ملک میں ہزاروں معصوم لوگوں کا خون بہا۔ ملک میں خوف وہراس پھیلا رہا، کلاشنکوف اور ہیروئن نے نوجوان نسل کو تباہ و برباد کیا۔ اس سے پاکستان کے سماج، سیاست اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
پھر جب عمران خان کے لئے سیاسی انجینئرنگ ہوئی تو پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ سیاسی انتہا پسندی کو بڑھایا گیا۔ ریاست میں سیکولر، لبرل اور اعتدال پسند رویوں اور افکار کی بجائے انتہا پسندانہ رویوں کی سرپرستی کی گئی۔ ایسے لوگوں کو میڈیا کا پلیٹ فارم نہ دیا گیا جو عقلی بنیادوں پر مبنی اعتدال پسند جمہوری رویوں کو فروغ دے سکیں۔ بلکہ سیاست اور جمہوریت مخالف مبلغوں کو ٹی وی پر بڑھایا گیا، جنہوں نے ملک میں مذہبی، سیاسی انتہا پسندی کو معاشرے میں بڑھایا۔
انتہا پسندی اور قانون کو ہاتھ لینے کا ایک خونی مظاہرہ آج ہم نے دیکھا جب سینکڑوں وکلا نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ینگ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہسپتال پر دھاوا بول دیا اور ہسپتال کا مرکزی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گئے۔ صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان جو خود بھی سیاسی انتہا پسندی کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں وہ بھی اس واقعے میں تشدد کا نشانہ بنے۔ اس واقعے میں ایک مریض خاتون کے جاں بحق ہونے کی خبر بھی ہے۔ وکلا کی جو ویڈیوز ٹی وی پر دیکھائی جارہی ہیں اس سے سماج کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں انتہا پسندی اور لاقانونیت کس حد تک سرایت کر چکی ہے۔
سیاسی انتہا پسندی، آگ اور خون کا یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں۔ کیونکہ خون جب بہتا ہے تو وہ رُکتا نہیں، کبھی وہ ایک فریق کا بہتا ہے اور پھر کبھی دوسرے فریق کا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ