مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان کی جنگلی حیات ،اختر مینگل اورسرائیکی وسیب۔۔۔عبید خواجہ

دیرہ جات کو بلوچستان میں شامل کرنے کا مطالبہ اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈہ ہے جسکا مقصد محض سرائیکی صوبہ کے مطالبہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے

بلوچستان کی جنگلی حیات کا بیدردی سے شکار کر کے نسل کشی کرنے والے سردار اختر مینگل کافی عرصہ سے سرائیکی وسیب کے ڈی جی خان ڈویژن کو بلوچستان میں شامل کرانے کیلئے مطالبہ دہرا رہے ہیں. سردار اختر خان مینگل کے اس مطالبہ کو نہ ہی عوامی مقبولیت ملی اور نہ ہی دیرہ غازیخان ڈویژن کی بلوچ برادریوں نے کبھی یہ مطالبہ کیا ہے البتہ بالخصوص تونسہ اور ڈویژن کے کچھ علاقوں سے بالعموم کچھ افراد ذاتی حیثیت میں صرف توجہ حاصل کرنے کیلئے وقتا فوقتا یہ شوشہ چھوڑتے ہیں. اس سے پہلے ڈاکٹر عبدالحی بلوچ اور حاصل بزنجو کم و بیش تونسہ کے اسی علاقہ میں اسی موضوع پر چند درجن افراد پر مشتمل اجتماعات کر چکے ہیں. جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس مطالبہ کی عوامی، سماجی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں..
ڈاکٹر عبدالحی بلوچ اور حاصل بزنجو اپنے دوروں کے دوران ایک ہی سانس میں دیرہ جات کی بلوچستان میں شمولیت کیساتھ ساتھ سرائیکی صوبہ کی حمائت کر چکے ہیں.
دیرہ جات کو بلوچستان میں شامل کرنے کا مطالبہ اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈہ ہے جسکا مقصد محض سرائیکی صوبہ کے مطالبہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے اور اختر مینگل لگتا یہی ہے کہ دانستہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈہ کو پروموٹ کر رہے ہیں.
یاد رہے کہ موصوف اختر مینگل ہی وہ مہربان شخصیت ہیں جنہوں نے مظلوم قومیتوں کے اتحاد پونم کو سبو تاژ کیا اور انکے والد سردار عطاءاللہ مینگل کی پونم سربراہی کے دوران سرائیکی قومیتی نمائیندوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی تذلیل اور تضحیک کی گئی اور ناچار انہیں اختر مینگل کے ناروا رویہ کے باعث پونم اجلاسوں کا بائیکاٹ کرا پڑا.

بلوچ نشنلیسٹ اور علیحدگی پسند اپنے مجوزہ نامنہاد "گریٹر بلوچستان "کے نقشوں میں دیرہ جات اور سندھ کے جیکب آباد کے علاقہ کو غلط طور پر بلوچ سرزمین گردانتے رہے ہیں مگر اختر مینگل اور دیگلر بلوچی قیادت سندھی عوام کے ردعمل کے خوف سے جیکب آباد کو بلوچستان میں شامل کرنے کا بھولے سے بھی نام نہیں لیتے.
خود اختر مینگل کو متعدد بلوچ رہنا اور سردار بلوچ نہیں مانتے. بلوچی انتہائی فخر سے اپنا تعلق اور تاریخ حلب سے جوڑتے ہیں جو یہ ثابت جرتا ہے کہ بلوچ آبادکار ہیں اور اس خطہ کہ قدیمی یا نیٹیو باشدے نہیں اس حوالہ سے پھر بلوچوں کا دیرہ جات کو بلوچستان میں شامل کرنے کا مطالبہ غیر منطقی، حقائق سے منافی اور اسٹیبلشنٹ کے ایجنڈہ کو بڑھاوا دینےکے مترادف ہے.
نہ صرف سرائیکی وسیب سے منسلک بلوچستان کے علاقوں بلکہ جعفر آباد، دیرہ بگتی، قلعہ عبداللہ تک سے لوگ محض بنیادی علاج معالجہ اور روزگار کیلئے رحیم یارخان، راجنپور، ملتان، دیرہ غازیخان سمیت وسیب کے متعدد علاقوں تواتر سے آتے رہتے ہیں اب تو بلوچستان کے ان علاقوں کے لوگ خصوصا رحیم یار خان شہر میں مستقل رہائش رکھتے ہیں. ڈسٹرکٹ ہسپتال رحیم یار خان میں واضح طور پر بلوچی لباس میں ملبوس مردوزن کافی تعداد میں نظر آتے ہیں.
بلوچ علیحدگی پسندوں نے متعدد بار بیگناہ نہتے سرائیکی مزدورں کا قتل عام کیا ہے اور ان مقتولین میں سے بیشتر کا تعلق دیرہ غازیخان اور بیشتر مقتولین کاتعلق بھی بلوچ برادریوں سے تھا. اگر واقعی بلوچی قیادت اور علیحدگی پسند دیرہ غازی خان کو بلوچ سرزمین سمجھتے ہیں پھر اس علاقہ کے بلوچ نسل سے تعلق رکھنے والے نہتے افراد کو کیوں قتل عام کا نشانہ بناتے ہیں.
یاد رہے اس قتل عام میں دیرہ غازیخان سے تعلق رکھنے والے سرائیکی قومیتی رہنما جنکی ذات بھی بلوچ ہے اکبر ملکاݨی کے کئی قریبی عزیز بھی شامل ہیں.
کیا کبھی اختر مینگل یا کسی دوسرے بلوچی رہنما نے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے بلوچ اور دوسری برادریوں کے افراد کے قتل کی مذمت اور دکھ کا اظہار کیا ہو؟؟؟
کیا انہیں صرف دیرہ غازیخان کی سرزمین پر قبضہ سے مطلب ہے نہ کہ عوام سے کوئی غرض؟
مضحکہ خیز بات یہ ہے اختر مینگل اور بلوچی رہنماؤں کی بلوچستان کے توسیع پسندانہ عزائم صرف دیرہ غازیخان تک ہیں مگر دریا سندھ کے دوسرے کثیر بلوچ آبادی پر مشتمل سابقہ صوبہ سرحد کے جبری ماتحت شہر دیرہ اسماعیل خان کو بلوچستان میں شامل کرنے کا مطالبہ شائید اسوجہ سے نہیں کرتے کہ انکے جغرافیہ کا علم صرف دیرہ غازیخان تک محدود ہے یا اسلئے کہ پشتون اور سندھی ایک طاقتور قوم ہیں انسے پنگا لینا مہنگا پڑ سکتا ہے اسی طرح سندھیوں کے خوف سے بھی آپ دبے الفاظ سے جیکب آباد کو بلوچستان میں شامل کرنے مطالبہ تو کرتے ہیں مگر وہاں پر اسطرح کے جلسے کرنیکا آپ سوچ بھی نہیں سکتے. محض ایک بے بے سرائیکی قوم ہے کہ جسکا جی چاہتا ہے استحصال کرتا ہے. ییاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا سرائیکی قوم اور وسیب یکساں طور پر بیک وقت پنجابیوں، سندھیوں، پشتونوں اور بلوچیوں کے استحصال اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہے.
اختر مینگل اور ان جیسے سرائیکی قومیت کے دشمن یاد رکھیں کہ بلوچی اور سندھی کی انکے اپنے صوبوں اکثریت محض ان صوبوں میں بسنے والے سرائیکیوں کی خاموشی کی مرہون منت ہے. ہم سندھ اور بلوچستان کے اسٹیبلشمنٹ کے مسلسل استحصال کیوجہ سے ان صوبوں میں صدیوں سے سندھی، سرائیکی اور بلوچی ثقافتی رشتوں کا لحاظ اور پاس رکھتے ہوئے خاموش ہیں وگرنہ جس دن بھی ان صوبوں کے سرائیکی اٹھ کھڑے ہوئے سندھی اور بلوچی اکثریت کا بھرم کھل جائیگا اور ہم نہیں چاہتے کہ اس صورتحال سے اسٹیبلشمنٹ فائدہ اٹھائے۔


عبید خواجہ  صدر  انٹر نیشنل سرائیکی کانگریس یو ایس اےہیں

%d bloggers like this: