کون جانے کہاں ہے شہرِ سکوں
قریہ قریہ بھٹک رہا ہے جنوں
میں اوبر میں کارٹونسٹ فیکا کے گھر کی طرف جارہا تھا- بہادر آباد کے قریب میرے موبائل فون کی سکرین پر ایک نمبر ابھرا اور بزر بجنے لگا، فون اٹھایا تو دوسری طرف ‘اقدس رضوی’ تھے- بڑی جاندار آواز تھی، دعا سلام کے بعد فرمانے لگے کہ ملاقات کرتے ہیں اور ملاقات ڈنر پر ہوگی- کہنے لگے کہ کل رات فون کریں گے-
اگلی شام میں سید شوکت رضوی و نورجہاں کے پوتے سکندر رضوی کے بنائے کیفے
Xenders
میں ایک سخی دوست کی سخاوت کے نتیجے میں ایک عدد کافی اور ہماری ہاں کی باقر خانی کی فرنچ شکل کے ساتھ انصاف کرکے فارغ ہوا تھا اور امیر مینائی کے پوتے زاہد مینائی جو خود بھی اب نوے سال کے ہیں کے بنگلے کے سامنے کھڑا تھا کہ اقدس رضوی کا میسج ملا کہ ‘آج تیار رہیے گا، آپ جہاں ہوں گے، آپ کو پک کرلوں گا’
اور پھر میں نے پہلے اُن کو بتایا ہے کہ میں کراچی آرٹس کونسل ہوں، پھر ایک ایمرجنسی میں مجھے ڈی ایچ فیز ون کراچی میں جانا پڑا اور وقت بھی دس بجے رات کرنا پڑا-
اقدس رضوی نے کمال محبت اور شفقت فرمائی اور دس بجے مجھے ایتون کے قریب سے اپنی کار میں پک کیا اور بوٹ بیسن کے قریب ایک کیفے لے گئے-
میں اس دوران سوچوں میں گُم تھا-
ہمارا پُرانا گھر، اُس کی بیٹھک جس کے ایک کونے میں الماری کے ساتھ میرا بستر لگا ہوا ہوتا تھا اور میں اُس کونے میں غیر نصابی کتابیں پڑھا کرتا تھا، اُن دنوں میرے ہاتھ ‘کلیات شکیب جلالی’ لگ گئی تھی اور میں ایک کے بعد ایک غزل پڑھتا جاتا تھا اور یہ اپنی کرافٹنگ، تراکیب و تشبیہات کے اعتبار سے مجھے ابتک پڑھی ہوئی شاعری سے الگ چیز لگ رہی تھیں- اور میں اس شاعری میں جو تصورات میرے ذہن پر آسیب کی طرح مسلط تھے وہ رات کو خوابوں میں بھی میرا پیچھا کرتے تھے – میں رات سوتے میں اٹھ جاتا تھا-
یہ کیفیت میری اماں کی نظر سے گزری تو وہ پریشان تو ہوئیں مگر معمولات زندگی کی کڑی نگرانی نے اُن کو سمجھایا کہ میری اس کیفیت کا سبب کیا ہے- سو وقتی طور شکیب کے کلیات سے دور ہوگیا لیکن جب میں لڑکپن کی منزل سے نکل کر جوانی کی راہ پر چلا تو شکیب کے اشعار پھر حرز جاں بنالیے گئے- کلیات شکیب میرے سرہانے دھری کتابوں میں سے ایک تھی-
مجھے اشعار زبانی یاد نہیں رہتے تو میں شکیب کے اشعار کو دو تین صفحوں پر لکھ کر جیب میں رکھ لیا کرتا اور جہاں حلقہ یاراں میں موقعہ ملتا تو منتخب اشعار سنایا کرتا-
پھر انٹرنیٹ کا زمانہ آیا اور فیس بُک ایجاد ہوئی اور میں نے اس پر اپنی دیوار ایستادہ کی اور اس دیوار پر اکثر و بیشتر شکیب جلالی کے اشعار کاپی، پیسٹ کرنا شروع کیے تو ایک دن میرے فیس بُک کے حلقہ دوستاں میں شامل ‘اقدس رضوی’ نے ان-باکس میں میسج کیا اور بتایا کہ وہ شکیب جلالی کے بیٹے ہیں-
یقین جانیے اُس انکشاف کو سُنکر مجھ پر شادی مرگ کی کیفیت طاری تھی-
جس شکیب جلالی کو میں دن رات پڑھا کرتا تھا، اُسی شکیب کا بیٹا میرے رابطے میں آگئے تھے-
شکیب جلالی کے فرزند کے ساتھ میں ایک کیفے کے اوپن ایریا میں بیٹھا کیونکہ یہاں سگریٹ نوشی آرام سے کی جاسکتی تھی-
میں نے اقدس رضوی صاحب کو بتایا کہ کیسے شکیب میرے پسندیدہ شاعروں میں ایک شاعر بنے-
اس دوران کیسے میں آنس معین بلے، ثروت حسین، قمر بشیر سے ملا- یہ تینوں شاعر بھی شکیب جلالی کے عاشق تھے اور اپنے اندر کی روشنی سے ایک دن اتنا ڈرے کہ انھوں نے اپنی زندگی کے چراغ خود اپنی پھونکوں سے گُل کرڈالے- جیسے شکیب جسم کی فصیل گراکر ‘حدود امکان’ سے آگے نکلنے کا ذاتی تجربہ کرگئے، ایسے ہی آنس و ثروت و قمر بشیر بھی اس تجربے سے گزرگئے-
چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا
قربِ منزل کے لئے مر جانا
میں اپنے احساسات و تجربات اقدس رضوی کو بتائے جارہا تھا کہ انھوں نے درمیان میں اچانک مجھے بتانا شروع کیا کہ کیسے جب اُن کے والد سید حسن رضوی /شکیب جلالی (12 نومبر 1966ء) کو حدود وقت سے آگے نکل گئے اور قرب منزل کے لیے مرگئے تو وہ بہت چھوٹے تھے، اتنے چھوٹے کے باپ کی شکل و صورت اُن کے ذہن پر بہت ہی دھندلی سی تھی، کہتے ہیں کہ اُن کے بابا نے اُن کا نام ‘حسین اقدس’ رکھا تھا-
"ہماری ماں بابا کی سرگودھا میں ناگہانی مرگ کے بعد ہم سب کو کراچی لے آئیں – انہوں نے ہماری پرورش کرنے کے لیے کپڑے سینے سے لیکر ہر چھوٹا بڑا کام کیا اور ہمیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل کیا، وہ بہت محنتی، جفاکش بہادر خاتون تھیں اور پھر ہمارے اندر حُب اہل بیت اطہار کی شمع ہمیشہ فروزاں رکھی – ”
یہ تو بتائیں کتاب ‘کوفہ’ لکھنے کا خیال کیسے آیا؟ انہوں نے اچانک مجھ سے سوال کردیا-
” آپ نے کتاب کے دیباچے میں تفصیل نہیں پڑھی؟ ” میں تھوڑا گریز کرنے کی کوشش میں تھا-
`وہ میں نے پڑھا ہے-لیکن آپ سے سُننا چاہتا ہوں مزید تفصیل’
میں بچپن سے منابر سے چاہے وہ اہل تسنن کے ہوں یا شیعہ کے ہوں واقعہ کربلا کے بیان کے اختتامیہ پر فتویٰ صادر کرتے اہل کوفہ میں شیعان علی غدار تھے- پھر اُن کو وعدہ وفا نہ کرنے کا طعنہ دیا جاتا- اس چیز نے مجھے اس سارے دعوے کو ڈی کنسرٹ کرنے پر اُکسایا’ اور یوں کتاب’ کوفہ’ لوگوں تک پہنچی-`
‘ ہاں، اس کتاب نے کوفہ کے بارے میں میرے ڈسکورس کو بدل ڈالا اور اس شہر کے اہل وفا کو پہچاننے میں میری مدد کی’، حسین اقدس رضوی نے مجھے بتایا تو مجھے لگا کہ جیسے میری محنت ٹھکانے لگی ہو-‘
`رضوی بھائی، اس کتاب کا اگلا ایڈیشن تاریخ کے کئی اور گمنام یا نظر انداز کردہ کرداروں کو سامنے لائے گا-`
حسین اقدس رضوی بتارہے تھے کہ وہ ٹھیک دس بجے سوجاتے ہیں لیکن آج خلاف معمول 12 بجے تک جاگ رہا ہوں، اتنے میں اُن کی اہلیہ کا فون آگیا-
حسین اقدس رضوی ایک کامیاب بینکر ہیں- اُن کی سب سے بڑی اولاد ایک بیٹی اب امریکہ میں ہیں وہ آئی ٹی میں ماسٹرز کررہی ہے جبکہ وہ جاب بھی کرتی ہیں- کہتے ہیں بیٹی معاشی و سماجی خودمختاری سے سرفراز ہے جس وقت وہ بتارہے تھے تو اُن کا چہرہ خوشی سے گلنار تھا- ایک بیٹا اے لیول کررہا تھا-
حسین اقدس سے یہ ملاقات پہلی تو ضرور ہے لیکن آخری ہرگز نہیں ہے-
مجھے اُس دن کا انتظار جب وہ شکیب جلالی کی یادیں اور اپنی یتیمی کے زمانے سے لیکر کراچی میں اپنی عظیم ماں کی کٹھن جدوجہد کی داستان قلمبند کرلیں گے اور اُسے کتابی شکل میں ہم جیسے مبتدیان ادب کے ذہنوں کو کشادہ کریں گے-
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ