خبر یہ ھے کہ اسلام آباد میں بنوں پولیس کے ایس پی انوسٹی گیشن نثار احمد خان اور ان کی فیملی کو گن پوائنٹ پر لوٹ لیا گیا۔ ایس پی کی اہلیہ سے پہنا ہوا آٹھ تولے سونا بھی اتروا لیا۔۔۔۔ واردات کرنے والے نیلی بتی کی سفید کرولا کار پر تھے اور انہوں نے خود کو سی آئی اے کا اہلکار ظاہر کیا ۔۔۔۔
ایک حسبِ حال شعر ۔۔۔۔
مَیں آج اگر زد پہ ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
اور ایک بات ! وہ ایک بات ھے ایک ایسے سماجی نظام کی جس کی ایک جھلک زمانہ ماضیِ قریب میں دیکھ چکا ھے اور ایسا سماج مستقبلِ قریب میں فیض احمد فیض کے بقول "لازم کے ھم بھی دیکھیں گے”۔۔۔
اور ساحر لدھیانوی کیمطابق، "یہ صبح ہمیں سے آئیگی، یہ صبح ہم ہی لائینگے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات ھے غیر طبقاتی سوشلسٹ سماج کی۔ جس میں ایک انسان ، دوسرے انسانوں کی بہتری کیلئے کائنات میں موجود فطرت کے مظاہر دریاؤں، پہاڑوں، سمندروں، جنگلوں، صحراؤں اور خلاؤں میں موجود خزانے کھوج کر انہیں انسانوں کے اجتماعی مفادات کے تابع بناتا ھے۔۔۔
دوسرا سماج ھے طبقاتی سماج، سرمایہ دارانہ سماج۔۔۔۔ جس میں ھم رہ رھے ہیں۔ جس کی ذلت ھم برداشت کر رھے ہیں۔۔۔۔۔ کیونکہ اس سماج/نظام میں انسانوں(محنت کش طبقے کی قطعی اکثریت) کو کوئی وقعت حاصل نہیں ہوتی۔۔۔۔زمین ہو یا جاگیر، فضاء ہو یا خلا، دریا ہوں یا سمندر اور پہاڑ ہوں یا صحرا سب وسائل پر محدود اور گنے چنے چند افراد پر مبنی بالادست طبقے کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ھے کہ یہ طبقہ اپنے علاوہ کسی کو انسان نہیں سمجھتا۔ اس طبقے اور ایسے سماج کی ، عظیم نظریہ دان، فلاسفر اور انقلابی استاد کارل مارکس وضاحت کرتے ہوئے کہتا ھے کہ ” جانوروں کے سماج میں شہد کی کارکن مکھیاں نکھٹو مکھیوں کو مارتی ہیں جبکہ طبقات پر مبنی نظام میں نکھٹو (بالادست )طبقہ محنت کشوں کا مارتا ھے۔ بلکہ کام کروا کروا کے مارتا ھے”۔۔۔۔
کارل مارکس کے ان الفاظ کی تشریح محنت کش طبقے کی زندگی اور ان کے رہن سہن سے عیاں ہوتی ھے کہ وہ کھیتوں کے کھیت کاشت کرتے ہیں مگر دو وقت کے کھانے ، اپنے اور اپنے بچوں کے تن ڈھانپنے سے محروم رہتے ہیں۔۔۔ جن فیکٹریوں اور کارخانوں میں وہ اپنا لہو جلاتے ہیں انہیں فیکٹریوں اور کارخانوں کی پیداوار کو مالکان کی مرضی کے بغیر چُھو بھی نہیں سکتے۔ شوگر ملوں میں کام سڑنے والے سخت گرمیوں میں اسی شوگر مل کی چینی سے شربت بنا کے نہیں پی سکتے۔ سیمنٹ فیکٹری اور اینٹوں کے بھٹوں کے مزدور کچے جھونپڑوں /گھرونوں میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے کمرشل پلازوں کو بنانے والوں کو وہاں سے خریداری کیا ان کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔۔۔ فلک بوس ہوٹل ہوں یا چمکتی دمکتی کوٹھیاں غریبوں کیلئے ان کے سائے میں بیٹھ کے سستانا بھی گناہ ہوتا ھے۔ ہسپتالوں اور سکولوں کو دور سےدیکھنے کی حد تک ان کا اختیار ہوتا ھے۔ ان سکولوں تعلیم حاصل کرنے اور ہسپتالوں میں علاج کرانے کی سہولتیں نہ ان غریبوں کو میسر ہوتی ہیں اور نہ ھی کے بچوں کو۔۔۔
روزگار کیلئے یہ خود کو سستا بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اگر سستا بکنے کے مواقع بھی نہ ملیں تو بچوں سمیت محلے کے کچرے کو کرید کر رزق تلاش کرتے کرتے درسی کتب میں اشرف المخلوقات کہلانے والے یہ مفلس وہیں کچرے کے ڈھیر پر کتوں کے جھرمٹ میں سو رہتے ہیں۔۔۔۔ وطن ، آئین، قانون، ایوان، ادارے، مساجد، مندر، گرجے، گردوارے، افواج ، افسر اور عدالتیں سب انہی کے نام پہ بنتے ہیں اور سب انہی کے لہو پر پلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جس خدا کے خلیفے کہلاتے ہیں اسی خدا کی زمین ان پر تنگ کر دی جاتی ھے۔۔۔ اور جب ان مفلسوں اور خانماں برباد لوگوں پر زمین تنگ کر کے زندگی وبال بنادی جاتی ھے تو پھر یہ آمادہ بہ جنگ ہو کر زندہ رہنے کی راہ ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔ شروع شروع میں باہم توت تکرار کرتے ہیں، دست و گریباں ہوتے ہیں، جیب کاٹتے ہیں، چوریاں کرتے ہیں،ڈاکے ڈالتے ہیں، قتل کرتے ہیں اور جیلوں میں جاتے ہیں مگر ان کے حالات نہیں سدھرتے۔۔۔۔۔ تو ان کی زندگی کے دکھ اور اذیتیں ان کی رہنما بنتی ہیں۔ ان حالات میں ان کو یہ ادراک حاصل ہوتا ھے کہ ھم تو باھم لڑ بھڑ کر لٹیرے، استحصال کرنے والے ظالم اور بالادست طبقے کی کھاد بن رھے ہیں۔۔۔
ایسے میں ان کے قاتل مسیحاؤں کی سب شکلیں ان کے ذہن کے گوشوں سے نکل نکل کر سامنے آنے لگتی ہیں۔ ان کی یہ پہچان ان کی لڑائی کی سمت بدلنا شروع کر دیتی ھے۔۔۔۔ تب سالوں ایک دوسرے کیساتھ رنگ نسل ذات پات مسلک و مذہب اور قوم و وطن کے نام پر تقسیم ہو کے لڑنے مرنے والے سب سے پہلے اس تقسیم کو مسترد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا شروع کردیتے ہیں تب "ایک کا دکھ سب کا دکھ ” اور "ایک کا زخم سب کا زخم ” کے نعرے کی حقیقت جان جاتے ہیں اور اپنی حتمی فتح کیلئے طبقاتی سماج کے خاتمے کی لڑائی لڑنے کیلئے باہم منظم ہو کرنا شروع کردیتے۔۔۔۔۔۔
سو ایسے سب واقعات محنت کشوں کو ابھی غیر محسوس انداز میں آگے بڑہا رھے ہیں۔۔۔۔ اس وقت ضرورت محنت کش طبقے کو اپنی طاقت کیلئے اپنے اختیار اور اقتدار کیلئے احساس دلانے کی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِدھر ان کا احساس جاگا تو اُدھر وہ جونہی میدانِ عمل میں منظم ہو کر اترے تو۔۔۔۔۔ بس پھر دیکھنا کہ کوئی تاج ہو یا تخت محنت کش طبقے کے قدموں کی دھول بنیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر