سابق ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان جمیل احمد جمیل کی جگہ نئے ڈپٹی کمشنر علی شہزاد گذشتہ تین روز سے اپنی سیٹ سنبھال کر کام کا آغاز کر چکے ہیں. میری ان سے ملاقات اور بات چیت تو ابھی تک نہیں ہوئی سوائے ایک خوش آمدیدی میسیج اور اس کے جواب کے. میرا اندازہ ہے کہ موصوف ہمارے سابق ڈی سی اوجناب نبیل جاوید سے ملتے جلتے ثابت ہوں گے.
انہی کی طرح نرم خو، دھیمے لہجے اور صوفیانہ مزاج کے حامل. یقینا صوفی مزاج لوگ نرم دل، محبت کرنے اور محبتیں بانٹنے والے ہی ہوتے ہیں.اللہ کرے کہ ہمارا خیال، گمان اور خواب سچ ہی ثابت ہو. نبیل جاوید آج بھی اپنی محبتوں کی وجہ سے لوگوں میں اچھے لفظوں سے یاد کیے جاتے ہیں. جمیل احمد جمیل کی ملنساری اور ان سے ملنے والی ماء دھرتی اور مٹی کی خوشبو بھی محسور کن ہےخیر یہ یادیں اور باتیں پھر کبھی سہی ہم واپس اپنے آج کے ٹاپک کی طرف آتے ہیں.
گویا وہ ضلعی سطح کی مختلف اتھارٹیز اور محکمہ جات کی جانب سے بریفنگ ڈیز میں مصروف ہیں گزشتہ روز انہوں نے اس حوالے سے اپنا انتہائی مصروف ترین دن گزاراڈسٹرکٹ پبلک ہیلتھ اتھارٹی، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی، ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ ونگ سمیت ادھ درجن کے لگ بھگ میٹنگز کو بھگتانا پڑا. ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کی بریفنگ میں انہیں مراکز صحت، طبی سہولیات کی فراہمی، ڈینگی کی صورت حال اورانسداد پولیو مہم کے بارے میں محکمانہ اقدامات بارے آگاہ کیا گیا۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر(ریونیو)ڈاکٹر جہانزیب حسین لابر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر(فنانس اینڈ پلاننگ)محمد طیب، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر(جنرل)شیخ محمد طاہر،سی ای ا وڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی ڈاکٹر سخاوت علی رندھاوا، ڈی ایچ اوز ڈاکٹر حسن خان، ڈاکٹر غضنفر شفیق سمیت تحصیلوں کے ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز اور ایم ایس ٹی ایچ کیو ہسپتال بھی اجلاس میں شریک تھے۔
ڈپٹی کمشنر علی شہزاد نے کہا کہ اداروں میں سر وسز ڈلیوری کو بہتر بنانا موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے ، ہیلتھ اتھارٹی کی کارکردگی باعث اطمینان تاہم اس میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ اداروں پر عوامی اعتماد کو بحال کرنے کے لئے سخت محنت کی ضرورت ہے لہذا تمام افسران اپنی ذمہ داریاں مزید احسن انداز سے انجام دیں،
سرکاری ہسپتالوں کے معیار میں بہتری لائی جائے اور کوئی بھی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ علاج معالجہ کی سہولیات سے محروم نہ رہے۔انہوں نے کسی بھی ہسپتال میں طبی سہولیات کے حصو ل کےلئے آنے والے مریضوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف، ادویات سمیت دیگر جرحی آلات کی موجودگی یقینی بنائی جائے۔انہوں نے آمدہ انسداد پولیو مہم میں ٹیموں کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے اور تمام یونین کونسلز میں 100فیصد اہداف کا حصو ل یقینی بنانے کی ہدایت کی۔قبل ازیں سی ای او ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی ڈاکٹر سخاوت علی رندھاوا نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ضلع میں3ٹی ایچ کیو ہسپتال،19رورل ہیلتھ سنٹرز .،104بنیادی مراکز صحت اور56رورل ڈسپنسریاں موجود ہیں جبکہ ضلعی ہیڈ کواٹر پر954بیڈز پر مشتمل شیخ زید ہسپتال ہیلتھ سروسز فراہم کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آمدہ پولیو مہم میں9لاکھ55ہزار پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کی حفاظتی ویکسین کے قطرے پلائے جائیں گے۔جبکہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت الطاف آئی ہسپتال خانپور کی تعمیر و مرمت اور دیہی مراکز صحت میانوالی قریشیاں کی اپ گریڈیشن شامل ہے۔دریں اثناءڈپٹی کمشنر علی شہزاد نے ڈسٹرکٹ ایمرجنسی رسپانس کمیٹی برائے انسداد ڈینگی کے اجلاس کی صدارت کی جس میں بتایا گیا کہ ضلع میں ڈینگی کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا اور ضلع رحیم یار خان ڈینگی فری ضلع ہے جبکہ دیگر اضلاع سے ڈینگی کے متاثرہ مریض رحیم یار خان لائے گئے جو الحمد اللہ صحت یاب ہو کر اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔
محترم قارئین کرام، بلاشبہ بند کمروں کی میٹنگز. اور بریفنگز کے برعکس زمینی حقائق اور حقیقی صورت حال قدرے مختلف ہوتی ہے. یہ صرف ضلع رحیم یار خان کا معاملہ نہیں پورے ملک کا قومی المیہ ہے. رحیم یار خان کو ڈینگی فری قرار دینے والوں نے بہت پہلے اسے پولیو فری بھی قرار دیا تھا. جوکہ حقائق کے منافی تھا.پولیو کے کیسز کو رپورٹ ہونے سے سختی سے روکا جاتا رہا.
لیکن حقیقت دبانے وقتی طور پر تو دب جاتی ہے مگر اسے زیادہ دیر چھپایا نہیں جا سکتا. اللہ کرے کہ میرا ضلع ڈینگی فری ہی ہو.پہلی بات تو یہ ہے کہ ضلع بھر میں ڈینگی ٹیسٹ کی سہولیات کہاں کہاں اور کس قدر موجود ہیں. دیہی علاقوں کے اکثر ہسپتال ڈاکٹرز، سٹاف اور آلات و ادویات کی کمی کا شکار ہیں.
بمیانوالی قریشاں کی طرح ظاہر پیر، خانبیلہ، راجن پور سمیت ضلع کے تمام رورل ہیلتھ کمپلیکسز کو اپ گریڈ کرنے کی اشد ضرورت ہے. شیخ زاید ٹو کے ساتھ تھری کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ ضلع رحیمیار خان تین صوبوں کے سنگھم پر واقع ہے. شیخ زاید ہسپتال پر حد سے زیادہ لوڈ ہے.رحیم یار خان کے سوشل سیکیورٹی ہسپتال آدم والی کے رکے کام کو بھی برف خانے سے نکالنے کی ضرورت ہے.
صحت اور تعلیم دو انتہائی بنیادی چیزیں ہیں. دوسری اہم بریفنگ شعبہ تعلیم کے حوالے سے ہے. جس میں بتایا گیا کہ میں 2778سرکاری سکول، 7سپیشل ایجوکیشن سکول، جبکہ انصاف پروگرام کے تحت 41سکولوں کو پرائمری سے مڈل اور مڈل سے ہائی میں منتقل کیا گیا ہے. جس سے دس ہزار بچوں جو تعلیم کے موقع حاصل ہوئے ہیں. ایجوکیشن اتھارٹی میں 18528ملازمین کام کر رہے ہیں. جبکہ مختلف کیڈر کی اسامیاں خالی بھی ہیں. ڈپٹی کمشنر نے خالی اسامیوں اور بنیادی سہولیات سکولوں کا ڈیٹا فراہم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں.
محکمہ تعلیم میں سابق وزیر اعلی میاں شہباز شریف کے دور سے مسنگ فیسیلیٹیز کے نام سے بہتری کے لیے شروع کیے جانے والے پروگرام اور سکیم کو موجودہ وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کی حکومت نے بھی جاری رکھا ہوا ہے جوکہ نہایت ہی خوش آئند بات ہے. شہروں میں آبادی کے شدید دباؤ کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت دیہی علاقوں میں کچھ مزید کالجز قائم کرے اور مزید سکولوں کو اپ گریڈ کرے،تمام بنیادی ضروریات اور سہولیات بھی فراہم کرے.
دیہی علاقوں کے سینکڑوں گھرانے محض بچوں کی تعلیم کی خاطر شہروں میں رہائش رکھے ہوئے ہیں ۔سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ حکومت اور انتظامیہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ تجارتی اور کمرشمل سوچ کے تحت شروع کیے جانے والے پرائیویٹ سکولوں کے معیار اور وہاں دی جانے والی تعلیم، تربیت اور ماحول پر بھی نظر رکھے. مختلف مدات میں فیسیز بٹورنے والوں کو کنٹرول کرے. گھوسٹ سکول اور گھوسٹ سٹاف کی کیا پوزیشن ہے. ماضی میں تو ان کے خاصے چرچے رہے ہیں. گو کہ اب حالات خاصے بہتر ہو گئے ہیں مگر ابھی بھی بہت سارے لوگ محکمہ انہار کی طرح مفت کی تنخواہیں بٹور رہے ہیں. سٹاف کی کمی کوئی عام شئے نہیں ہے اس پر سنجیدگی اور فوری پُر کرنے کی ضرورت ہے.
اے ای او ایجوکیشن رحیم یار خان میڈم عطیہ کو کوٹسمابہ کے علاقے واہی جمن شاہ کے سکول میں سب طالب علموں کے سامنے تھپڑ اور مکے مارنے والی کمانڈو ہیڈ مسٹریس کے خلاف کیونکر محکمانہ کاروائی ہو سکیں. اس پر ہونے والی تشدد کی درخواست پر تھانہ کوٹسمابہ نے کیوں کاروائی آگے نہیں بڑھائی. نئے ڈپٹی کمشنر صاحب محکمہ تعلیم کے آفیسران سے اس بابت ضرور پوچھیں. کیا چیک اینڈ بیلنس اور گڈ گورننس اسی چیز کا نام ہے کہ کام کرنے والوں اور باز پرس کرنے صاف ستھرے لوگوں کو کرپشن اور خرد برد کرنے والے بااثر لوگ بے عزت کریں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ